انتظامی بنیادوں پر پنجاب کی تقسیم پر جتنا میں لکھ چکا ہوں، اتنا شاید ہی کسی نے لکھا ہو، وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لیے بل لانے کا اعلان کردیا ہے۔ مذکورہ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، چیف سیکریٹری، آئی جی پنجاب کے ساتھ ساتھ صوبائی وزارا اور صوبائی و وفاقی اراکین اسمبلی بھی شریک ہوئے۔ جس میں فیصلے کیے گئے کہ بہاولپور میں سیکریٹریٹ اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری ساؤتھ اور ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ لگایا جائے گا۔
چیف سیکریٹری کا دفتر بہاولپور اورایڈیشنل آئی جی کا ملتان میں دفتر ہوگا۔ صوبے کے لیے انتظامی سیکریٹریٹ بہاولپور بنانے کا اعلان کیاگیاہے۔ سیکریٹریٹ کے لیے ساڑھے تین ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نئے سیکریٹریٹ کے لیے 1350پوسٹس درکار ہوں گی۔ اس کے علاوہ پنجاب کے بجٹ میں 35فیصد جنوبی پنجاب کے لیے رکھا گیاہے۔ آگے چل کر کٹھن راہیں آئیں گی۔ آئین میں درج نیا صوبہ بنانے کی شرائط سخت اور مشکل ہیں۔
سب سے پہلی اور مشکل شرط تو یہ ہے کہ جس صوبے کی تقسیم مقصود ہے، اس کی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے اس کی منظوری دے۔ تحریک انصاف پنجاب کی حکمران پارٹی ضرور ہے، لیکن اسے297 صوبائی نشستوں میں سے سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں۔ جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کو121 نشستیں حاصل ہوئی تھیں، جو کل صوبائی نشستوں کا تقریباً اکتالیس فیصد تھیں۔ بعدازاں تیس آزاد ارکان میں سے اکثریت کی حمایت اور مخصوص نشستوں پر سیٹوں کے حصول کے بعد کل 371 نشستوں میں 180 نشستوں کے علاوہ مسلم لیگ ق کے دس اور چار آزاد ارکان کی حمایت کے ساتھ کل 194 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف نے حکومت بنائی۔
اس طرح اس کے پاس دوتہائی کے لیے درکار 66 فیصد کے بجائے محض 53 فیصد نشستیں ہیں۔ دو تہائی اکثریت کے لیے تحریک انصاف کو 248 نشستیں درکار ہیں، جو اس کے پاس نہیں ہیں۔ اس لیے نئے صوبے کا کام پھر کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن اس کو ایک تیر سے دو شکار کھیلے گی۔ پہلا یہ کہ وہ جنوبی پنجاب میں اپنے اس اقدام سے اپنی سیاسی صورتحال بھی مستقبل کے حوالے سے بہتر کر لے اور لاہور کو بھی تحریک انصاف سے چھڑوا لے؛ اگر موجودہ اسمبلی سے صوبہ پنجاب میں سے صوبہ جنوبی پنجاب علیحدہ نکالا جائے، تو جنوبی پنجاب میں بزدار اور حمزہ شہباز کو وسطی شمالی پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ مل جائے گی۔
خیر یہ سیاسی پیش رفت تو ہوتی رہیں گی لیکن ہم سب کو اس بات پر قائل ہونا پڑے گا اور اُن لوگوں کی تکلیف کو سمجھنا پڑے گا اس کو برداشت کر رہے ہیں، میرے بہت سے دوست ایسے ہیں جنھیں اپنا جائز حق لینے کے لیے رات بارہ بجے میانوالی، بہاولپور یا ڈی جی خان جیسے علاقوں سے نکلنا پڑتا ہے تب صبح وہ لاہور ہائی کورٹ وقت پر پہنچ پاتے ہیں۔ ہائی کورٹ کا ایک بنچ سرگودھا، جوہر آباد یا میانوالی میں نہیں بن سکا۔ انصاف لینا ہے تو لاہور جاؤ، علاج کروانا ہے تو لاہور جاؤ، کسی کا تبادلہ کرانا ہے تو لاہور جاؤ، کسی بیمار کے ٹیسٹ کرانے ہیں تو لاہور جاؤ۔ افغانستان جس کی آبادی 4کروڑ بھی نہیں ہے وہاں بھی 15سے زائد صوبے ہیں۔
مزید دیکھیں کہ پورے جنوبی پنجا ب کو ایک سرکاری نشتر اسپتال کے رحم وکرم چھوڑا ہوا ہے، آج جنوبی پنجاب کے 32 فیصد عوام والے صوبے کا نعرہ تو لگایا جا رہا ہے، اسے کوئی نیا سرکاری اسپتال، نیا کالج یا نیا ٹراما سینٹر مہیا کیا جائے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ملتان سے میانوالی جاتے ہوئے کئی دفعہ ایم ایم روڈ سے گزرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اس روڈ اور اس شہر کا مسیحا نیند کی گولی کھا کر سو رہا ہے۔
مجھے وہاں کے رہائشی ایک دوست بتا رہے تھے کہ سب سے زیادہ حادثے اس روڈ پر ہوتے ہیں مگر آج تک کسی مسیحا کی نظر اس طرف نہیں گئی۔ یہی صورت حال مجموعی طور پر وہاں سڑکوں، کالجز اور اسپتالوں کی ہے۔ پنجاب کی تقسیم کی مخالفت کرنے والے کیوں بھول رہے ہیں کہ آج اکیسویں صدی میں نئی آبادیاں اور نئے شہر ناگزیر ہو گئے ہیں اور خاص کر کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے لیے۔ میں اس سے قبل بھی کئی کالموں میں اس کا ذکر کر چکا ہوں کہ پنجاب کی انتظامی لحاظ سے کار کردگی اس لیے خاطر خواہ نہیں کہ ایک وزیراعلیٰ سے بارہ کروڑ کی آبادی سنبھالنا یقینا مشکل کام ہے۔
وہاں کے 99فیصد آبادی میں صرف تعصب اور غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ آپ اس حوالے سے سرائیکی ادب کا مطالعہ کر لیں، جس طرح علیحدہ صوبے کے لیے ان کے انقلابی رجحانات اور سخت رویے موجود ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ علیحدہ صوبے کے معاملے میں کس درجہ سنجیدہ اور پروگریسیو ہیں۔
وہاں کے تخلیق کاروں کا خیال یہ ہے کہ صوبہ جنوبی پنجاب اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتاہے، اس کا ادب، ثقافت اور لسانی رویہ باقی تمام صوبوں سے مکمل مختلف اور مالا مال ہے۔ جنوبی پنجاب کے قیام سے اس تہذیب اور ثقافت کو نہ صرف ترقی ملے گی بلکہ اسے پنپنے کا موقع ملے گا۔ ہر دفعہ الیکشن کے دنوں میں وہاں کے سردار اور مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ ہولڈرزیہ نعرہ لگاتے رہے کہ الگ صوبہ بنایا جائے مگر الیکشنوں کے بعد وہی ہوتا رہا جیسا کہ عام طور اس ملک میں ہوتا رہا۔ اس دفعہ بھی الیکشن مہم میں خسرو بختیار اور اس کے قریبی ساتھیو ں نے یہ نعرہ لگایا کہ صوبہ بنے گا اور عوام نے ایک دفعہ پھر ان پہ بھروسا کیا۔ اب کی بار بھروسہ ٹوٹا تو یقینا تحریک انصاف کی یہ پہلی اور آخری حکومت ہوگی۔ اس لیے تحریک انصاف کو چاہیے کہ سمجھداری اور دیانتداری کے ساتھ اس مسئلے کو ختم کریں اور اپنا وعدہ پورا کریں۔ اور سب کو باور کروائیں کہ اگر کہیں اچھا کام ہو رہا ہے تو بطور قوم ہم سب کو مل جل کر پاکستان کی خاطر اس کارخیر میں حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ اس ملک کے مسائل کم ہوں اور ہم آگے بڑھ سکیں!