بَن باس معروف مصنف، ادیب راجہ انور کے بیرون ملک اسفار کی روداد ہے۔ وہ جنرل ضیا کے مارشل لادور میں 1979 میں پاکستان سے جبری جلاوطنی پر گئے اور 1997میں واپس وطن لوٹے، بعد میں بھی وہ مختلف وزٹ کرتے رہے۔ بن باس کے اکثر ابواب اس عرصے میں مختلف ممالک کے سفر یا وہاں قیام کے دوران پیش آنے والے اہم، دلچسپ واقعات کی تفصیل ہیں۔ یہ کتاب بہت ہی دلچسپ ہے اور اسے پڑھتے ہوئے بار بار یہ خیال آتا ہے کہ کاش ایسا ہمارے اپنے ملک پاکستان میں بھی ہوجائے۔ راجہ انور صاحب کی سحرانگیز نثر کے کیا کہنے، ایسی دلچسپ، شگفتہ اور رواں کہ ساڑھے تین سو صفحات کی کتاب ایک نشست میں ختم کرنے کا جی چاہے۔
راجہ صاحب نے جرمنی میں کئی سال قیام کیا۔ انہوں نے وہاں کے دو واقعات ایسے لکھے ہیں جو آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ جنرل مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک میں چودھری اعتزاز احسن ایک نظم جلسوں میں سنایا کرتے تھے جس میں ریاست کے ماں جیسے شفیق کردار ہونے کا ذکر ہوتا۔ راجہ انور کے ان واقعات کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ حقیقی معنوں میں کیسے ریاست ماں کا کردار ادا کرتی ہے؟ یہ بھی کہ کیا وجہ ہے کہ ان ممالک کے شہریوں کا اپنی ریاست اور اس کے مختلف محکموں، سرکاری ملازمین پر اس درجہ اعتماد ہے۔
راجہ انور بتاتے ہیں کہ1986کا واقعہ ہے، ایک افغان خاندان اپنے چار بچوں کے ساتھ سیاسی پناہ لینے کی خاطر فرینکفرٹ، جرمنی اترا۔ ان کا بڑا بچہ سپیشل چائلڈ تھا، سولہ سال عمر تھی مگر جسمانی طور پر اپاہج اور معذور ہونے کے باعث وہ نہ خود کھانا کھا سکتا اور نہ ہی اٹھنے بیٹھنے یا اپنا منہ ہاتھ صاف کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ جرمن سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے انہیں راجہ انور کے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں آباد کیا، دوسرے روز معذور بچوں کے محکمے کا ایک افسر اس بچے کو دیکھنے، ملنے اور اس کا نام رجسٹرڈ کرنے ان کے فلیٹ آیا۔ ایک ڈاکٹر بھی ساتھ تھا، جس نے بچے کے تفصیلی معائنہ کے بعد اسے مکمل معذور ڈیکلیئر کر دیا۔ سوشل سکیورٹی افسر نے دوسرے دن بچے کے والدین کو اپنے دفتر بلایا۔ وہ افغان خاندان جرمن زبان سے عدم واقفیت کے باعث راجہ انور کو بطور ترجمان ساتھ لے گئے۔
سوشل سکیورٹی افسر نے انہیں کہا کہ آپ کا بچہ انتہائی معذور افراد کے زمرے میں آتا ہے، اسے ہر وقت مکمل نگہداشت کی ضرورت ہے۔ جرمن قانون کے مطابق ہم اپنی سرزمین پر کسی بھی معذور انسان کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ایسا شخص خواہ جرمن ہو یا غیر ملکی، عیسائی ہو یا مسلمان، جب تک وہ جرمنی کی سرزمین پر موجود ہے، اس کے انسانی حقوق کا تحفظ جرمن ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ہمارے پاس تین آپشنز ہیں۔ پہلا یہ کہ اسے معذور بچوں کے سنٹر میں بھیج دیا جائے، دوسرا یہ کہ اس کے لئے ایسی نرس کا انتظام کیا جائے جو روزانہ آپ کے گھر آ کر اسے سنبھالے، تیسرا یہ کہ اگر بچے کی ماں یہ ڈیوٹی دینے کو تیار ہو تو نرس کو دی جانے والی تقریبا تین ہزار مارک (تب کی جرمن کرنسی)ماہانہ تنخواہ وہ خود وصول کر سکتی ہے۔
راجہ انور کے بقول جیسے ہی میں نے یہ باتیں ترجمہ کرکے افغان خاندان کو بتائیں، تو وہ ہکے بکے رہ گئے، بچے کی ماں نے تصدیق کے لئے مجھ سے پوچھا، بھائی کیا واقعی یہی بات افسر نے کہی ہے؟ جب تصدیق ہوگئی تو افغان خاندان خوشی سے جھوم گیا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بچے کا خود خیال رکھیں گے، وہ تنخواہ ہمیں دے دیں۔ واپسی کے سفر پر معذور بچے کی والدہ نے کہا کہ یہ جرمن بھی کیسے سادہ لوگ ہیں، یہ ایک ماں کو اس کا معذور بچہ سنبھالنے کی تنخواہ دینا چاہتے ہیں؟
خیر وقت گزرتا گیا۔ اس افغان فیملی کو گزربسر کے لئے سوشل سکیورٹی محکمے سے ماہانہ خرچ بھی ملتا اور معذور بچے کو سنبھالنے کی تنخواہ بھی۔ اس خاندان نے البتہ اس امدادی رقم کو خود پر یا اپنے معذور بچے پر خرچ کرنے کے بجائے اس کا بیشتر حصہ پیچھے افغانستان بھجوانا شروع کر دیا۔ سوشل سکیورٹی محکمے کے افسر ہر ہفتے دس دن بعد فلیٹ کا چکر لگاتے اور بڑی باریک بینی سے بچے کے کپڑوں، بستر اور صفائی کا جائزہ لیتے، جو کمی نظر آتے وہ دور کرنے کی ہدایات جاری کر جاتے۔ ایک بار انہوں نے نوٹ کیا کہ بچے کے ناخن خاصے بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے ماں کو سمجھایا کہ بچے کے اعضا تو کام نہیں کرتے، مگر وہ گرمی، سردی، خوشی اور غم کو محسوس کر سکتا ہے۔ اسے یہ تکلیف دہ احساس پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر اس کے اپنے ہاتھ ٹھیک ہوتے تو وہ اپنے ناخن کاٹ سکتا۔ اس لئے فوری ناخن تراشے جائیں۔ تین دن بعد خاتون افسر اچانک آ گئی، ماں نے ابھی تک بچے کے ناخن نہیں کاٹے تھے۔ اس نے وارننگ دی اور واپس چلی گئی۔ بچے کی ماں ابھی تک نیل کٹر نہیں خرید سکی تھی۔ اس نے بدستور سستی کی۔ اگلے روز وہ خاتون افسر پھر آئی اور ناخن کو نہ کاٹے دیکھ کر فوری طور پر معذور بچوں کو نگہداشت سنٹر منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ بچے کی ماں روتی چلاتی رہی کہ میں ماں ہوں، مجھ سے زیادہ اس کا ہمدرد کون ہوسکتا ہے؟
جرمن سوشل سکیورٹی افسر کا جواب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے کہا کہ جرمن ریاست ہم سب کی ماں ہے، سب مائوں کی بھی ماں۔ اس سرزمین پر معذوروں، اپاہجوں اور یتیموں کی مکمل سرپرستی کی نگہداشت جرمن ریاست کی ذمے داری ہے۔ اس کے حقوق اور فرائض بیالوجیکل ماں سے زیادہ ہیں، اس لئے بچے کی نگہداشت آپ کے بجائے ریاستی سرپرستی میں چلنے والا معذوروں کا ادارہ کرے گا تاکہ اسے کسی قسم کی ذہنی، جسمانی اذئیت نہ پہنچ سکے۔ چند گھنٹوں میں اس افغان بچے کو معذوروں کے سنٹر منتقل کر دیا گیا۔
راجہ انور نے دوسرا واقعہ یہ لکھا کہ جرمنی میں ٹریفک کا یہ قانون ہے کہ پندرہ سال سے کم عمر کا کوئی بچہ ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتا تاکہ کسی حادثے کی صورت میں اسے خطرناک چوٹ نہ آ سکے۔ دس سال تک کا بچہ لازمی طو رپر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر سیٹ بیلٹ باندھ کر بیٹھ سکتا ہے جبکہ پانچ سال کے بچوں کے لئے پچھلی نشست پر ایک مخصوص سیٹ لگائی جاتی ہے۔ 1996کا ذکر ہے، راجہ انور اپنی فیملی کے ساتھ فرینکفرٹ کی ایک پارکنگ میں داخل ہوئے تاکہ وہاں گاڑی کھڑی کرکے اطمینان سے خریداری کرنے جا سکیں۔ تینوں بچے پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سب سے چھوٹے دو سال کے بچے کو اس کی بارہ سالہ بہن نے اپنی گود میں بٹھا رکھا تھا۔ ٹریف سارجنٹ نے فوراً روکا اور چھوٹے بچے کو مخصوص نشست پر نہ بٹھانے کی پاداش میں جرمانہ کر دیا۔
راجہ انور کہتے ہیں کہ میں نے گاڑی پارک کرنے کے بعد جا کر ٹریفک سارجنٹ کو کہا کہ شہر میں حد رفتار تیس تا پینتیس کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، ایسی کم سپیڈ میں کوئی بڑا حادثہ پیش آنا مشکل ہے۔ پھر یہ میرے بچے ہیں، انہیں خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آ جائے اور نقصان پہنچے توبطور باپ انہیں سنبھالنے کی ذمہ داری میری ہے۔ آپ کس خوشی میں جرمانہ عائد کر رہے ہیں؟ سارجنٹ نے جرمانہ کی ٹکٹ ہاتھ میں پکڑائی اور بولا، " نہیں سر جب تک یہ بچے اس سرزمین پر موجود ہیں، یہ جرمن ریاست کے بچے ہیں۔ اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آ گیا تو ان کو تاعمر سنبھالنے کی ذمہ داری جرمن ریاست اور جرمن معاشرے کے سر پر ہوگی۔ ہم سب ٹیکس دہندگان ان کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ اس لئے ہم اس ریاست میں جنم لینے اور یہاں رہنے والے بچوں کو کسی ایسی بے احتیاطی کا شکار نہیں ہونے دیں گے جو ان کا مستقبل تباہ کرنے کا سبب بن جائے"۔ راجہ انور کہتے ہیں کہ میں نے سارجنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شرمندگی کے عالم میں جرمانے کی رقم ادا کر دی۔
راجہ انور نے ان واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا: " ایک فلاحی ریاست واقعی پورے سماج کی فلاح وبہبود کی ذمے دار ہوتی ہے۔ وہ معاشرے کی ماں بھی ہوتی ہے اور باپ بھی۔ ادھر ہمارا یہ حشر کہ اپنے بے روز گاروں، معذوروں، بیوائوں، یتیموں اور مسکینوں کو سڑکوں پر دھکے کھانے اور بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دینااور اپنی بے حسی کو مقدر اور قسمت کا عنوان دے دینا ہمارا قومی نشان بن چکا ہے۔ "