اگلے ماہ شروع ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لئے پاکستانی قومی ٹیم کا اعلان ہوگیا ہے۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام پڑھ کر سنائے۔ انضمام الحق پاکستان کی جدید کرکٹ کے بڑے بلے باز ہیں، کرکٹ کے لئے ان کی بڑی خدمات ہیں۔ وہ کپتان بھی رہے، مگر بنیادی طور پر ان کی سوچ دفاعی اور ڈری ہوئی تھی۔ وہ کبھی جرات مندانہ کپتانی نہیں کر سکے۔ مجھے یاد ہے کہ تب زمبابوے کی ٹیم دنیا کی سب سے کمزور اور تھکی ہوئی تھی۔ اسے ہر کوئی نہایت آسانی سے ہرا دیتا تھا۔
انضمام تب دنیا کا واحد کپتان تھا جو زمبابوے سے میچ سے پہلے بھی بیان دیتا کہ ہم زمبابوے کے ساتھ میچ کو پوری سنجیدگی سے لیں گے، کوئی ٹیم کمزور نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔ چلیں یہ کہنا تو اچھا ہے کہ آپ اوورکانفیڈنٹ نہیں ہیں اور اچھی طرح پلان کرکے کھیل رہے ہیں۔ انضی بھائی مگر زمبابوے کے خلاف بھی اپنی فل ٹیم کھلاتے اور حرام ہے کہ کسی نئے کھلاڑی کو آزما لیتے۔ وہ ٹیسٹ ٹیم کے کپتان تھے تو نمبر چھ کی جگہ خالی تھی، نمبر تین پر یونس خان، چار پر یوسف اور پانچ پر انضمام خود آتے، چھٹے نمبر پر انہیں اچھا سپیشلسٹ بلے باز لانا چاہیے تھا تاکہ مڈل آرڈر مزید مضبوط ہو۔
مصباح الحق تب اس پوزیشن کے لئے بہترین کھلاڑی تھے، انضمام الحق مگر ان کی جگہ عبدالرزاق کو کھلا دیتا یا شعیب ملک کو۔ دونوں ہی ٹیسٹ بلے باز نہیں تھے، مگر اس لئے کھیلتے کہ انضمام کو لگتا کہ یہ پانچ سات اوور کرا لیں گے۔ بے شک ان کے اوورز کا ٹیم کو ٹکے کا فائدہ نہ پہنچتا۔ انہیں لگتا کہ عبدالرزاق تجربہ کار ہے تو اسے کھلا نا چاہیے اور مصباح چاہیے جتنا باصلاحیت ہے، چونکہ اس نے کم میچ کھیلے ہے، اس لئے نہیں۔
جب انہیں چیف سلیکٹر بنایا گیا تب بھی ایسی ہی سلیکشن فرماتے رہے۔ یہ تو ان کے بعد پہلے مصباح الحق اور پھر محمد وسیم نے جرات مندانہ فیصلے کئے اور قومی ٹیم میں نسیم شاہ، عبداللہ شفیق، سعود شکیل، سلمان آغا، حارث رئوف اور محمد رضوان وغیرہ کی جگہ بنی، ورنہ وہی گھسے پٹے مہرے تجربہ کار کھلاڑی ہونے کے ناتے کھلائے جا رہے ہوتے۔
خیر ہمارے انضی بھائی نے پریس کانفرنس میں ٹیم کا اعلان کیا اور بار بار وہ نہایت رقت آمیز لہجے میں کہتے رہے کہ اللہ کرے گا یہ کھلاڑی پرفارم کریں گے، اللہ کرے گا کہ سپنر وکٹیں لیں گے، اللہ کرے گا ٹیم پرفارم کرے گی اور ورلڈ کپ جیت کر لوٹے گی۔
انضمام الحق کا یہ جذبہ اور نیک دلی بہت ہی خوش آئند ہے۔ میرے جیسے لوگ بھی یہی جذبہ اور سوچ رکھتے ہیں۔ البتہ ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ دعا دوسرے نمبر پر آتی ہے، پہلے نمبر پر تو اپنی بہترین کوشش، اچھی موزوں پلاننگ وغیر ہ کا نمبر آتا ہے۔ اپنی سی بہترین کوشش کی جائے اور پھر دعا۔ رب تب مہربانی فرما کر کرم فرماتا ہے۔ کوشش ناقص اور ادھوری ہو تو پھر قدرت سے بھی شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔
انضمام الحق کا کام ورلڈ کپ کے لئے بہترین ٹیم کی سلیکشن کرنا تھا۔ کیا وہ یہ کام کر پائے؟ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا۔ انہوں نے متوازن اور مضبوط ٹیم منتخب نہیں کی۔ ایسی ٹیم بنائی جس میں کمزور لنک موجود ہیں۔ کمزور کڑیاں جو کسی بھی اچھے اور سخت مقابلے میں ٹوٹ سکتی اور ہار کا باعث بن سکتی ہیں۔
ٹیم کے اکثر کھلاڑی تو پہلے سے طے شدہ تھے۔ بابراعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی، حارث رئوف، افتخار احمد، سلمان آغا، امام الحق، سعود شکیل، عبداللہ شکیل وغیرہ پراتفاق رائے تھا۔ کوئی بھی چیف سلیکٹر ہوتا، ان کھلاڑیوں کی سلیکشن یقینی تھی۔ وجہ تنازع تین فیصلے تھے۔
فخرزمان کی بطور اوپنر سلیکشن، کیونکہ وہ کچھ عرصے سے آئوٹ آف فارم ہے۔ سوال یہ تھا کہ فخر کو ورلڈ کپ میں لے کر جایا جائے یا اس کی جگہ کسی اور کھلاڑی کو لے لیں۔ انضمام الحق نے فخر کو رہنے دیا۔ بابراعظم کا بھی اصرار ہوگا۔ فخر ایک بڑا اور امپیکٹ کھلاڑی رہا ہے۔ جب وہ چلتا ہے تو میچ جتوا دیتا ہے۔ شائد اسی لئے اسے رکھا گیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کا متبادل عبداللہ شفیق موجود ہے، اگر فخر نہ چلا تو امام الحق اور عبداللہ شفیق اوپننگ کر سکتے ہیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ نسیم شاہ کا متبادل ڈھونڈنا تھا۔ نسیم شاہ پاکستان کا بہترین بائولر ہے، انجری ایسی ہوئی کہ کئی ماہ کے لئے باہر ہوگیا۔ اس کی جگہ ایسا فاسٹ بائولر چاہیے تھا جو مخالف ٹیم کو تنگ کر سکے اور ڈیتھ اوورز (آخری دس اوورز)میں اچھی بائولنگ بھی کرا سکے جیسا کہ نسیم شاہ کر لیتا تھا۔ انضمام الحق نے حسن علی کو منتخب کیا۔ حسن علی کئی سال تک ٹیم کے لئے کھیل چکے ہیں، وہ بابراعظم کے قریبی دوست بھی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حسن علی ٹیم کے ورلڈ کپ پلان کا حصہ نہیں تھے۔ وہ خاصے عرصے سے ٹیم کے لئے نہیں کھیل رہے، ان کی فارم بھی اچھی نہیں۔ حسن علی کی بائولنگ میں اب کئی سال پہلے جیسی کاٹ موجود نہیں۔ وہ وکٹیں لے سکتے ہیں نہ ہی رنز بچا سکتے ہیں۔ آخری اوورز میں خاص طور سے حسن علی غیر موثر ہیں۔ انضمام الحق نے کہا ہے کہ حسن علی تجربہ کار بائولر ہے۔ کیا میچوں میں تجربہ کھیلے گا یا فارم اور صلاحیت؟
حسن علی کو دو ہزار انیس کا ورلڈ کپ کھلایا گیا تھا، ہمارے شیر نے چار میچ کھیل کر بمشکل دو وکٹیں 124 کی شرمناک اوسط سے حاصل کی تھیں۔ ٹیم نے انہیں ڈراپ کرکے تب" ناتجربہ کار"شاہین شاہ کو کھلایا اور شاہین نے پانچ میچز میں 14.6کی اوسط سے سولہ وکٹیں حاصل کیں۔ افسوس کہ تب بہت دیر ہوچکی تھی اور پاکستان سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ دیکھیں حسن علی اب کی بار کیا گل کھلاتے ہیں؟
ہمارے پاس ایک بہترین متبادل زمان خان کی صورت میں تھا۔ یہ نوجوان فاسٹ بائولر نئی گیند اور پرانی گیند دونوں سے بائولنگ کرا سکتا ہے۔ اس کی خاص خوبی منفرد ایکشن کی وجہ سے ڈیتھ اوورز میں بہت اچھے یارکر اور سلوگیندیں کرانا ہے۔ زمان خان نے پی ایس ایل میں ثابت کیا ہے کہ وہ آخری اوورز میں بہت کم رنز دیتا ہے۔ ایشیا کپ کا ایک میچ زمان خان کو کھلایا گیا اور اس کی کارکردگی بہت عمدہ رہی۔ بابراعظم اور انضمام الحق نے زمان خان کی جگہ حسن علی کو منتخب کیا۔ بظاہر یہ ایک بڑی غلطی لگ رہی ہے۔ انضمام کے ڈرے ہوئے دفاعی ذہن میں شائد یہ ہو کہ حسن علی تھوڑی بہت بیٹنگ کر لیتا ہے۔ یہ انہیں سمجھنا چاہیے کہ جہاں ٹیم کے چھ سات سپیشلسٹ بلے باز کچھ نہیں کر سکتے تو وہاں پر ریلو کٹے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔
تیسرا بڑا مسئلہ پاکستانی ٹیم میں اچھے سپنر کا انتخاب تھا۔ پاکستانی سپنر اچھی بائولنگ نہیں کر ارہے اور درمیانی اوورز (پندرہ سے پینتیس چالیس تک)میں وکٹیں نہیں لے پاتے۔ شاداب خان ٹیم کا مین سپنر ہے، مگر کچھ عرصے سے وہ وکٹ نہیں لے پارہا اورہر میچ میں اس کی خوب دھنائی ہوتی ہے۔ محمد نواز کی گیندیں ٹرن ہی نہیں ہوتیں۔ اسامہ میر روایتی انداز کا لیگ سپنر ہے جس کے پاس کوئی ورائٹی نہیں۔ اچھی گگلی یا تیز فلپر سے وہ محروم ہے۔
انضمام کو غور کرنا چاہیے تھا کہ ورلڈ کپ انڈیا میں ہے جہاں سپنرز کو کچھ نہ کچھ مدد ملے گی۔ انضی کو ٹیم میں کم از کم ایک اچھا لیگ سپنر شامل کرنا چاہیے تھا۔ ابرار احمد کی صورت میں ایک مسٹری سپنر موجود ہے۔ چلیں شاداب خان کو سردست ڈراپ نہیں کرنا چاہتے نہ سہی، نائب کپتانی سے بھی اسے نہیں ہٹایا گیا۔ اسامہ میر کو تو ہٹایا جا سکتا تھا، ا سکی جگہ ابرار احمد کو مل جاتی۔ اسی طرح محمد نواز کی جگہ عماد وسیم کو مل سکتی تھی۔ عماد وسیم کے کچھ مسائل ضرور ہیں، مگر وہ حل ہوسکتے تھے، بابر اعظم کے ساتھ اسے بٹھا کر ان کی غلط فہمیاں دور کر لی جاتیں۔ عماد وسیم نئی گیند سے ابتدائی اوورز میں سپن بائولنگ کر سکتا ہے جو کہ پاکستان کو ایک نئی آپشن دے دیتی۔ عما د لوئر مڈل آرڈر میں ایک اچھا کھبا بلے باز بھی تھا جو بڑے شاٹس کھیل سکتا ہے۔
انضمام الحق نے کوئی بولڈ قدم اٹھانے کے بجائے وہی تینوں سپنرز ٹیم میں برقرار رکھے اور ان کے حق میں دعا فرما دی۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ انضی خاصا وقت لگا چکے ہیں، آج کل وہ سر پر نماز والی ٹوپی بھی پہنا کرتے ہیں۔ ان کے نورانی چہرے اور پررقت لہجے کو دیکھتے ہوئے کوئی یہ نہیں پوچھ سکتا کہ حضور صرف دعائوں سے تو سپنر وکٹیں نہیں لے سکتے، اس کے لئے ورائٹی چاہیے اور اچھی فارم۔
یہ سوال تو ہم پوچھ نہیں سکتے۔ اس لئے بس یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ کرے دشمن کے کچھ بلے باز ان فٹ ہوجائیں، باقیوں کو کھیلتے ہوئے گیند نظر نہ آئے اور وہ وکٹیں گنوا بیٹھیں، اللہ کرے مخالف بائولر ہر اوور میں نو بال کرائیں اور ان کے ہاتھ سے فل ٹاس نکلے اور چھکا لگ جائے۔ اللہ کرے،۔