کیسا معاشرہ معرض وجود میں آچکاہے، عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، فکر یہ نہیں کہ غریب آدمی کو علاج کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے مار دیا جارہا ہے، بلکہ فکر یہ ہے کہ اس طرف کوئی توجہ دے گا بھی یا نہیں!فکریہ بھی ہے کہ جو مسیحا حکمران صحت و تعلیم کی بنیادی ضروریات کے نام پر ووٹ لے کر آئے وہ بجائے اسپتالوں، اداروں کو ٹھیک کرتے اُلٹا مریضوں ہی کو پیس کر پیسے وصول کر نے لگے ہیں۔
پریشانی تو یہ ہے کہ پہلے سے موجوداسپتالوں کو ٹھیک کرنا تو ایک طرف اُن کی نجکاری کرنے کے راستے تلاش کیے جارہے ہیں، اور اب حالات یہ ہیں کہ گزشتہ روز پنجاب حکومت کی جانب سے غریب مریضوں کے لیے تمام قسم کے معمولی ٹیسٹوں کی فیسوںمیں بھی نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس پر نوحہ نہ پڑھوں تو کیا پڑھوں؟ اس پر ڈاکٹر یاسمین راشد کے سامنے عرض گزار نہ بنوں تو کیا بنوں؟ اس پر عمران خان کے سامنے دست بستہ گزارش نہ کروں تو کیا کروں بقول شاعر
ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
اب غریب غربا، بھوکے ننگے، فاقہ زدہ بوسیدہ لباس، ہڈیوںکے ڈھانچے، اجڑے پجڑے، تاثرات سے عاری چہرے، کانپتے لرزتے گھگیاتے، منمناتے بے چارے غریب عوام میں اس قدر سکت بھی نہیں کہ وہ اس اقدام پر احتجاج ہی کر سکیں۔ اُلٹا غریب عوام کو کہہ دیا گیا ہے کہ اگر انھوں نے مفت ٹیسٹ کروانے ہیں تو وہ محلے کی زکوٰۃ کمیٹی سے فارم تصدیق کروائیں، تب انھیں ٹیسٹ فری کرکے دیا جائے گا۔ اب بندہ پوچھے کہ مریض اسپتال میں داخل، علم نہیں کہ ڈاکٹر نے کب اور کونسا ٹیسٹ کس وقت "ارجنٹ" کے لیے لکھ دینا ہے تو ایسے میں غریب کو کیا سوجھی کہ وہ "تصدیق کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرے۔ غریب مریضوں کے لیے سرکاری اسپتال ہی آخری امید بچی تھی۔ نجی اسپتالوں میں کوئی غریب مریض جا ہی نہیں سکتا۔
کسی بھی ملک میں صحت کی سہولت، بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک تصور کی جاتی ہے اور ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کو علاج معالجے کی سستی اور معیاری سہولیات فراہم کرے۔ لیکن معذرت کے ساتھ حالیہ اقدام اس کے اس دعوے کی نفی کر رہا ہے اوریقینا تحریک انصاف ایسے اقدامات سے اپنے مخلص سپورٹرز کا اعتماد کھو رہی ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے پسماندہ طبقے کو ان دونوں شعبوں میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔ اس کے بدلے میں اگر آپ کو ریونیو ہی چاہیے ہے تو آپ سگریٹ پر" ہیلتھ ٹیکس" لگا دیں یا اگر لگا ہوا ہے تواُسے مزید بڑھا دیں، لگژری آئٹم پر ٹیکس بڑھا دیں، مہنگی گاڑیوں کو لاکھ لاکھ روپے مزید مہنگا کر دیں، مہنگے ریسٹورنٹ میں 5فیصد ہیلتھ ٹیکس لگا دیں یا کسی بھی مہنگی برانڈ شاپ پر ایک دو فیصد ہیلتھ ٹیکس لگا دیں۔
افسوس کہ ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا بلکہ غریب مریضوں کو پہلے سے دی گئی سہولتوں سے بھی ہاتھ کھینچا جا رہا ہے۔ حالات تو یہ ہیں کہ اب بھی خوش اسی طبقے کو کیا جا رہا ہے جن کی کرپشن کر کر کے موٹی موٹی گردنیں، تین تین مرلوں پر پھیلے منہ، بیش قیمت لباس، کئی کئی کروڑ کی گھڑیاں اور ڈائمنڈ کف لنکس، مگرمچھوں اور سانپوں کی کھال سے بنے جوتے، اربوں روپے کی گاڑیوں کے جلو میں جلوے بکھیرتے، یہ سیون اسٹار ڈاکو وہ ہیں جو گزشتہ 72سال سے ملک کو لوٹ رہے ہیں، پکڑنا ہے تو انھیں پکڑا جائے۔ ان سے ٹیکس وصول کیا جائے یا کم از کم لوٹا ہوا مال ہی واپس لے لیا جائے۔
میں یہ بھی نہیں کہتا کہ حکومتی خزانے بھرے ہوئے ہیں، یا گزشتہ حکومتوں نے موجودہ حکومت کے لیے سورسز کے انبار لگادیے ہیں لیکن کم از کم عوام کو بنیادی سہولتیں تو سرکار کی ذمے داری بنتی ہیں۔ اگر ہم صحت و تعلیم پر کام نہیں کریں گے تو کون دعوے سے کہہ سکتا ہے کہ حکومت عوام کی خیر خواہ ہے۔ اور ویسے بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں شعبہ صحت کا شمار ایسے شعبوں میں ہوتا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں، دنیا کے 188 ممالک کی فہرست میں صحت کے حوالے سے 149 ویں نمبر پرموجود اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں شہری علاج معالجے کی معیاری سہولیات سے محروم ہیں۔
یہ ملک زچہ بچہ کی سہولیات کے حوالے سے دنیا میں 134واں نمبر رکھتا ہے۔ مزید سنیے! آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہو گی کہ یہاں 6لاکھ افراد کے لیے ایک ڈسٹرکٹ اسپتال ہے جب کہ دنیا میں یہ تناسب محض 10ہزار افراد کے لیے ہے۔ یہاں کا صحت کا سرکاری بجٹ کل بجٹ کا محض 2.3فیصد ہے، جب کہ امریکا میں یہ تناسب 17فیصد، برطانیہ میں 15فیصد، جب کہ یورپ کے دیگر ممالک میں یہ تناسب 8فیصد سے زائد ہی ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں جن بڑ ے شہروں مثلاً لاہور، اسلام اباد، کراچی، ملتان میں اچھے سرکاری اسپتال موجود ہیں وہ پورے ملک کی آبادی کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تو کیا بلکہ ان شہروں میں رہائش پذیر شہریوں کو بھی معیاری علاج فراہم کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔
خدارا ہم اس حکومت کے ناقدین میں سے نہیں ہیں بلکہ ہم ہر اُس چیز کو Appreciateکر رہے ہیں جو حکومت اقدام اُٹھا رہی ہے، ٹیکس بڑھا رہی ہے، سخت اقدام اُٹھا رہی ہے، لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لا رہی ہے، بجلی بڑھ گئی، گیس کی قیمت بڑھ گئی، وغیرہ وغیرہ کیوں کہ جب بھی کوئی حکومت آتی ہے تو وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے ہی سب کچھ ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن صحت پر عوام کو حکومت دے ہی کیا رہی ہے جو اُن کے معمولی ایکسرے، خون ٹیسٹ، جگر ٹیسٹ، الٹراساؤنڈ، سی بی سی ٹیسٹ وغیرہ کے ریٹ بڑھا دیے گئے ہیں۔ شعبہ صحت کی سنگین صورتحال پر ہر دور حکومت میں حکمران اس شعبہ کی بدحالی کا رونا روتے ہوئے اس کی بحالی کے لیے انقلابی اقدامات کے دعوے کرتے نظر آئے، لیکن حقائق ہمیشہ اس کے برعکس رہے۔
بہرکیف ہمارے آئین کے آرٹیکل 38کے الفاظ کے مطابق "ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بلاامتیاز مذہب، جنس، ذات، عقیدہ اور نسل، زندگی کی بنیادی ضرورتوں بشمول صحت اور علاج معالجہ کی سہولتوں کو یقینی بنائے" اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی صحت سے متعلق ملینیم چارٹر پردستخط کیے ہیں جسکے تحت ہر مہذب ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحت عامہ کی بہتر سہولتوں سے مستفید کرے، شہریوں کو صاف ستھرا ماحول، صاف پانی اور ملاوٹ سے پاک خوراک فراہم کرنے کے علاوہ غربت کے خاتمے کا بندوبست کرہے تا کہ شہری کم سے کم بیمار ہوں، کیونکہ صحت مند افراد ہی قوم کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لہٰذا پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ نہ صرف غریب مریضوںپر بری طرح اثرانداز ہو گا بلکہ اس سے متوسط طبقہ بھی پریشانی کا شکار ہو جائے گا۔
اس لیے گزارش ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں نادار اور بے سہارا مریضوں کے لیے سہولتوں پر مبنی پہلے سے پرانا نظام نہ صرف رائج رہنا چاہیے بلکہ غریب مریضوں کو مزید سہولتیں بہم پہنچانے کی گنجائش نکالی جانی چاہیے۔ اورنادار لوگوں کو مزید امتحان میں نہ ڈالاجائے اور مزید ظلم سے پرہیز کیا جائے کیونکہ یہی فلاحی ریاست کا تقاضا ہے، فلاحی ریاست نعروں اور دعوؤں سے نہیں عمل سے وجود میں آتی ہے۔