ہم نے بھٹو دور سے لے کر آج تک ہر دورِ حکومت کو قریب سے دیکھا اور پرکھا، ہر دور میں کوئی اسکینڈل آتا تو سوچتا کہ اس سے بڑا اسکینڈل یا اس سے بری خبر اور کیا ہو سکتی ہے، لیکن اگلی بار اس سے بھی بڑی خبر سامنے آ جاتی۔ جب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور میں بڑے بڑے اسکینڈلز سامنے آتے تو سوچتے کہ اب مزید کرپشن کیا ہو گی؟ لیکن حالیہ دور میں جیسے ہی چینی کمیشن رپورٹ منظر عام پر آئی اور وزیر اعظم نے اسے پبلک کرنے کا بھی حکم دیا لیکن ذمے داروں کے خلاف کیا ہوا؟ کچھ نہیں!
اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد ابھی ہم غم سے آزاد ہی نہیں ہوئے تھے کہ ایک اسکینڈل منظر عام پر آ گیا۔ اسکینڈل کیا ہے، بس لالچ، ہوس اور دولت کمانے کا جنون ہے۔ قارئین کو یاد ہو گاکہ چند ماہ قبل جون میں کورونا لاک ڈائون کے دوران پورے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا بحران پیدا ہوگیا تھا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہوا کہ پٹرول نایاب ہو گیااور پھر دوبارہ قیمتوں میں اضافے تک پٹرول کی قلت رہی۔
پٹرولیم بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنایا گیا تھا، پٹرولیم کمیشن رپورٹ میں بھی ذمے دار ٹھہرائے جانے والے زیادہ تر کرداروں کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار کے ایوانوں سے رہا، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پچھلی حکومتوں میں فرنٹ مین کا کردار کوئی اور چہرے کرتے تھے جب کہ بیک اسٹیج کارروائیاں کچھ اور لوگ سر انجام دیتے تھے۔
اب آ جائیں پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ کے حقائق پر تو لیجیے جناب یہ رپورٹ 168 صفحات پر مشتمل ہے، جسے لاہور ہائیکورٹ نے پبلک کرنے کا حکم دیا ہے، یہ رپورٹ کیا ہے، بس سمجھ لیں کہ نوحہ پڑھا گیا ہے ہماری لوٹ مار کا، نوحہ پڑھا گیا ہے ہماری اشرافیہ کا، نوحہ پڑھا گیا ہے ہمارے سسٹم میں خرابی کا، ہماری کمزور حکومت کا، ہمارے حکام بالا اور اُن کے ذمے داروں کے رویوں کا، ملک کو ٹھیک کرنے والوں کا، نوحہ پڑھا گیا ہے، ہماری نااہلیوں کا، ہماری لا پرواہی کا اور ہماری نالائقیوں کا۔
رپورٹ میں ڈوب مرنے والا مرحلہ سب سے پہلے سن لیں کہ ویٹرنری ڈاکٹریعنی ڈنگر ڈاکٹر یعنی جانوروں کے ڈاکٹر کو ڈی جی آئل لگا دیا گیا، ان کے پاس آئل سیکٹر میں کام کا کوئی تجربہ نہیں۔ پھر رپورٹ کے مطابق 2002 میں بننے والی اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) 14 سال تک ایڈہاک بنیادوں یعنی عارضی حکم ناموں پر چلتی رہی، جسے چلانے کے 2016 میں قوانین نصیب ہوئے۔
حال میں جب تیل کی قیمتیں اوپر جانے لگیں تو پی ایس او کے سوا تمام کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کر کے تیل بحران پیدا کر دیا، جو کچھ بھی غلط ہو رہا تھا، اُسے حکومت کے متعلقہ ادارے نے روکنا تھا مگر وہاں بھی ناکامی کا داغ ہی نظر آیا۔ عوام لٹتے رہے، حکمران مزے میں رہے۔ مختصر کہ ملک کو کم و بیش ڈھائی تین سو ارب روپے کا سالانہ ٹیکا لگا، پھر یہیں بس نہیں، مذکورہ رپورٹ میں اور بھی بہت کچھ ہے۔
بہرکیف تیل بحران میں انکوائری کمیشن نے بعض لائسنس کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کمپنیوں کے پاس آئل ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اب یہ بات تو ایک عام آدمی کی سمجھ میں بھی آتی ہے کہ جس کمپنی کے پاس ایک ماہ کا تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہی نہ ہو اسے ہرگز لائسنس نہیں ملنا چاہیے۔ معاملات جو بھی ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ بقول شاعر
ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا
سب ہی ننگے ہیں کسے دیکھ کے شرماؤں میں
لگتا ہے اس ملک کا کوئی وارث نہیں رہا۔ پہلے اگر شک تھا تو پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ کے اس ناقابل یقین حقائق کے بعد علم ہوا ہے کہ واقعی یہ ملک یتیم ہے۔ جس کا شاید ہی کوئی والی وارث ہو!