سیاسی انجینئرنگ کیا ہوتی ہے؟اس کا جواب جاننے کے لیے دنیا بھر کے "پولیٹیکل سائنس" کے طلباء پاکستان آکر اسے دیکھ سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں، سمجھ بھی سکتے ہیں، عملی جامہ بھی پہنا سکتے ہیں، ریورس بھی کروا سکتے ہیں، مکمل اور ضخیم کتاب بھی لکھ سکتے ہیں، نصاب کا حصہ بنا سکتے ہیں اور سب سے اہم بات اس انجینئرنگ کے غیبی "کرداروں" کا حقیقی کردار بھی دیکھ سکتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس کھیل میں دنیا کے بہترین کھلاڑی بھی یہیں پائے جاتے ہیں، جب کہ یہاں ’سیاسی انجینئرنگ، یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ (حکومت اور اپوزیشن )ہوتی ہے، حکومت چاہ کر بھی ون سائیڈڈ میچ نہیں کھیل سکتی، کیوں کہ دونوں اطرف کے کھلاڑی منجھے ہوئے تصور کیے جاتے ہیں، تبھی تو الیکشن کے دنوں میں "الیکٹیبلز" کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ تاکہ اس کھیل میں ہمیشہ ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دیا جاسکے۔
سوال یہ ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کیا ہوتی ہے؟ اور اس کا استعمال کہاں کیا جاتا ہے؟ویسے تو انجینئرنگ سے مراد کسی بھی کام کو سائنسی اصولوں کے ساتھ کرنے کے عمل کو کہتے ہیں لیکن یہاں "سیاسی انجینئرنگ" کو ہمیشہ طنزیہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے مراد معاشرے میںصاحب اقتدار قوتیں دوسروں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتی ہیں، تاکہ وہ من پسند نتائج حاصل کرکے اپنے مطابق معاشرے کو چلا سکیں۔
دنیا بھر میں سیاسی انجینئرنگ کو استعمال کیا جاتا ہے مگر وہاں مقاصد نیک اور معاشرے کے لیے سود مند ہوتے ہیں مثال کے طوپر سیاسی انجینئرنگ کی ایک شاخ "مذہبی انجینئرنگ" بھی ہے، اگر مذہب میں کسی چیز کو عصر حاضر کے مطابق سوسائٹی میں Implementکیا جانا ہواور وہ پورے معاشرے کے لیے بہتر بھی ہواور آپ کا مفاد بھی پورا کررہی ہو تو اُسے ایسے طریقے سے لوگوں کے درمیان لایا جاتا ہے کہ تمام لوگ اسے قبول کر لیں۔ اسے وقت کی ضرورت بھی کہہ لیں اور مجبوری بھی!
خیر بات ہو رہی تھی سیاسی انجینئرنگ کی تو پاکستان میں یہ اصطلاح ہمیشہ اپوزیشن استعمال کرتی آئی ہے۔ جیسے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اپنی ہر پریس کانفرنس میں اس کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں، اور جب سے اُن کے والد اور پھوپھی کو کرپشن میں گرفتار کیاگیا ہے تب سے وہ یہ اصطلاح بہت زیادہ مرتبہ ادا کر رہے ہیں۔ اُن کے مطابق حکومت سیاسی انجینئرنگ کا گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے۔ حالانکہ شاید انھیں یہ علم نہیں کہ اُن کے والد محترم زرداری صاحب اس "پولیٹیکل انجینئرنگ" کے چیف انجینئر رہے ہیں۔
اسی طرح مریم نواز، مریم اورنگ زیب اور دیگر اپوزیشن رہنماء اس لفظ کو بہت زیادہ استعمال کررہے ہیں، جب کہ اب اس اصطلاح کا تازہ استعمال چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی کیا ہے، نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان خطرات، معلومات، خدشات اور تاثر کو بھانپتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ عدلیہ بطور ادارہ اس تاثر کو بہت خطرناک سمجھ رہی ہے کہ ملک میں جاری احتساب کا عمل "سیاسی انجینئرنگ" کے لیے ہے، اس تاثر کے ازالے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹوازم میں عدم دلچسپی پر خوش نہیں، جب کہ وہی طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹوازم پر تنقید کرتا تھا۔
چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی ان کے بارے یہ تاثرعام تھا کہ وہ بلاوجہ سوؤموٹو کااختیار استعمال نہیں کریں گے اوراخبارات کی زینت بننے کی بجائے اپنے ادارے میں اصلاحات کا عمل شروع کریں گے۔ یہ بات درست ثابت ہوئی۔ انھوں نے بطورِجج بھی اپنے طورپرسپریم کورٹ کی حد تک تمام فوجداری مقدمے نمٹائے اورچیف جسٹس بننے کے بعد سپریم کورٹ میں ای کورٹ کانظام متعارف کروایا، جس کے باعث سائلین کے مالی مسائل کم ہوئے اوروکلا کوبھی محض ایک مقدمے کی خاطر دوردراز کے سفر سے نجات ملی۔
ماتحت عدالتوں میں ماڈل کورٹس کااجرا کیااورفوجداری مقدمات کو نمٹانے کی رفتارمیں اضافہ ہوا۔ پہلی بار ماتحت عدالتوں یعنی ڈسٹرکٹ کورٹس میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں کمی کا رجحان مشاہدے میں آیا۔ گوکہ ان کابطور چیف جسٹس آف پاکستان دورانیہ صرف ایک سال ہوگا، لیکن انھوں نے محض آٹھ ماہ کے قلیل عرصے میں نمایاں اقدامات کیے ہیں، جن کافائدہ خاص طورپر سائلین کوپہنچ رہا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کچھ عرصہ پہلے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کاتصور متعارف کروارہے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اپنے فیصلوں میں انگریزی ادب کا تڑکا لگانے میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ اس لیے اُن کا یہ کہنا درست ضرور ہو سکتا ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کہیں نہ کہیں ضرور ہو رہی ہے۔ کیوں کہ بادی النظر میں چیف جسٹس نے اپنی کم گوئی میں بہت کچھ کہہ دیا ہے۔
بہرکیف میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ماضی میں ملزمان کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جا سکا، کیوں کہ پاکستان کاسیاسی، عدالتی نظام اورکلچر ایساہے کہ یہاں بڑے لوگوں اوربااثراشرافیہ کو سزائیں کم ہی ملتی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی اسٹیج پرپہنچ کرکسی نہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
میں پہلے بھی بارہا یہ کہہ چکا ہوں کہ یہ سب بااثر لوگ ہیں، اگر ان پر آپ الزام ثابت کر سکتے ہیں تو کریں، ورنہ وقت ضایع نہ کریں، کیوں کہ حالات اس طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ سزا ہو بھی گئی تو پیسے ریکور نہیں ہوں گے۔ اور اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو آنے والے ماہ وسال میں ہم کیسے گزارہ کریں گے؟ مجھے لگتا ہے کہ سیاسی انجینئرنگ ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دے گی، اگر ملک کو بچانا ہے اور ترقی کی منزل کی طرف لے کر جانا ہے، اگر ہمیں اپنا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے تو پھر مخلصانہ انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔