گزشتہ روز نومنتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات ایک خوشگوار تجربہ رہی، ان کی باتیں دلچسپ، اہم اور قابل غور تھیں۔ حافظ نعیم کے امیرمنتخب ہونے کے بعد یہ میری پہلی ملاقا ت تھی۔ جس روز انہوں نے منصورہ میں امیر کا حلف اٹھایا، میں بدقسمتی سے اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیت کی وجہ سے نہیں جا سکا۔ تاہم بعد میں ان کے خطاب کی ویڈیوبڑے غور سے مکمل سنی۔ اب حافظ صاحب کی سینئر صحافیوں، کالم نگاروں، اینکرز سے ملاقات تھی، جماعت کے متحرک سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف نے دعوت دی تو سوچا کہ یہ موقعہ مس نہیں ہونا چاہیے۔
حافظ نعیم کی بطور امیر جماعت کامیابی جماعت کے اپنے تنظیمی ماحول اور روایت کے حوالے سے تاریخ ساز اور روایت شکن واقعہ ہے۔ جماعت کی روایت رہی ہے کہ امیر کے انتخاب کے موقعہ پر مرکزی شوریٰ کے تجویز کردہ تین ناموں میں اگر سابق امیر شامل ہوتو اراکین اسے منتخب کر لیتے ہیں۔ جب سراج الحق پہلی بار امیر منتخب ہوئے، تب بھی یہ روایت ٹوٹی تھی کیونکہ سابق امیر سید منور حسن اور قیم لیاقت بلوچ کے ہوتے ہوئے تیسرے نام سراج الحق کو اراکین نے زیادہ ووٹ ڈال دئیے، وہ امیر منتخب ہوگئے۔ انہی دنوں ایک کھانے کی نشست پر جماعت اسلامی کے الیکشن کے انچارج عبدالحفیظ صاحب سے ملاقات ہوئی تو ان سے یہ سوال پوچھا کہ الیکشن میں ووٹوں کا تناسب کیا رہا، کس نے کتنے ووٹ لئے؟
عبدالحفیظ صاحب پختہ کار، تجربہ کار آدمی تھے، مسکراتے رہے اور اصرار کے باوجود یہ بتانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ بہت کریدنے اور زور دینے پر صرف اتنا کہا کہ روایت نہیں ٹوٹی، پھر ایک جملے میں وضاحت کی کہ پچاس فیصد سے کچھ زیادہ لوگوں نے امیر یا قیم کو ووٹ ڈالاہے تو ایک طرح سے یہ روایت قائم رہی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی زبان بند کر لی اور مزید کچھ نہیں بولے تھے۔ شائد ان کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ سابق امیر سید منور حسن اور قیم لیاقت بلوچ نے مجموعی طور پر باون، چون یا پچپن فیصد کے لگ بھگ ووٹ لئے مگر انفرادی طور پر زیادہ ووٹ لے کر سراج الحق امیر جماعت بن گئے، واللہ اعلم بالصواب۔
سراج صاحب پانچ سال قبل دوسری بار امیر بنے تو ان کی جیت پہلے ہی سے واضح تھی، وہی نتیجہ آیا۔ البتہ اس سال معاملات مختلف رہے۔ الیکشن کے موقعہ پرحسب روایت شوریٰ نے تین نام دئیے، سراج الحق، لیاقت بلوچ اور حافظ نعیم الرحمن۔ پچھلے دو ڈھائی برسوں میں جماعت اسلامی کے تین لوگ انفرادی کارکردگی کی بنا پر مشہور ہوئے اور انہوں نے جماعتی حلقے سے باہر بھی نیک نامی کمائی۔ ان میں کراچی کے حافظ نعیم الرحمن کے علاوہ گوادر کے مولانا ہدایت الرحمن اور کے پی سے سینیٹر مشتاق احمد خان شامل ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمن نائب امیر جماعت اسلامی بلوچستان کے طور پر کام کرر ہے ہیں، تاہم فروری کا الیکشن انہوں نے ایک مقامی سیاسی اتحاد" حق دو تحریک" کے نام پر لڑا۔ مولانا ہدایت الرحمن نے اپنی مزاحمتی سیاست سے نیک نامی کمائی ہے، مگر وہ ابھی مرکزی سطح کے سیاستدان نہیں بنے۔ مشتاق احمد خان نے بطور سینیٹر اپنے نہایت متحرک اور فعال کردار سے شہرت اور عزت کمائی، مگر وہ جماعت کے مرکزیا صوبائی نظم کا حصہ نہیں۔ رکن شوریٰ بھی نہیں تھے۔ اس لئے ان کا نام تجویز نہیں کیا گیا۔
حافظ نعیم الرحمن البتہ ایسے شخص تھے جن میں امیر بننے کا پوٹینشل بھی تھا اور ان سے بہت زیادہ توقعات بھی وابستہ ہوگئیں۔ جماعت کے بہت سے دوست احباب میرے ساتھ سوشل میڈیا پر جڑے ہوئے ہیں، کراچی، کے پی اور جنوبی پنجاب میں بھی کئی دوست رکن جماعت ہیں، بعض کسی نہ کسی سطح پرنظم کا حصہ بھی۔ ان سے غیر رسمی گپ شپ چلتی رہتی ہے۔ جماعت کے لوگ عمومی طور پر اپنے پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں، وہ اندر کی باتیں میڈیا میں بیان نہیں کرتے۔ قابل اعتماد دوستوں سے ڈسکشن ہوجاناالبتہ الگ معاملہ ہے۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس بار حافظ نعیم الرحمن منتخب ہوجائیں گے۔
کراچی جماعت کے امیر کے طور پر ان کی کارکردگی غیر معمولی رہی۔ اپنے جارحانہ عوامی انداز اور مستقل مزاجی کے باعث انہوں نے کراچی میں جماعت اسلامی کواہم سیاسی قوت بنا دیا۔ میں نے انہی دنوں فیس بک پر حافظ نعیم کے حوالے سے ایک آدھ پوسٹ ڈالی تو اس پر ملا جلا ردعمل آیا۔ کراچی کے بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ امیرِجماعت کے لئے ووٹنگ جاری ہے، ایک مہینہ اس عمل میں لگ جاتا ہے، اس دوران آپ نے کچھ لکھا تو شائدیہ تاثر ملے کہ حافظ نعیم کی کمپین کر رہے ہیں، اس لئے گریز کریں۔ مشورہ صائب تھا، مان لیا۔ پچیس مارچ تک سوشل میڈیا پر ایک بھی کمنٹ نہیں کیا۔ یہ وہ تاریخ تھی جس تک بیلٹ پیپرز جمع ہوجانے تھے۔ جب انتخابی عمل مکمل ہوگیا، تب ہلکا پھلکا کمنٹ کیا۔ جماعت اسلامی نے اپنی روایت کے مطابق یہ اعلان نہیں کیا کہ تینوں تجویز کردہ ناموں میں سے کسے کتنے ووٹ ملے؟ شنید البتہ یہ ہے کہ حافظ نعیم بڑی اکثریت سے امیر جماعت منتخب ہوئے ہیں۔
طویل عرصے بعد ایسا ہوا کہ کسی نومنتخب امیرسے جماعتی حلقے سے باہر کے لوگ بھی بہت سی توقعات اور امیدیں لگاچکے ہیں۔ قاضی حسین احمد 1987ء میں امیر جماعت اسلامی بنے تو مجھے یاد ہے کہ تب ممتاز کالم نگار ارشاد احمد حقانی مرحوم نے پانچ چھ کالموں کی ایک سیریز" قاضی حسین احمد اور جماعت کی قیادت "کے نام سے لکھی، وہ شائد بعد میں پمفلٹ کی صورت میں بھی چھپی۔ حقانی صاحب نے سوال اٹھایا کہ قاضی صاحب جماعت کی روایتی سیاست کو کس حد تک تبدیل کرکے عوامی تحریک میں بدل سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سینتیس برسوں بعد نئے امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن اسی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے بھی یہ اہم سوال اٹھ چکا ہے کہ وہ کس حد تک جماعت اسلامی کو تبدیل کر سکتے ہیں اور جماعت اپنے اہداف کے حصول کی طرف کتنی تیزرفتاری سے پیش قدمی کر سکتی ہے؟
منگل کی شام منصورہ کے دارالضیافہ میں لاہور کے ڈھائی تین درجن سینئر صحافی، ایڈیٹرز، کالم نگار، اینکرز جمع ہوئے تو اس کی بڑی وجہ حافظ نعیم الرحمن کی سوچ، فکر اور ان کے آئندہ کے لائحہ عمل کو جاننا تھا۔ حافظ نعیم الرحمن بلند آہنگ آدمی ہیں، مائیک کے بغیر بھی ان کی کھرج دار، بلند آواز بڑے سے کمرے کے آخر تک پہنچ رہی تھی۔ وہ بڑے اچھے عوامی مقرر ہیں، کراچی کے بعض جلسوں میں انہیں تقریر کرتے دیکھا تو حیرت ہوا کہ ایک جیسی انرجی اور جوش وجذبے کے ساتھ گھنٹہ سوا گھنٹہ بولتے رہے۔
ہمارے بعض دوستوں کا ان کے بارے میں گمان تھا کہ یہ جلسے اور مائیک کے آدمی ہیں، ٹیبل ٹاک کے نہیں۔ حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات نے اس کی نفی کی۔ وہ اچھا بولنے کے ساتھ اچھے سامع بھی ہیں اور تیکھے، کٹیلے سوالات کو بھی عمدگی سے ڈیل کر سکتے ہیں۔ اتنے سارے صحافیوں کے سوالات لینا اور پوری صراحت کے ساتھ جواب دینا آسان نہیں۔ حافظ نعیم خوش طبع آدمی ہیں، مسکراتا چہرہ(Smiling Face)، تیز چمکدار آنکھیں، ہلکی ڈاڑھی، اہل کراچی کی مخصوص فصاحت اور رواں زبان۔
جماعت اسلامی کے تین سابق امیرقریب سے دیکھنے اور ان سے نشستوں کا موقعہ ملا، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق۔ میاں طفیل محمد میرے صحافت میں آنے سے قبل ہی بوجہ علالت سبکدوش ہوچکے تھے، منصورہ میں ان کے آخری برس گوشہ نشینی میں گزرے۔ قاضی صاحب کی اپنی ہی جگمگاتی شخصیت تھی۔ سرخ وسفید رنگت، ہلکی سی پشتو آمیز جھلک والی اردو مگر کمال کا ادبی ذوق، اقبال کے بے شمار اشعار یاد۔ برمحل اشعار، محاورے، حکایات، واقعات، غرض بلبل ہزار داستان کی مثل تازہ ہو۔
سید منور حسن کے سراپا سے کمال درجہ متانت اور تقویٰ جھلکتا تھا، مگر ان میں ایک خاص انداز کی تلخی اورزودرنجی بھی تھی جو کراچی جماعت کے بعض پرانے لوگوں کا خاصہ ہے۔ الطاف حسین کی فسطائی سیاست اور جبر کے زخم اور جنرل مشرف دور میں کراچی کے اندر اسٹیبلشمنٹ کی بے وفائی جس کا باعث ہے۔ سید منور حسن سے میں نے ایک بہت دلچسپ انٹرویو کیا تھا، اس میں وہ کھل کر بولے اور بہت کچھ ایسا بھی کہا جو شائع ہوجائے تو خاصا شورشرابا ہو۔ انٹرویو چھپ نہیں سکا، کبھی اس کے ٹکڑے شیئر کروں گا۔
سراج الحق کا تعلق دیر سے ہے، ان میں روایتی پختون سادگی اور اخلاص نمایاں تھا۔ وہ مگر پنجاب کی سیاست کبھی سمجھ سکے اور نہ ہی قومی سیاست ان کی پکڑ میں آ سکی۔ سراج الحق کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس وقت سیاسی تقسیم کس طرح کی ہوچکی اور کوئی ایک واضح پوزیشن لینا ضروری ہے۔ تاریخ کی درست سمت میں موجود ہوناا ور فیصلہ کن لمحے پر کھڑا رہنا بڑا ضروری ہے۔ اگر جماعت اسلامی ایسا کرتی تو آٹھ فروری کے انتخابات میں ان کی نشستیں فارم سنتالیس کی بنیاد پر خواہ جو بھی ہوتیں، فارم پنتالیس کی بنیاد پرنتائج کراچی کی طرح کے پی اور پنجاب میں بھی بہتر ہوجاتے۔
حافظ نعیم الرحمن پچھلے تینوں امیر جماعت سے مختلف لگے۔ ان کی اپنی شخصیت ہے اور شائد اپنی ہی خامیاں، خوبیاں۔ انہوں نے سوال جواب کی نشست میں بہت کچھ کھل کر کہا اور کئی ایسی دلچسپ باتیں کہیں جن کا تذکرہ ضروری ہے۔ آج کے کالم کی سپیس مگر ختم ہوئی۔ بات البتہ ان شااللہ جاری رہے گی۔
(جاری ہے)