اقوام متحدہ کا اجلاس ہوگیا، جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کی بہترین تقریر بھی ہو گئی، وہ وطن واپس بھی پہنچ گئے، کابینہ کا اجلاس بھی ہوگیا، پنجاب و وفاق کی کابینہ میں دوبارہ اکھاڑ پچھاڑ کا فیصلہ بھی ہوگیا، اقوام متحدہ میں موجود ملیحہ لودھی اور کئی سفارتکاروں کو تبدیل کر دیا گیا، مگر اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟کیوں کہ اس وقت پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنا ہی سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
ان مسائل میں سرفہرست مسئلہ کشمیر، معیشت، خارجہ امور اور اندرونی امن و امان اور انتظامی مسائل۔ اگر ہم مسئلہ کشمیر کی بات کریں تو وہاں آج دو ماہ ہوگئے کرفیو لگا ہوا ہے، اور کشمیر سے آنے والی خبروں کا کوئی حقیقی سورس بھی نہیں مل پار ہا کہ 80لاکھ مسلمانوں بلکہ سب سے بڑھ کر انسانوں کی کیا حالت ہوگی؟
اس حوالے سے پاک فوج اور حکومت کی کیا حکمت عملی ہے وہ بہتر جانتے ہیں اور یقینا ہماری پاک فوج بہتر حکمت عملی بنا رہی ہوگی، جس کا آنے والے دنوں میں یقینا اندازہ ہو جائے گا۔ مگر پاکستان کی حکومت کے لیے جو کرنے والے کام ہیں انھیں ضرور کرنا چاہیے، تاکہ ہم احتجاج سے آگے بڑھ کر کوئی اور حکمت عملی بھی بنا سکیں یا جوابی اقدامات کر سکیں جس سے یقینا بھارت کی حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔
اس حوالے سے ہماری حکومت اگر چند ایک ضروری اقدامات کر لے تو یقینا فائدہ ہو سکتا ہے، جیسے حکومت ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ بھارت کی فضائی حدود کو بند کرنا ہے یا نہیں، کیوں کہ ہمارے وزیر ہوا بازی کے بقول پچھلی دفعہ فروری میں جب بھارت کی فضائی حدود کی بندش کی گئی تھی تو 4ماہ میں اُسے 44ارب روپے جب کہ پاکستان کو 8ارب روپے نقصان ہوا تھا۔ میری ناقص رائے اور حقیر سے تحقیق یہی کہتی ہے کہ اس میں کوئی قانونی پیچیدگی نہیں ہے اور کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو ہمارے ملک کو اس سے روک سکے۔
پاکستانی فضائی حدود میں 11 ایسے راستے ہیں جو بھارت آنے یا جانے والے جہاز استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ بھارت کی سرکاری ایئر لائن "ایئر انڈیا" کی کم از کم 50 پروازیں روزانہ پاکستان کی فضائی حدود میں سے گزرتی ہیں۔ جب کہ دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کے جہاز اس کے علاوہ ہیں یعنی کم و بیش روزانہ 150پروازیں ایسی ہیں جنھیں پاکستانی حدود سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ پابندی کی صورت میں بھارت اور یورپ، امریکا اور مشرق وسطی کے درمیان چلنے والی بھارتی پروازیں متاثر ہوں گی۔
نہ جانے پاکستان کی کیا مجبوری ہے کہ وہ بھارت کی فضائی حدود دوبارہ بند کرنے سے قاصر ہے، اس حوالے سے کابینہ کے اجلاس بھی ہوئے ہیں مگر وزیر اعظم اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پائے، ایسا شاید اس لیے ہے کہ فضائی حدود کی بند ش کے ردعمل میں دلی بھی ایسی پابندی عائد کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان اور مشرقی دنیا کے ملکوں کے درمیان چلنے والی پروازیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
کیونکہ پاکستان اور مشرقی ممالک کے درمیان چلنے والی اکثر پروازیں بھارت کے اوپر سے ہو کر گزرتی ہیں۔ دوسرا اس کے ساتھ اگر ہم بھارت کے ساتھ تجارت کی بات کریں تو اس میں بھی ہم شش و پنج میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں، ہم کبھی تجارت بند کر دیتے ہیں تو کبھی اسے کھول دیتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت برائے نام رہ گئی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے لیے کیوں کہ بھارت محض چند اشیاء ہی پاکستان سے خریدتا ہے اور بدلے میں 2ارب ڈالر کی چیزیں تھما دیتا ہے۔
میرے خیال میں پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت بھی ختم کردینی چاہیے، اور ہمیں ادویات سازی کے لیے را مٹیریل پورا کرنے کے لیے بھی دوسرے ممالک سے رجوع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور ویسے بھی چونکہ پاکستان انڈیا کی نظر میں تجارت کے لیے "پسندیدہ ترین" نہیں رہا، کیوں کہ نریندر مودی نے پاکستان کو دیے گئے موسٹ فیورڈ نیشن کے درجے سے ہٹا دیا ہے۔
(ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قوانین کے تحت 1996 میں پاکستان کو دیا گیا "موسٹ فیورڈ نیشن" (ایم ایف این) یعنی تجارت کے لیے سب سے پسندیدہ ملک کا رتبہ واپس لے لیا ہے۔ )اس لیے اس فیصلے کے بعدفوری طور پر پاکستان سے انڈیا برآمد ہونے والی تمام اشیا پر کسٹم ڈیوٹی 200 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے۔ 200 فیصددرآمدی ڈیوٹی لگانے کا مطلب پاکستان سے درآمدات پر عملی طور پر پابندی لگانا ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری بھارت کے ساتھ تجارت شروع سے ہی ایسی رہی ہے، بھارت اور پاکستان کی تجارت کا آغاز تقسیم ملک کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ 1947سے شروع ہونے والی یہ دوطرفہ تجارت 1949 تک پہنچتے پہنچتے 58 فیصد ہوگئی تھی۔ پاکستان اپنا خام مال بھارت بھیجتا اور اس کے بدلے میں دوسری اشیاء درآمد کرتا۔
تیسر ایہ کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی سرحد دنیا کی آدھی آبادی کے ساتھ لگتی ہے، یعنی چین، ایران، افغانستان، بھارت اور کسی حد تک روس بھی اس لیے ہمیں اپنی تجارت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم دنیا کی آدھی آبادی کے ساتھ تجارت کرسکیں۔ اگر بھارت ہماری اشیاء نہیں خریدتا تو ہمیں نئے خریدار تلاش کرنا ہوں گے، اپنی پراڈکٹس میں جدت لانا ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ چین، روس یا ایران ہماری کوئی چیز کیوں خریدے گا؟ جب ہماری پراڈکٹ میں انفرادیت کا عنصر ہوگا تبھی دنیا کی مارکیٹ ہمیں منہ لگائے گی۔
چوتھا یہ کہ ہمیں ملک میں حکومت کی رٹ بحال کرنا ہوگی، صرف ملک کے بارے میں سوچنا ہوگا، منی لانڈرنگ پر قابو پانے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ لوگ ریاست سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں، دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم "معاشی دہشت گردوں " کو آج تک سزا نہیں دے سکے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم ٹیکس نہ دینے والوں کا محاسبہ نہیں کر پا رہے، الغرض ہر جانب ریاست کی رٹ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ لہٰذاہمیں اپنی معاشی حالت بہتر بنانی چاہیے، اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں، ٹیکس نہ دینے والوں کا محاسبہ کرنا چاہیے، کاروباری ماحول کو بہتر بنانا چاہیے۔ اور سب سے بڑھ کر ہماری پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے تاکہ ہم "ٹکر" کی لڑائی لڑ سکیں!