آج محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے12 ویں یوم شہادت پر ان کو یاد کرتے ہوئے ایک بار پھر دل کو تھامنا پڑرہا ہے کہ اگر آج وہ اس ملک کی قیادت کے لیے دستیاب ہوتیں تو شاید پاکستان کی سمت اور منزل کا ہمیں صحیح ادراک ہوتا۔ آج ہم مصائب و مسائل کی دلدل میں دھنسے نہ ہوتے۔ آج آپسی لڑائیوں میں وقت صرف کرنے کے بجائے عوام کا سوچ رہے ہوتے۔ دنیا کے عزت دار ممالک میں شامل ہوتے، خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمارا قبلہ درست سمت میں ہوتا، معیشت کو اس قدر نقصان نہ اُٹھانا پڑتا۔ یہ سب باتیں محض خام خالی نہیں بلکہ محترمہ کی بہادری کے لیے محض اتنی گواہی کافی ہے کہ وہ اپنے والد کے عدالتی قتل کے بعد انتہائی مشکل و نا مساعد حالات کا کمال دلیری، ثابت قدمی، عزم و ہمت استقلال سے سامنا کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کندن بن چکی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی عمر صرف 24 سال کی تھی، جب شہید بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔
وہ نہ سیاست سے آگاہ تھیں، نہ پارٹی لیڈروں اور کارکنوں سے کوئی شناسائی، مگر پھر بھی شہید بھٹو نے جیل سے انھیں جو آخری خط لکھا، اس میں انھوں نے اپنے اس عظیم عوامی ورثے پیپلز پارٹی کی وراثت شہید بی بی کو سونپ دی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک لیڈر بن کے انھوں نے اپنی پارٹی کو ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت میں بدلا اور کس طرح ایک بڑی بہن، ایک ماں بن کے انھوں نے اپنے کارکنوں کی سیاسی پرورش کی۔ وہ اپنے مرحوم والد کے عدالتی قتل کا ذکر یوں کیا کرتی تھیں کہ "میں چھوٹے جیلر کے سامنے بے بس کھڑی تھی اور میرے ہاتھوں میں اپنے والد کے بچے کچھے سامان کی ایک پوٹلی تھی جس میں ان کی قمیض بھی تھی، جس سے کولون شالیمار کے عطر کی خوش بو ابھی تک آ رہی تھی اور میں نے ان کی قمیض کو اپنے ساتھ بھینچ لیا؛ اس وقت مجھے کیتھلین کینیڈی(امریکا کے سابق صدر جان ایف کینیڈی کی بیٹی) یاد آ گئیں ؛ جنھوں نے اپنے والد کے قتل کے بعد اس کا لباس پہن لیا تھا۔"
آج بھی پارلیمنٹ کی راہ داریوں میں ان کی آواز گونجتی ہے۔ وہ محض ایک عورت نہیں بلکہ ایک بہادر ماں اور بیٹی تھیں۔ بے جگری کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا مقابلہ کیا، جیل کاٹی، بے وطن ہوئیں، جلسے جلوسوں میں پولیس کے ڈنڈے کھائے، حتیٰ کہ سگے بھائیوں کے جنازے اٹھائے۔ اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لرزش نہیں آئی۔ گڑھی خدابخش میں تہہ خاک آرام کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کا پرچم اس شان سے اٹھایا کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور مزاحمت کی علامت بن گئی۔
لیکن اس کے برعکس آج ہمارے سیاستدان بہادری، بے باکی اور نظریاتی زندگی تو ایک طرف اخلاقیات سے بھی عاری نظرآتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزتوں کا خیال رکھنے سے بھی عاری، ایک دوسرے کی اخلاقی پردہ پوشی سے بھی عاری، بے نظیر بھٹو اگرآج زندہ ہوتی تو یقینا سیاست میں احترام ضرور ہوتا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ محترمہ بے نظیر نے اپنی ہی پارٹی کے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر رہنما کو صرف اس لیے پارٹی سے نکال دیا تھاکہ اُس نے مریم صفدر کے بارے میں برے الفاظ کا استعمال کیا تھا۔ جب کہ اُن کے مقابلے میں محترمہ کے سخت ترین سیاسی حریف ن لیگ والے اُن کے پوسٹر ہیلی کاپٹر سے پھینکتے رہے۔
کردار کشی کی انتہا کو چھوتے حریف سیاستدان اُن کے خاندان کی دوسری عورتوں کو بھی نہ بخشتے!۔ حالانکہ جب زرداری جیل میں تھے تو محترمہ کو سخت گرمی میں بچوں کے ہمراہ 2، 2 گھنٹے ویٹنگ ایریا میں انتظار کروایا جاتا۔ کون سی گالی ہے جو محترمہ کو نہ دی گئی ہو۔ کوئی اور ہوتا، مگر پہاڑ جیسا صبر رکھنے والی بے نظیر نے ان لوگوں کو بھی برداشت کیا۔ لیکن جب بی بی اقتدار میں آئیں توان کی جانب سے انتقام کی سیاست کو دفن کر دیا گیا، انھوں نے ن لیگ کو کچھ نہ کہا۔ اور عوام کی خدمت کرنے میں مگن ہوگئیں۔
میں نے اُن کے دور اقتدارکے حوالے سے چند دستاویزات کو ٹٹولا تو یقین مانیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ انھوں نے مختصر عرصے میں کس قدر عوامی کام کیے مثلاََانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہیومن رائٹس کی وزارت کا قیام، اور متعلقہ قوانین کا نفاذ، چائلڈ لیبر سے متاثرہ بچوں کے لیے سینٹر کا قیام، محنت کشوں کے مفاد میں قانون سازی، ٹریڈ یونین کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ، دورآمریت میں جبری برطرف کیے گئے 40 ہزار سے زیادہ ملازمین کی بحالی، ہر شہر میں لیبر کالونیاں بنائیں، مزدوروں کو پنشن کا حق دیا، لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار کے مواقعے فراہم کیے۔
خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی، پارلیمانی بل پیش کیے گئے، جن میں گھریلو تشدد کے خلاف، خواتین کی سیٹوں کی بحالی اور عزت کے نام پر قتل روکنے کے لیے بل شامل ہیں۔ پولیس تشدد کے خلاف خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوڈ آف کریمنل ایکٹ1994پاس کیا، خواتین کو قانونی مشاورت دینے کے لیے حکومت نے Women indistress قائم کیا۔ قومی کمیشن برائے خواتین قائم کیا گیا۔ خواتین کے لیے علیحدہ پولیس اسٹیشن ورکنگ ویمن کے لیے ہوسٹلز، برن یونٹس ووکیشنل ٹریننگ پروگرام شروع کیا گیا اور کمپیوٹر سینٹر قائم کیے گئے۔
عورتوں کے خلاف تشدد کے بارے میں Cedaw کی تائید کی گئی جس سے پاکستان کی پوزیشن واضح ہوگئی۔ خواتین کو معاشی طور پر طاقتور بنانے کے لیے قرضوں کے اجرا کا وسیع پروگرام ترتیب دیا گیا۔ خواتین کا پہلا بینک بھی محترمہ کا کارنامہ ہے۔ خواتین کو روزگار فراہم کرنے کے لیے محترمہ نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پروگرام شروع کیا اور ایک لاکھ 33ہزار افراد پر مشتمل نیٹ ورک قائم کیا گیا، تاکہ ملک میں دیہی اور شہری خاندانوں کی خدمت کی جاسکے۔
پبلک سروس میں خواتین کے کوٹے مختص کیے گئے، خواتین جج تعینات کی گئیں اور خواتین کے لیے سوشل پروٹیکشن کے کئی پروگرام شروع کیے گئے۔ بے نظیربھٹو کی حکومت میں عام لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے اور معیشت کو سدھارنے کے اقدامات کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ یو این او کی تنظیم ILOنے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ نوکریاں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں پیدا کی گئیں۔ محترمہ نے 1994ء میں نئی پاور پالیسی دی، جس سے ملک میں توانائی کا بحران ختم کرنے میں مدد ملی۔ لوڈشیڈنگ کو ختم کیا گیا اور ایک مربوط معاشی ترقی کی بنیاد ڈالی گئی۔ 1993ء سے 1996ء کے دوران توانائی، پیٹرول اور کیمیائی شعبوں میں 3 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ 1800شہروں میں بجلی اور 1.5ملین گیس کنکشن فراہم کیے گئے۔
زرعی شعبے میں ترقی کی شرح منفی 1.5 سے بڑھ کر 6 فی صد سالانہ ہوگئی۔ میڈیا سے سینسرشپ کا خاتمہ کیا گیا۔ ملک میں پہلی مرتبہ نجی میڈیا کی بنیاد ڈالی، ووکیشنل اور ٹیچرٹریننگ پروگرام شروع کیے گئے۔ قومی نصاب تبدیل کیا گیا اورنجی شعبے میں یونیورسٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی۔ اسی لیے تو محترمہ کی شہادت پر ایک ہندوستانی اخبار نے اپنی اخبار کی لیڈ اسٹوری لگائی تھی، کہ "آج پاکستان اپنے شناختی کارڈ سے محروم ہو گیا"
المختصر محترمہ مخالفین کو اپنے کام سے متاثر کرنے کا ہنر جانتی تھیں، اُن کا ذہن اور مزاج جمہوری نہ ہوتا، تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ بھائیوں کے اصرار، لیبیا کے صدر کرنل قذافی اور افغان حکومت کی ترغیب کے باوجود انھوں نے "الذوالفقار" کی کارروائیوں کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ ضیا الحق کا مقابلہ میدان سیاست میں کرنے کا فیصلہ کیا نہ کہ توپ وتفنگ سے۔ برسراقتدار آکر نہ صرف پیپلزپارٹی کے مخالفین کو معاف کر دیا بلکہ بعض کو اپنی حکومت اور پارٹی میں بھی شامل کر دیا۔ انگریزی میں کہاجاتاہے کہ
"Keep your friends close and your enemies closer."
یعنی دوستوں کو قریب اور دشمنوں کو قریب تر رکھیں۔ بے نظیر نے اس اصول پر عمل کرتے ہوئے غلام اسحاق خان کو صدر اور صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیرخارجہ قبول کرکے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو بھی اقتدار میں شراکت دار بنایا۔ ملک کی باگ ڈور ایک منتخب وزیراعظم کے ہاتھ آئی، تو بتدریج جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے لگیں۔
بہرکیف 12سال گزر گئے ہم ہر سال اُن کے قاتلوں کو نہ پکڑنے کے حوالے سے ہم نوحہ پڑھتے ہیں، لیکن سوچا اس بار اُن کی شخصیت و قابلیت کے اُن پوشیدہ پہلوؤں پر بات کی جائے جن کے بارے میں ہماری نئی نسل بے خبر ہے اور ویسے بھی بی بی کے قاتلوں نے گرفتار ہونا ہی نہیں تو ہم کیوں واویلا کریں۔
بھئی اگر اُن کے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے اُن کی پارٹی کو دلچسپی نہیں تو ہمیں کیوں ہوگی! لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ پیپلز پارٹی کی بچی کھچی پارٹی میں عوام کے لیے آج بھی درد ہے، لیکن اس درد کا کیا کرنا کہ جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو یہ "درد والے" پیچھے چلے جاتے ہیں اور ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، رحمان ملک، مظفر اویس ٹپی جیسے لوگ فرنٹ پر رہ کر قبضہ کر لیتے ہیں جب کہ اعتزاز احسن، رضا ربانی، فرخ سہیل گویندی، قمر الزمان کائرہ، ناہید خان جیسے لوگ پیچھے چلے جاتے ہیں۔ زرداری کی اسی پالیسی کی وجہ سے آج پیپلزپارٹی قومی سیاسی جماعت سے صوبائی سیاسی جماعت تک سکڑ گئی ہے اور اگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو میرے خیال میں حالات قدرے مختلف ہوتے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے اندر محترمہ جیسا جذبہ پیدا کریں، ساری سیاست، مخالفتیں، حمایتیں، نفرتیں، محبتیں ایک طرف مگر ہمیں مل کر پاکستان کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے اور یہی بات محترمہ بھی اکثر کہا کرتی تھیں اور ساتھ یہ شعر بھی پڑھا کرتی تھیں کہ
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں