زندگی اور موت کے درمیان ایک لکیر کا فاصلہ ہے اور اس کی مسافت کے تعین کا فیصلہ انسانوں کی دسترس سے ماوریٰ ہے۔ موت ایک ایسی دیوار ہے جس کے دوسری طرف کے احوالِ واقعی کا اندازہ کرنازندہ انسانوں کے بس کی بات نہیں۔
سینئر سیاست دان اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور نعیم الحق تحریک انصاف کی اُن گنی چنی شخصیات میں شامل رہے جنھوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی، وہ لگ بھگ گزشتہ 24برس سے سیاسی میدان میں سرگرم تھے۔ عمران خان اور نعیم الحق کا ساتھ کیسے شروع ہوا اور پھر یہ تعلق دوستی میں کیسے بدل گیا۔ یہ 1980کی دہائی کی بات ہے جب عمران خان لندن میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ نعیم الحق بھی 1980میں بطور بینکر لندن میں رہائش اختیار کر چکے تھے۔ جس بینک میں نعیم الحق ملازمت کرتے تھے اسی بینک میں عمران خان کا اکاؤنٹ تھا۔
یہیں سے دونوں میں جان پہچان ہوئی جو نہ ٹوٹنے والے تعلق میں تبدیل ہوگئی۔ لندن میں عمران خان کے مالی معاملات بھی نعیم الحق ہی دیکھتے تھے۔ عمران خان نے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کے قیام کا فیصلہ کیا تو نعیم الحق پارٹی کے بانیوں میں شریک تھے۔ وہ ہر جگہ عمران خان کے ساتھ رہے۔ وہ پارٹی کے قدآور رہنما تھے جن کے مشوروں کو عمران خان بہت اہمیت دیتے تھے۔ نعیم الحق جب کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوئے تو عمران خان کے ساتھ ان کی قربت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کراچی میں وہ تحریک انصاف سندھ کے صدر تھے، اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد عمران خان نے انھیں پارٹی کا مرکزی سیکریٹری اطلاعات نامزد کر دیا۔ بعدازاں عمران خان نے انھیں اپنا اسٹاف افسر مقرر کر دیا۔ عمران خان کی ساری سیاسی مصروفیات کو ترتیب دینا انھی کی ذمے داری تھی جن میں غیر ملکی شخصیات اور سفیروں سے ملاقاتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔
نعیم الحق کا زیادہ تر وقت بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ میں واقع پارٹی کے چیئرمین سیکریٹریٹ میں گزرتا تھا۔ اب تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ عمران خان نے بغیر منزل کے پنچھیوں کو محفوظ پناہ گاہ دے کر اپنا گھر بھی خراب کر لیا ہے۔ یعنی تحریک انصاف میں فی الوقت پروفیشنلز کی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی صفوں میں افراتفری نظر آرہی ہے۔ اسے روکنا اتنا ہی ضروری ہو چکا ہے جتنا تحریک انصاف کا حکومت میں رہنا۔ کیوں کہ میں سمجھتا ہوں موجودہ حکومت میں بدانتظامی اپنی جگہ مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ حکومت کرپٹ ہے، اور ہاں موجودہ حکومت پر جو مہنگائی کے حوالے سے جہانگیر ترین وغیرہ پر الزامات لگے ہیں وہ بھی میں سمجھتا ہوں کہ ان ترجمانوں کی کوتاہی ہے جو صحیح انداز میں اس کا دفاع نہیں کر سکے ورنہ ن لیگ اور دوسری پارٹیوں کے عہدیداران کی بھی شوگر ملیں ہیں، انھیں بھی فائدہ ہوا۔
اس لیے ہمیں یقین ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت سے کم کرپٹ ہے، لیکن اُن کو چیزیں Manage کرنا آتی تھیں، پراپیگنڈہ کرنے کے ماہر لوگ تھے، وہ چیزوں کو ہینڈل کرنا جانتے تھے۔ ان کے پاس بھی ٹیم موجود ہے لیکن ان کی خاصیت ہے کہ یہ آپس میں زیادہ لڑتے ہیں۔ تحریک انصاف میرے خیال میں ابھی تک اس فارمولے پر بھی عمل نہیں کر پائی کہ "رائٹ پرسن فار رائٹ جاب"۔ اس کے ساتھ ساتھ نہ تو عمران خان کی تقریر لکھنے والے اچھے ہیں اور نہ ہی اُن کا کوئی قابل اسٹاف ممبر ہے، انھیں بات کرنی نہیں آتی، وہ پروفیشل انداز میں گفتگو کرنے سے عاری نظر آتے ہیں۔
جیسے ابھی کچھ دن پہلے عمران خان نے تقریر کی کہ برصغیر پر ترکوں نے 600سال حکومت کی۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن خان صاحب نے اسے غلط انداز میں پیش کرکے ایک نیا ایشو کھڑا کر دیا۔ اس خطہ پر واقعی ظہیر الدین بابر جیسے ترکوں نے حکومت کی ہے لیکن وہ یہ والے ترک نہیں تھے، البتہ بات وزیر اعظم نے ٹھیک کی لیکن اُن سے غلط انداز میں کہلوائی گئی۔ تقریر لکھنے والا اور تیاری کروانے والا تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے ان چیزوں سے نابلد ہو، جیسے وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہو۔
اُن کی جگہ اگر کوئی قابل آدمی رکھا جائے تو یقینا وزیر اعظم پر آدھی تنقید کم ہو جائے کیوں کہ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کا ورکر دل چھوڑ بیٹھا ہے۔ اراکین اسمبلی نے بھی حوصلہ چھوڑ دیا ہے، انھیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ابھی کچھ بھی نہیں بگڑا، محض سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نعیم الحق جیسے اپنے مخلص کارکنوں کو واپس لے آئیں تو خاصا فائدہ ہو سکتا ہے۔