Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Agay Kya Hoga?

Agay Kya Hoga?

حکومت سازی کے حوالے سے خدشات اب ختم ہوگئے ہیں۔ ن لیگ پیپلزپارٹی کے معاہدے سے یہ ظاہر ہوگیا کہ مرکز میں ایک مناسب اکثریت رکھنے والی حکومت بننے جا رہی ہے۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، آئی پی پی، ق لیگ وغیرہ کو ساتھ ملانے سے قومی اسمبلی میں سادہ مگر واضح اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ اگر تحریک انصاف کو خواتین کی مخصوص نشستیں ملیں تب بھی ان کی تعداد سو ا سو سے زیادہ نہیں ہوسکے گی۔ یعنی حکومتی اتحاد کی نشستیں دو سو کے لگ بھگ ہوجائیں گی۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جو سوچتے اور چاہتے تھے، ویسا تو نہیں ہو پایا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ حکومت میں شامل ہوئے بغیر ن لیگ کو سپورٹ کریں اور دو تین اہم آئینی عہدوں کو بھی حاصل کر لیں۔ ن لیگ یا ان کے حامیوں نے چابک دستی سے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اب پی پی پی جو بھی کہے، مگرمیاں شہباز شریف کے ساتھ زرداری صاحب اور بلاول بھٹو کے بیٹھنے اور مشترکہ پریس کانفرنس سے پیپلزپارٹی کا حکومتی پارٹنر ہونے کا واضح تاثر بنا ہے۔ پیپلزپارٹی اب اسی کشتی کی مسافر ہے، منزل پر پہنچے یاڈوبے، ہر دو صورتوں میں وہ بھی ساتھ ہی جائیں گے۔

ن لیگ کے لئے چیلنجز بڑے ہیں۔ اس وقت حکومت چلانا قطعی آسان نہیں۔ بہت سے مسائل ہیں۔ بڑے معاشی چیلنجز کے ساتھ ساتھ انتخابات میں جو کچھ ہوا، اس کا بھوت بھی اتنا جلد پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ انہیں فوری فوکس آئی ایم ایم کے ساتھ مذاکرات اور اگلے معاہدے کے حوالے سے شرائط وغیرہ کے حوالے سے کرنا پڑے گا۔ نئی حکومت کے لئے عوام کو فوری ریلیف دینا بھی آسان نہیں، ممکن ہے پٹرول کی قیمتوں میں کچھ کمی ہوجائے مگر اس سے زیادہ کرنا آسان نہیں لگ رہا۔ ماہرین پہلے ہی خبردار کر رہے ہیں کہ یہ گرمیاں بجلی کے صارفین کے لئے بہت مشکل ہوں گی، بل زیادہ آئیں گے اور آئی ایم ایف دو سویا تین سو یونٹ کے لئے بھی رعایت دینے پر شائد رضامند نہ ہوسکے۔

اہم معاشی فیصلوں کے لئے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کواپنے پورے انسانی وسائل اور دانش یکجاکر نا ہوگی۔ بہتر یہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی مرکز اور پنجاب میں وزارتیں لے اور وہاں ڈیلیور کرنے کی کوشش کرے۔ بلاول بھٹو نے الیکشن کمپین میں بہت سے وعدے اور کئی بلند بانگ نعرے دئیے تھے۔ وہ بے شک وزیراعظم نہیں بن سکے، مگر ان کی پارٹی اب حکومت کا حصہ ہے۔ جس حد تک ہوسکے بلاول کو اپنے منشور اور ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے۔ بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیں گے۔ انہیں اپنی حکومتی پارٹنر ن لیگ سے بات کرنی چاہیے۔ سیاسی قیدیوں کے حوالے سے نرمی کی جائے اور اپوزیشن رہنمائوں کو بے جا اسیر نہ کیا جائے تو اس سے سیاسی کشیدگی اور ٹمپریچر میں بھی کمی آئے گی۔ جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے آصف زردار ی صاحب بھی اگلے مہینے صدر بن جائیں گے۔ ان دونوں جماعتوں کو شریکے کے بجائے ایک گھر کے افراد کی طرح مل کر کام کرنا اور ملک کو بحران سے نکالنا چاہیے۔

ایم کیو ایم پہلے بھی پی ڈی ایم حکومت کا حصہ رہی، اب پھر سے وہ وفاقی حکومت میں شامل ہو رہی ہے۔ امکان یہی ہے کہ سندھ کا گورنر بھی انہی کا ہو۔ کراچی کے حوالے سے چیزیں بہتر کرنے میں ایم کیو ایم کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سندھ کی دونوں بڑی سیاسی قوتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو مل کراہل کراچی کی زندگی میں آسانی لانی چاہیے۔ یہ ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے پی میں بننے جا رہی ہے۔ علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ بنتے ہیں تو خاصے طویل عرصے کے بعد ڈی آئی خان سے کوئی چیف منسٹر بنے گا۔ ستر کے عشرے میں سردار عنایت اللہ گنڈاپور وزیراعلیٰ بنے تھے، ایم ایم اے دور میں بنوں کے اکرم درانی وزیراعلیٰ بنے، تب سے جنوبی اضلاع کو یہ مسند نہیں مل پائی۔ پچھلے پندرہ برسوں میں مردان کے امیر حیدر ہوتی، نوشہرہ کے پرویز خٹک اور سوات کے محمود خان ایک ایک بار وزیراعلیٰ رہے۔

علی امین گنڈاپور سے پورے صوبے کے عوام کو توقعات ہوں گی، مگر ڈیرہ اسماعیل خان کے شہری زیادہ پرامید ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے بہت کچھ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ڈیرہ شہر لبِ دریا ہے، مگر دہشت گردی کے عفریت نے اسے بہت نقصان پہنچایا، کئی برسوں تک وہاں موبائل فون کی بھی بندش رہی۔ اب بھی وہاں خاصے سکیورٹی خدشات ہیں۔ نئے وزیراعلیٰ کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علی امین گنڈا پور نے بعض بڑے اعلانات کئے ہیں، مگر جب وہ چیف منسٹر بنیں گے تب انہیں صوبے کے مالی حالات سے زیادہ بہتر آگہی ہوسکے گی۔ کچھ عرصہ قبل یہ خبریں بھی آتی رہیں کہ صوبے کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں۔ ایسے میں وزیراعلیٰ بڑا ریلیف کیا خاک دے پائے گا؟ تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں کو البتہ یہ فائدہ ضرور پہنچے گا کہ ان پر ناجائز مقدمات ختم ہوجائیں گے، پولیس تنگ نہیں کرے گی اور ان کے لئے آزادانہ قانونی جنگ لڑنا ممکن ہوجائے گا۔

مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے جا رہی ہیں۔ صوبے میں ان کی اچھی اکثریت ہے اور یہاں پر مخلوط حکومت کا دبائو بھی نہیں۔ ن لیگ کو عدم اعتماد کا کوئی خطرہ نہیں۔ سابق چیف جسٹس عطا بندیال کے ایک فیصلے پر ن لیگ بہت تنقید کرتی رہی کیونکہ اس سے حمزہ شہباز شریف کی صوبائی حکومت ختم ہوگئی تھی، اب وہ فیصلہ مریم نوا ز شریف کی حکومت کے بہت کام آئے گا۔ انہیں اپنی پارٹی میں سے کسی بھی قسم کے فارورڈ بلاک کا خطرہ لاحق نہیں ہوگا اور نہ آئندہ کبھی فارورڈ بلاک کے لوگ پارلیمانی لیڈر کے خلاف ووٹ ڈال سکیں گے۔ ان کے ووٹ بھی شمار نہیں ہوں گے اور سیٹ بھی جاتی رہے گی۔ اس اعتبار سے پنجاب کی حکومت مرکز کی نسبتاً زیادہ مضبوط اور طاقتور ثابت ہوسکتی ہے جسے اتحادیوں کو خوش رکھنے کی قطعی حاجت نہیں۔

مریم نواز شریف کے لئے اصل مسئلہ ان کی ناتجربہ کاری ہے۔ انہوں نے اب تک کسی انتظامی عہدے پر کام نہیں کیا۔ بیوروکریسی کو ڈیل کرنے اوروزارتوں کی گھمن گھیری کوسمجھنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ البتہ مریم نواز کو اپنے تجربہ کار والد کی حمایت، رہنمائی اور سرپرستی حاصل ہے۔ وہ والد کے مشورے سے اچھے تجربہ کار بیوروکریٹ صوبے میں لگا سکتی ہیں۔ مرکز میں بھی انہیں سپورٹ کرنے والی حکومت موجود ہے۔ انہیں کئی تجربہ کار ن لیگی اراکین اسمبلی کی خدمات بھی حاصل ہیں جنہیں وزارتوں میں رہنے کا تجربہ بھی ہے۔ اپنی پسند کی ٹیم بنانا مسئلہ نہیں بنے گا۔

مریم نواز شریف کے لئے البتہ اصل چیلنج صوبے میں سیاسی تلخی اور کشیدگی کے ماحول کو کم کرنا ہے۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر اور جارحانہ انداز رکھنے والی احتجاجی لیڈر کا کردار ادا کر چکی ہیں۔ اپنی مخالف جماعت کے قائد عمران خان کے لئے بہت سخت الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ وزیراعلیٰ کے طور پر البتہ انہیں زیادہ تحمل، برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سیاسی کشیدگی بڑھانا کسی بھی اپوزیشن پارٹی کی خواہش ہوتی ہے جبکہ اسے کم کرنا اور پرسکون ماحول بنانا حکمران جماعت کا کام اور ذمہ داری ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ن کو اس حوالے سے کشادہ فکری اور کھلے دل کا رویہ اپنانا ہے۔

صوبے میں سیاسی قیدیوں اور ناجائز مقدمات کے حوالے سے انہیں نرم پالیسی بنانی چاہیے۔ عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں، البتہ وہاں سے ریلیف پانے والے کسی اپوزیشن رہنما یا کارکن کو کسی نئے ناجائز مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔ یہ وہ چیز ہے جو انہیں کام کرنے کے لئے مطلوبہ ماحول فراہم کرے گی۔ وزیراعلیٰ کے طور پرمریم نواز شریف کی گورننس اور کارکردگی بہت اہم ہوگی۔ اگلے الیکشن میں سب سے زیادہ ن لیگ کی صوبے میں پرفارمنس جانچی جائے گی۔ اگر وہ ڈیلیور کر پائیں تو ان کی پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ ان کی ناکامی ن لیگ کو اگلے الیکشن میں بہت شدید نقصان پہنچائے گی۔ جو تجزیہ کاراسے ن لیگ کا آخری چانس کہہ رہے ہیں، ان کی بات بے وزن نہیں۔ ہر حال میں ڈیلیور کرنا ہوگا، غلطی کی گنجائش نہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran