Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Afkaar e Shor

Afkaar e Shor

لیجنڈری صحافی، ادیب، مدیر شورش کاشمیری مرحوم کی کتاب "موت سے واپسی "کا تذکرہ پچھلی نشست میں آیا۔ شورش کاشمیری پر ایوب خان دور میں ان کے دلیرانہ اداریوں کی وجہ سے افتاد آ پڑی۔ انہیں کئی ماہ تک جیل میں قید رہنا پڑا۔ حکومتی حربوں کے خلاف احتجاجاًبھوک ہڑتال کی جس سے ان کی حالت خراب ہوگئی۔ ایوب خان حکومت کو جن اداریوں سے تکلیف پہنچی، ان میں سے ایک چار ستمبر 1967کوشورش کے ہفت روزہ چٹان میں دربار اکبری کے تحت ایک ڈرامائی فیچر تھا۔ جس انداز میں انہوں نے چاپلوس وزرا اور دیگر حکام کو بے نقاب کیا، اس سے ایوب خان کی حکومت کے وزرا مشتعل ہوگئے، صدر ایوب اور گورنر موسیٰ خان کو انہوں نے خوب بھڑکایا اور آخر کار حکومت نے وہ کر ڈالا جس کا انہیں سیاسی نقصان پہنچا۔

شورش کے اس ڈرامائی فیچر کو پڑھنا کسی سوغات سے لطف اٹھانے کے برابر ہے۔ اسے پڑھئیے۔ یہ کتاب قلم فائونڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم نے شائع کی ہے۔ شورش کی تمام کتابیں اب وہ پھر سے چھاپ رہے ہیں۔ اب شورش کاشمیری مرحوم کا تحریر کردہ وہ ڈرامائی فیچر:

دربار اکبری

شہنشاہ عالم پناہ جلال الدین اکبر ہشت پہلو تخت پر اپنے تمام دبدبے کے ساتھ فروکش ہیں، تخت کیا؟ سونے اور چاندی سے مسجع، الماس، لعل، یاقوت اور موتیوں سے مرصع۔ سرپہ چتر، زرکار، زرتار، جواہرنگار جھالروں میں مروارید و جواہرات جھلمل جھلمل کرتے، دربار میں امراء و روساء، وزراء و فقہائ، علمائ، وفضلا، مراتب کے زینوں پر ایستادہ۔

نورتن: علامہ اجل ابوالفضل، ملک الشعراء فیضی، حکیم ابوالفتح، حکیم ہمام، راجہ بیربل، راجہ ٹوڈرمل، عبدالرحیم خان خاناں، راجہ مان سنگھ، مرزاکو کلتاش خان۔

جہاں پناہ فرماتے ہیں: "جس ملک پر ہم نے اپنے اقبال کا پرچم لہرا رکھا ہے یہ ملک دو دانوں کا ملک ہے، عالموں کی نگری ہے، دانشمندوں کا گھر ہے، عقلمندوں کا حصار ہے، اس اقلیم نے بڑے بڑے رشی اور منی پیدا کئے۔ تاریخ سے پہلے بھی یہاں علم کا سراغ ملتا ہے، آریہ آئے تو علم و عقل کی دولت کے ڈھیر لگا دیے۔ گنگا اور جمنا کا پانی ان کے ہاتھوں سونا ہوگیا، آخر میں اسلام آیا، اس نے اس زمین کو اتنا سرسبز کیا کہ چاروں طرف علم و تہذیب کا لالہ زار کھل گیا۔ آج بھارت کی ساری رونق اسلام کے دم قدم سے ہے لیکن اے اعیان سلطنت ہمیں کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم ناخواندہ ہیں۔ قرطاس و قلم سے آشنا نہیں، اقبال ہمارا ضرور ہے لیکن علم ہمارے دربار میں تو ہے ہمارے پاس نہیں۔

تمام درباری مبہوت کھڑے ہیں، شہنشاہ جہاں پناہ کے روبرو، کسی کو یارائے سخن نہیں، شہنشاہ دوبارہ گویا ہوتے ہیں: اے اعیان سلطنت، ہمارے دل میں اپنے ناخواندہ ہونے کی خلش ہے"

ابوالفضل: جہاں پناہ علم آپ کا غلام ہے اور یہی منشائے ایزدی ہے۔

حکیم ابوالفتح: ظل اللہ آپ کے ہونٹوں کی ہر جنبش علم ہے۔

راجہ بیربل: آپ علم کا منبع ہیں۔

راجہ ٹو ڈرمل: علم آپ کے مندر میں دیو داسیوں کی طرح رہتا ہے۔

حکیم ہمام: آپ جو کچھ بولتے ہیں علم اس سے جلا پاتا ہے۔

عبدالرحیم خان خاناں: آپ کی تلوار سے علم پھوٹتا ہے۔

راجہ مان سنگھ: علم آپ کی چوکھٹ ہے۔

مرزا کو کلتاش: علم آپ کا خانہ زاد ہے، ادب آپ کے سامنے با ادب کھڑا ہوتا ہے۔ (دربار اکبری صفحہ137)۔۔ فتح پور سیکری کی ایک شام (قصر شاہی میں) شہنشاہ، ہم محسوس کرتے ہیں کہ رعایا کے بعض گروہوں میں کھسر پھسر ہوتی ہے۔ انہیں رام کرنے کے لئے کیا تدبیریں اختیار کی جائیں، ادھر ممالک محروسہ میں اعمال و افعال کی نگرانی بہت ضروری ہوگئی ہے۔

ابو الفضل: گیتی پناہ! فکر معلی میں وہ کون لوگ ہیں جن کے اعمال و افعال کی نگرانی ضروری خیال کی گئی ہے۔

شہنشاہ: بظاہر کوئی خاص جماعت نہیں، لیکن وقائع نویسوں کے بین السطور سے معلوم ہوتا ہے کہ رعایا کو مٹھی میں رکھنے کے لئے بعض طبقوں کو مٹھی میں رکھنا سلطنت کے فرائض میں شامل ہے، مثلاً امرائے سلطنت۔

ابوالفضل: جہاں پناہ! امرائے سلطنت ہمیشہ طاقت کی مٹھی میں رہتے ہیں رب ذوالجلال نے آپ کی طاقت کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے، ان سے کسی اندیشے کی ضرورت نہیں۔ کسی نے سرکشی کے عنوان سے سوچا بھی تو اس کا بھرکس نکال دیا جائے گا۔

شہنشاہ: وزرائے سلطنت؟

ابوالفضل: ظل اللہ ان کا وجود پیشانی مبارک کی شکنوں کے اتار چڑھائو پر ہے۔ ناراضی کی ایک شکن ان کا مدفن بن سکتی ہے۔

شہنشاہ: علمائ؟ ابوالفضل: آپ کے دست پناہ ہیں۔

شہنشاہ: مشائخ؟

ابوالفضل: کچھ گوشہ نشین ہیں جن سے کوئی خطرہ نہیں، باقی خوشہ چین ہیں جنہیں چوب شاہی کہا جاتا ہے۔

شہنشاہ: دور افتادہ راجے مہاراجے، جاگیردار، تعلقہ دار وغیرہ؟

ابوالفضل: جہاں پناہ ان کے لئے بستر عیش سے بڑی کوئی چیز نہیں، یہ لوگ دن کو سوتے اور رات کو جاگتے ہیں۔

شہنشاہ: تاجر پیشہ؟

ابوالفضل: وہ صرف نفع کے لئے جیتے ہیں۔

شہنشاہ: رعایا؟

ابوالفضل: راعی کی پرستار ہوتی ہے۔

شہنشاہ: ہم چاہتے ہیں یہ سلطنت جاوداں ہو جائے۔

ابوالفضل: جہاں پناہ یہ سلطنت جاواں ہے۔ جب تک پہاڑ کھڑے ہیں، سمندر موجود ہیں، دریا بہتے ہیں، میدان قائم ہیں، اس سلطنت کا آفتاب نصف النہار پر رہے گا۔ یہی امر ربی اور اسی کا نام دین الٰہی ہے۔

شہنشاہ: ابوالفضل ہم چاہتے ہیں ہماری کوئی تصنیف ہو۔

ابوالفضل: جہاں پناہ یہ عظیم سلطنت آپ کی سب سے بڑی تصنیف ہے۔ ظل الہ نے تلوار سے لکھی ہے۔ اعلیٰ حضرت صاحبقران تیمور نے تصور کیا، اعلیٰ حضرت ظل الٰہی ظہیر الدین بابر نے خیال باندھا، اعلیٰ حضرت نصیر الدین ہمایوں نے سرنامہ لکھا اور حضرت گیتی پناہ نے متن تحریر فرمایا۔

شہنشاہ: ہم ایک ایسی تصنیف چاہتے ہیں جو قلم سے لکھی جائے۔ دماغوں پر نقش ہو، دلوں میں جگہ پائے، زبانوں پر چرچا رہے، اہل علم اس کا تذکرہ کریں، اہل سخن اس کے قصیدے لکھیں۔ اہل نقد تبصروں سے چار چاند لگائیں جہاں تہاں اس کا شہرہ ہو، ابوالفضل! تلوار کی سلطنت آنی جانی ہے قلم کی سلطنت دائم رہتی ہے۔

ابوالفضل: جہاں پناہ منشائے ہمایونی سے غلام زادہ مطلع ہوتا ہے۔ ظل اللہ کی خواہش کے مطابق تزک اکبری تیار ہوگی اور رہتی دنیا اس پر فخر کرے گی۔

بیت ابوالفضل (ملا مبارک، ابوالفضل، فیضی)

ملامبارک: ملا عبداللہ سلطان پوری اور شیخ عبدالنبی، ان دونوں کا پتہ کٹ چکا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ شاہ کو شیشہ میں اتار لیں۔ بادشاہوں کا شعار ہے کہ اپنی متابعت اور اطاعت چاہتے ہیں۔ جو لوگ دربار میں موجود ہیں، وہ متابعت کا فرض بکمال وتمام ادا کر رہے ہیں۔ ان کے لئے شاہ کا ہر حکم حرز جان ہے۔ جہاں تک اطاعت کا تعلق ہے، اسکا جوا انہوں نے گردن میں ڈال رکھا ہے۔ وہ دربار کی نوکری نہیں کر رہی، بندگی کر رہے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اس اطاعت کو پروان چڑھائیں اور اسے عبادت بنا دیں۔ بادشاہ ناخواندہ ہو تو خوشامد اس کی معراج ہوتی ہے۔ وہ جلد ہی فریب نفس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہمیں بادشاہ کو عملاً ظل اللہ بنا دینا چاہیے۔ کلمہ اس کا پڑھیں اور اس قسم کی حدیثیں وضع کریں جس سے مترشح ہو کہ بادشاہ مامور من اللہ ہے۔ ایک گمراہ دماغ کو گمراہی پر جما دینا چنداں دشوار نہیں۔ ایک دفعہ وہ گمراہی کا ہو جائے تو پھر کوئی سی شے بھی اس کو راہ راست پر نہیں لاسکتی۔

ابولافضل: اباجان جو آپ نے فرمایا وہ ہر عنوان سے درست ہے۔ اب صرف اس کا عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ فیضی: ہمارا علم کس کا ہے، یہ نہ کر پائے تو پھر حیف ہے اس زندگی پر۔ آئیے اسے عملی جامہ پہنائیے۔ "

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran