عمران خان کی گرفتاری بذات خود ایک اہم واقعہ ہے، مگر اس کے بعد جس طرح احتجاج ہوا اورلاہور، پنڈی، پشاور سمیت ملک کے بہت سے دیگر شہروں میں شدید توڑپھوڑ کے واقعات ہوئے، وہ اپنی جگہ تشویش کا معاملہ ہے۔ اس پورے دن کے واقعات کاایک خاص تسلسل تو ہے اور یہ آپس میں کڑیوں کی طرح جڑتے بھی ہیں، تاہم اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو ان واقعات کی الگ الگ صورت ہے۔ بہترہوگا کہ اسے سلائس بنا کرعلیحدہ علیحدہ بھی دیکھا جائے۔
سب سے پہلے عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کو لیتے ہیں۔ یہ کام نہایت بھونڈے طریقے سے کیا گیا۔ ہائی کورٹ سے کبھی کسی ملزم کو نہیں گرفتار کیا جاتا۔ خاص کر وہ جو عدالت میں پیش ہونے آیا ہو۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اگرچہ نیب کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا، مگر انہوں نے بھی اس طریقہ کار کو غیر قانونی کہتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے ہیں۔ یہ سیدھا سادا توہین عدالت کا کیس ہے اورہائی کورٹ کو سخت ایکشن لینا چاہیے تاکہ آئندہ اس قسم کا واقعہ نہ ہوسکے۔
گرفتاری کی ٹائمنگ بھی غلط اور نامناسب تھی۔ ملک میں اس وقت شدید سیاسی عدم استحکام ہے، صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا معاملہ سر پر کھڑا ہے، سپریم کورٹ کا چودہ مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف اور پی ڈی ایم حکومت میں مذاکرات کے دو دور چل چکے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومتی وزرا اور مشیر بار بار یہ سنہری مقولہ پیش کرتے ہیں کہ سیاسی معاملات سیاستدانوں پر چھوڑ دینا چاہئیں، وہ خود ہی حل نکال لیں گے۔ اس طرح سیاسی حل نکالا جاتا ہے؟ تحریک انصاف سے جب سیاسی مذاکرات کا عمل چل رہا ہے تو اس کے قائد کو یوں اچانک ایک مجہول سے کیس میں گرفتار کرنے سے کیا سیاسی استحکام پیدا ہوگا؟ افسوس حکومت نے نہایت عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کیا۔ عمران خان کی گرفتاری کا فیصلہ غلط تھا۔
براہ کرم کوئی وفاقی وزیر رانا ثنااللہ کی یہ دلیل نہ پیش کرے کہ اس گرفتاری سے ہمارا لینا دینا نہیں، یہ نیب نے گرفتار کیا ہے۔ نیب پچھلے دور حکومت میں بھی اپوزیشن رہنمائوں کی گرفتاریاں کرتا رہا ہے۔ پی ڈی ایم تب کہتی تھی کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت ان گرفتاریوں کے پیچھے ہے۔ یہ موقف اگر کل درست تھا تو پھر آج بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ پی ڈی ایم نے نیب کی کریڈیبلٹی کو چیلنج کیا تھا اور اس پر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے کا الزام لگایا تھا۔ آپ کے ماضی کے دلائل اور الزامات اب تحریک انصاف کے کام آئیں گے۔ عوامی سطح پر نیب کا یہ ایکشن حکومت کا ایکشن ہی سمجھا جا رہا ہے۔
عمران خان کو جس انداز میں اچانک گرفتار کیا گیا، اس پر ردعمل آنا فطری تھا۔ وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں۔ پچھلے ایک سال سے خان صاحب حکومتی جبر اور تشدد کا مقابلہ کر رہے ہیں، ان پر سوا سو کے قریب مقدمات درج ہوچکے ہیں، جن میں سے بیشتر بادی النظر میں کمزور اور جھوٹے لگتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کو گرفتاری کے بعد نامناسب سلوک کا نشانہ بنایا گیا، اس حوالے سے خاصی تلخیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لئے زماں پارک پر کئی بار کریک ڈائون کیا گیا، ماہ رمضان کا تقدس بھی پولیس کو نہ روک سکا۔
اس پس منظر میں عمران خان کی گرفتاری ان کے کارکنوں کے لئے ظاہر ہے پریشان کن اور دھچکے سے کم نہیں تھی۔ ان کے کارکن دیوانہ وار سڑکوں پرنکل آئے اوربلاسوچے سمجھے احتجاج شروع کر دیا۔ سیاسی جماعتیں احتجاج کرتی رہتی ہیں، یہ ان کا حق ہی سمجھا جاتا ہے۔ اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ سڑکیں بند نہ کی جائیں تاکہ عام شہری تنگ نہ ہو۔ بہرحال عوامی احتجاج کی صورت میں لوگ تھوڑے بہت تنگ ہوتے ہی ہیں، دکانیں، بازار بھی بند کرنے پڑتے ہیں۔ ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ یہ سب ناپسندیدہ اور ناخوشگوار سہی، مگر ہمارے مخصوصی سیاسی کلچر میں اسے" پارٹ آف دا گیم "سمجھ لیا جاتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کے کارکن یہاں تک رہتے تو شائد زیادہ مسئلہ نہ ہوتا۔
اس کے بجائے انصافین کارکنوں نے انتہائی غیر ضروری جوش، غصے اورخطرناک حد کو چھوتی فرسٹریشن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بہت سی جگہوں پر توڑ پھوڑ کی، عمارتوں کو آگ لگائی۔ سب سے سنگین یہ کہ وہ جلوس کی شکل میں کنٹونمنٹ ایریاز میں داخل ہوئے اور وہاں کئی اہم عمارتوں کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں کورکمانڈر ہائوس پر حملہ کرکے اسے مکمل طور پر جلا دیا گیا، سامان بھی لوٹا گیا۔ پنڈی میں جی ایچ کیومیں گھس گئے، پشاور میں خونریز ہنگامے ہوئے اور یہ سب کچھ بد ھ کو بھی جاری رہا، جب ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ میں گھس کر وہاں آگ لگائی گئی۔
جلائو گھیرائو کی یہ نہایت پریشان کن اور افسوسناک کیفیت کئی برسوں بعد نظر آئی۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کے کارکنوں کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف کے بیشتر کارکن اور حامی پڑھے لکھے لوگ ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز، پڑھی لکھی خواتین، نوجوان وغیرہ۔ لاہور اور دیگر شہروں میں ہونے والی ایسی توڑپھوڑ میں کئی جگہوں پر خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ امر مزید پریشان کن ہے۔ یہ اپنی جگہ سماجی علوم کے ماہرین کے لئے کیس سٹڈی بھی ہے کہ اس قدر شدید عدم برداشت کی کیفیت کیوں نظر آئی؟ یہ پڑھے لکھے مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس لوگ اتنے مشتعل اور غیظ وغضب کا شکار کس لئے ہوئے؟
میرے نزدیک تحریک انصاف کے کارکنو ںکا یہ توڑپھوڑ کا رویہ نامناسب، غلط اور ناجائز ہے۔ اس کی غیر مشروط مذمت کرنی چاہیے۔ انہیں پرامن سیاسی احتجاج کا حق یقینی طور پر حاصل تھا، مگر انہوں نے بہت شدید، نہایت غیر متناسب ردعمل دیا۔ ایسا جس کی کوئی تاویل پیش نہیں کی جا سکتی۔ جس کا دفاع ممکن نہیں۔ غلط کو غلط ہی کہا جائے گا۔
تحریک انصاف کی تنظیم اور پارٹی رہنمائوں کے رویے سے شدید مایوسی ہوئی۔ عمران خان تو چلو گرفتار ہوگئے، وہ نیب کی حراست سے بیان جاری نہیں کر سکتے تھے۔ پارٹی کی بقیہ قیادت اور صف اول، دوم، سوم کے لیڈر تو اپنی جگہ پر موجود تھے۔ انہوں نے کیوں غفلت برتی؟
یہ درست کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں پرامن احتجاج کی اپیل کی گئی تھی۔ بدقسمتی سے پنجابی محاورے کے مطابق اسے گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑنا ہی کہیں گے۔ شاہ صاحب اس پورے احتجاج میں منظر سے غائب رہے۔ سب کچھ تباہ وبرباد ہوگیاتب رات گئے وہ مختلف ٹی وی چینلز پراپنے مخصوص مصنوعی انداز میں چبا چبا کر بے رس گفتگو فرماتے پائے گئے۔ جب یہ ہو رہا تھا تو انہیں چینلز پر آ کر اپنے کارکنوں سے اپیل کرنی چاہیے تھی، اپنے نچلی سطح کے پارٹی رہنمائوں کو روکنا چاہیے تھا۔
ان مظاہروں میں کہیں کہیں ضلعی، ڈویژنل اور پنجاب سطح کے کئی رہنما شامل تھے۔ تاہم بنیادی طور پر یہ اچانک قسم کا ردعمل تھا اور بے سمت احتجاج تھا۔ کہا جارہا ہے کہ یہ منظم احتجاج تھا۔ ہمیں تو ایسا نظر نہیں آیا۔ لاہور میں خود مقیم ہوں، مشاہدہ بھی کیا۔ مختلف شہروں سے رپورٹر حضرات کی رپورٹیں بھی دیکھی ہیں۔ ان سب کے مطابق لوگ اپنے طور پر باہر نکلے اور پھر بتدریج قوت پکڑتے رہے۔ ایک وقت تھا جب انہیں روکا اور کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ ایسا تب نہیں ہوسکا۔ یہ کارکن کینٹ ایریاز میں گھس گئے تو پھر شائد یہ کسی کے کنٹرول میں نہیں رہے۔
بعض صحافتی اطلاعات کے مطابق پولیس اور انتظامیہ نے انہیں ٹریپ بھی کیا اور دانستہ روکنے کی کوشش نہیں کی تاکہ ان سے وہ غلطیاں سرزد ہوں جس کے بعد ہجوم کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور اسے منتشر کرنا آسان رہتا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو، مگر ذمہ داری پھر بھی تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے جو اتنی آسانی سے ٹریپ ہوگئی۔ یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف نے کبھی پلان بی تیار ہی نہیں کیا تھا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد کے منظرنامہ کا انہوں نے تجزیہ کرکے حکمت عملی نہیں بنائی تھی، اس لئے کہ منگل کو جو کچھ ہوا، وہ جنون اوربے تکے انداز میں ابال نکالنا تو تھا، اسے حکمت عملی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔
ابھی سیچوئشن سیال (Fluid)پوزیشن میں ہے، ایک دو دنوں بعد زیادہ واضح ہوگی۔ مجھے مگر یہ لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف نے ایک سال میں جتنا کچھ حاصل کیا تھا، وہ اس نے ایک دن میں لٹا دیا ہے۔ اپنا سیاسی اثاثہ، اخلاقی برتری، اپنی کریڈیبلٹی اور سیاسی جماعت کے طور پر احتجاج کا آئینی حق۔ انہوں نے سب کچھ گنوا دیا ہے۔ بظاہر لگ رہا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے بہت سخت، ناگوار اور تکلیف دہ دنوں کا آغاز ہوگیا ہے۔
تحریک انصاف کی غلطیاں اپنی جگہ مگر حکومت کوچاہیے کہ تحمل اور بردباری سے کام لے۔ تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا غیر حکیمانہ فیصلہ حالات زیادہ بگاڑ دے گا۔ بہت کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہے، پھر بھی سدھار کی کوئی صورت ہے تو وہ ضرور آزمانی چاہیے۔ ہر ایک کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسلسل سیاسی عدم استحکام ملک کو شدید معاشی عدم استحکام کی طرف لے جائے گا۔ اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔