معلوم نہیں سوشل انڈیکیٹرز، اکانومی وغیرہ کے حوالے سے نوے کا عشرہ (1990-99) کیسا تھا، ہمیں البتہ یہ ماہ وسال اس لئے زیادہ عزیز ہیں کہ کالج، یونیورسٹی کا یہی زمانہ تھا۔ میری صحافت کے ابتدائی پانچ برس بھی اسی عشرے میں آتے ہیں۔ لاہور میں بے فکری کے ایام، جب لکھنے پڑھنے، کھانے پینے اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے سوا کوئی اور کام نہیں تھا۔ ملازمت بھی لکھنے پڑھنے ہی سے متعلق تھی۔ اردو ڈائجسٹ میں کام کرتے ہوئے ابتدائی ایام میں مزے سے دفتر کی لائبریری سے کتابیں اٹھا کر پڑھا کرتا۔ ان میں سے بعض کتابوں کی تلخیص ڈائجسٹ میں کی تو یہ سوچ کر مزا آیا کہ آج تک پیسے دے کر کتابیں خریدتے اور پڑھتے رہے۔ زندگی میں پہلی بار کتابیں پڑھنے اور ان پر لکھنے کے پیسے ملیں گے۔ بڑا اچھا لگا۔
خیر نوے کے عشرے کے ابتدائی برس میری گریجوایشن اور پھر ایل ایل بی میں صرف ہوئے۔ کراچی میں کچھ عرصہ گزرا، وہ بھی یاد رہ جانے والے ایام ہیں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ وہ دن بہت خوبصورت، رنگارنگ اور منفرد تھے۔ شائد تب زمانہ کچھ اور ہی رفتار سے چل رہا تھا۔ انٹرنیٹ کا نام تک نہیں تھا، موبائل فون آئے نہیں تھے، سوشل میڈیا کی اصطلاح بھی کسی نے نہیں سنی ہوگی۔ ہم لوگ تو صرف پی ٹی وی کی صورت میں انٹرٹینمنٹ کے عادی تھے، پھر جب این ٹی ایم شروع ہوا تو اس نجی چینل کے ڈرامے مشہور ہوئے، ہمیں لگا کہ بڑے خوش نصیب ہیں کہ اب ہمارے پاس ایک آپشن اور آ گئی ہے۔ کیا معلوم تھا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب کیبل کی صورت میں سینکڑوں چینل اور نیٹ فلیکس، پرائم ویڈیو جیسے سٹریمنگ چینل کی صورت میں فلموں، ڈراموں وغیرہ کا خزانہ اتنا ارزاں داموں ہاتھ لگے گا۔
نوے کے عشرے کے سنہری اور سحرانگیز ہونے کا میں بڑا قائل ہوں، مگر اس حوالے سے گزشتہ روز ایک دلچسپ تحریر پڑھی تو لگا کہ قارئین سے شیئر کی جائے۔ یہ تحریر زارا مظہر کی ہے۔
زارا مظہر صاحبہ فیس بک کی معروف لکھاری، بلاگر ہیں۔ ایک گھریلو خاتون جن کے بچے بڑے ہوئے تو کچھ وقت ملنے پر انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ فیس بک اور پھر مختلف ویب سائٹس پر ان کی تحریریں لگنے لگیں، ہمارے اخبار رونامہ نائنٹی ٹو نیوز میں بھی ان کی کئی چیزیں شائع ہوئیں۔ ان کی تحریر میں ایسی پختگی، روانی اور دلکشی ہے کہ بہت جلدان کے قارئین کا ایک بڑا حلقہ پیدا ہوگیا۔ تحریروں کی پزیرائی دیکھ کر بہت سے لوگ انہیں کتاب چھپوانے کا مشورہ دے رہے تھے۔ اب معروف اشاعتی ادارے بک کارنر، جہلم نے ان کی منتخب تحریروں کا مجموعہ "دِلم"شائع کیا ہے۔ یہ واقعی دل سے لکھی تحریریں ہیں۔ ان میں سوشل ایشوز پر لکھے پراثر دلگداز بلاگز کے ساتھ ہلکی پھلکی، ادبی تحریریں اور چند ایک افسانے بھی شامل ہیں۔ تین سو صفحات کی اس کتاب میں بہت کچھ پڑھنے اورنقل کرنے کے قابل ہے۔
زارا مظہر بہت اچھا لکھتی ہیں۔ معروف ادیب، نقاد، افسانہ نگار عرفان جاوید نے اس کتاب کے حوالے سے خوبصورت تبصرہ کیا ہے: "زارا مظہر نے سادہ بیانی اور ایجاز سے مجسمے تراشے ہیں اور ان میں حقیقت کے وہ فطری رنگ بھرے ہیں جو سندر ہیں کہ فطرت اپنی اصل میں سندرتا کی زہرہ، سرخوشی کی وینس ہے۔ ان کے نثرپارے گویا پریم کتھا کی کڑیاں ہیں، محبت اور ناسٹلجیا ان کی تحریر کے خاص جواہر ہیں۔ ان کی تحریروں کے ہرے بھرے بوٹے ناسٹلجیا کی زمین سے سر نکالتے ہیں۔ "
انہی زارا مظہر کی اس کتاب"دِلم" سے مضمون یادرفتگاں پڑھ کر اچھا لگا کہ نوے کے عشرے کے ناسٹلجیا کا دلکش تذکرہ کیا گیا۔ زارا مظہر لکھتی ہیں : ـ "نوے کی دہائی ہر اعتبار سے تاریخ کی خوبصورت ترین دہائی تھی۔ ہر میدان کے عروج کا زمانہ تھا۔ سائنس وٹیکنالوجی پر لگا کر اڑان بھر رہی تھی مگر ابھی اچھا پکنے والا پکوان پڑوس میں پیالہ بھر بھجوانے کے لئے ایک کپ شوربہ بڑھا لیا جاتا۔ ایک پیالی گھی، چینی کے ادھار کے لین دین بغیر کسی شرمندگی کے چلتے رہتے۔ بے وقت کی بھوک روٹی کے اوپرمکھن اور چینی لگا کر مٹا لی جاتی۔ کتنی بھی آمدنی ہوتی، لڑکیاں بالیاں مائوں کی رہنمائی میں زندگانی کے تمام امور گھر ہی میں نمٹا لیتیں۔ گھروں کی صفائی دھلائی کے لئے ماسیوں کا رواج نہ تھا۔ عید شب رات پر بھی کپڑے گھر ہی میں سلتے۔ بچی ہوئی کترنیں بھی استعمال میں آ جاتیں۔ گوٹے کناری اور کِرن لپے والے لباس بھی گھر ہی میں تیار کئے جاتے۔ ملبوسات کی تیاری اور کشیدہ کاری کے ہر ٹانکے میں محبتیں اور دعائیں بھی کاڑھ دی جاتیں۔ حتیٰ کہ بیٹیوں کے مکلاوہ کے لئے سوجی اور خشک میوے کے لڈو بھی گھر کی سگھڑ خواتین خود ہی تیار کرتیں۔ یوں رونق میلے اور کھیل کھیل میں بچیوں کی تربیت بھی ہوجاتی۔
"اس کے باوجود کہ گھروں میں آٹھ دس بچے ہوتے، دو کمروں میں سب سوجاتے۔ گرمی میں شام چھ بجے پنکھے بند کرکے چھتوں پر رونق لگائی جاتی۔ رات دس بجے تمام گھر کی بتیاں بجھا دی جاتیں۔ پورا گھرانہ ایک ساتھ سوتا اور ایک ساتھ جاگتا۔ جس روز فجر کی نماز چھوٹ جاتی، مائیں سار ا دن نحوست اور بے برکتی کے طعنے دیتی رہتیں۔ شرم وحیا اڑنے اور قرب قیامت کی نشانیوں کی نوبت بجاتی رہتیں۔
"پورے پاکستان میں اکتیس مارچ تعلیمی اداروں کے سالانہ نتائج کا دن ہوتا۔ نئے جوڑوں کی شادی کی تاریخیں بلاججھک مارچ کے اینڈمیں موسم بہار میں رکھ لی جاتیں کہ مہمان سنبھالنا آسان ہوتا یا پھر دسمبر کی سردی کی چھٹیوں میں شادی نمٹ جاتی۔ میرج ہال یا مارکیز کا نام تک نہ سنا تھا کسی نے۔ گلی محلے میں چند گھنٹوں کے لئے تنبو قنات لگا کر مہمانوں کو کھانا کھلا لیا جاتا۔ خاندان کے تمام نوعمر لڑکے ازخود مہمان داری کی ڈیوٹی سنبھال لیتے۔
"لڑکے بالے خاندان کے تمام بزرگوں سے یکساں ڈرتے اور ان بزرگ ایکسرے مشینوں کے سامنے دانستہ جانے سے کتراتے۔ کسی لڑکے کو قابل اعتراض جگہ پر دیکھ کر رشتے دار بزرگ باقاعدہ گھر میں خبر پہنچانے آتے۔ ان دنوں روزگار کے حصول کے لئے باہر کے ملکوں میں جانے کا جنون شدت پکڑ چکا تھا۔ جس گھر میں دو چار بچے پڑھ رہے ہوتے، ان اوورسیز پاکستانیوں کی ان پڑھ مائیں پورے استحقاق سے وقت بے وقت چٹھیاں لکھوانے اور پڑھوانے ہر ہفتے آ جاتیں۔ جہاں انہیں چائے کی پیالی اور پورا پروٹوکول ملتا۔
"بہن بھائیوں کے چھوٹے ہوئے جوتے، کپڑے، جرسیاں، کتابیں کاپیاں چھوٹے بھائی بہنوں کو مل جاتیں اور وہ بھی رغبت سے تبرک کی طرح استعمال کر لیتے۔ پورے گھر میں ایک ہی ٹرن ٹرن والا لینڈ لائن فون ہوتا جو کسی درمیانی جگہ یا لائونج میں کنکٹ کرا لیا جاتا۔ لڈو، کیرم اور سکریبل مقبول ترین اِن ڈور گیمز تھے۔ آٹھ بجے پرائم ٹائم کا ڈرامہ پورا خاندان ایک جگہ بیٹھ کر دیکھتا۔ گلیاں کوچے ویران ہوجاتے۔ فیملی فرنٹ جیسا معیاری سٹ کام پیش کام کیا گیا۔ پنجابی فلموں اور موٹی تازی پلی پلائی ہیروئن کی جگہ اردو فلمیں اور دبلی پتلی ہیروئن اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔
"سائنس کی دنیا میں روز ہی کچھ نیا ایجاد ہوجاتا۔ گھر کے ابا، چچا، تایا مل کر قیامت قائم ہونے کی پیش گوئیاں فرماتے۔ دید، مروت، لحاظ، فرماں برداری کی حدبندی بھی اسی دہائی تک محدود رہی۔ پھر زمانہ روبہ زوال ہوگیا۔ لگتا ہے فیس بک فیلوز کی زیادہ تعداد بھی اسی خوبصورت دور کے سحر میں مبتلا ہے۔ سو ہم نوے 90کی دہائی کو اس صدی کی سنہری ترین اور آئیڈیل ترین دہائی پکارا کریں گے"۔