بہت سال پہلے کی بات ہے۔ ابھی لاہور آیا تھا اور نہ ہی صحافت شروع ہوئی تھی۔ کالج کے طالب علم تھے۔ ہمارے ایک دوست سرائیکی کے اچھے شاعر تھے۔ کلاس کے دوسرے لڑکے جب کبھی موڈ میں آتے تو شاعروں کا مذاق اڑاتے اور ہمارے شاعر دوست کو بھی رگڑا لگ جاتا۔ ہمارے ایک دوست خاص طور سے تیز دھار طنز فرماتے اور سرائیکی، پنجابی محاورے کے مطابق شاعر کا توا لگاتے۔ ایک بات خاص طور سے فرمایا کرتے کہ شاعر بیکار مخلوق ہیں، شاعری کا آخر زندگی میں فائدہ ہی کیا ہے؟ یہ نکمے لوگ ایسے ویلے بیٹھے خواہ مخواہ مبالغہ آمیز باتیں کرکے وقت ضائع کرتے ہیں وغیرہ۔
ایک دن موسم خوشگوار تھا، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، ہلکی بوندا باندی بھی ہوئی۔ کالج کے سرسبز لان اور پھولوں کے مہکتے تختوں کے نزدیک ہی کینٹن تھی۔ دوست چائے پینے اکھٹے ہوئے۔ وہی دوست جو شاعری کو سخت ناپسند کرتا تھا، اس روز وہ شاعر دوست سے بولا، یار کچھ کلا م تو سنائو۔ شاعر جو عرصے سے باتیں سن سن کرتنگ آیا ہوا تھا، بھنا کر بولا، آج شاعری کیسے یاد آگئی؟ اس پر ہمارا وہ دوست بے چارگی سے بولا، یار دیکھو کتنا خوبصورت موسم ہے، ایسے میں شاعری سننے کا جی چاہتا ہی ہے۔ اس پر شاعر مسکرا کر بولا، یہی شاعری کا جادو ہے۔ یہ خوبصورت لمحات کو مزید لطیف اور حسین بناتی ہے، اجاڑ دل میں رونق لاتی اور مزاج کو خوشگوار بناتی ہے۔ پھر انہوں نے کچھ اپنے اور چند ایک دیگر مقبول سرائیکی شاعروں کے ڈوھڑے سنائے، اچھی محفل ہوئی اور شاعری مخالف گروپ کا ہمیشہ کے لئے منہ بند ہوگیا۔
بات صرف شاعری کی نہیں، زندگی میں بہت سے ایسے خوبصورت لطیف احساسات ہیں جنہیں زندہ رہنا چاہیے۔ بچپن اور لڑکپنکی کئی معصوم خواہشات بھی کسی نہ کسی شکل میں زندگی کے سفر کی ساتھی بنی رہیں تو کیا ہی کہنا۔ بارش میں بھیگنا، چودھویں کے چاند کے حسن سے سحرزدہ رہ جانا، کبھی تنہائی میں پرانی غزلیں سننا، بہار کے موسم میں پھولوں کے کنج ڈھونڈ کر کچھ وقت گزارنا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، کوئل کی کوک، ننھے بچوں کی قلقلاہٹ، بچوں کی معصوم مسکراہٹ دیکھ کر اندر سے تروتازہ ہوجانا۔
صحرا کی ریت کی کشش محسوس کرنا، صبح کو شبنم آلود گھاس پر ننگے پائوں چلنا، پارک کے کسی خاموش گوشے میں رکھی لکڑی کی بنچ پر بیٹھ کر کچھ دیر دنیا سے کٹ جانا، چند منٹ کے لئے چمن کی فضائوں میں گھل جانا۔ چھوٹے شہروں کے ریلوے سٹیشن پر جاکر کچھ وقت گزارنا، اس کی خاموشی، تنہائی اور پھر اچانک گاڑی آنے کی رونق اور چند منٹ بعد پہلے والے سناٹے کی متضاد کیفیات کو اپنے اندر محسوس کرنا۔ یہ سب ایسا ہے جو نہ صرف خوبصورت ہے بلکہ تیز رفتارمشینی زندگی کی یبوست اور کہولت سے باہر نکالتا ہے۔
میرے جیسے لوگ جو سردیوں کی کوئی رات کتاب یا ناول پڑھنے میں گزار دیتے۔ لانگ ویک اینڈ پرمسلسل جاگ کر کوئی سیزن دیکھنا، سرخ آنکھوں سے پھر پہروں سوئے رہنا۔ گھر سے نکلتے وقت دعائیں پڑھنا، نماز کے بعد اپنی تسبیحات کی فکررکھنا، موبائل ایپ پر قاری حضرات کی سحرانگیز تلاوت سننا۔ تصوف پر قبلہ سرفرا زشاہ صاحب کی کوئی کتاب پڑھنا، اس پر غور کرنا اور یہ سوچنا کہ صوفی آخر اتنے حلم، برداشت اور اعلیٰ ظرف کیسے ہوتے ہیں؟
اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا۔ کسی پرتکلف دعوت کو نظرانداز کرکے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ ڈنر کرنا۔ تازہ گرم روٹی کے ساتھ تازہ سبزی، کھیرے پیاز کا سلاد، ہرے دھنیا کا رائتہ اور آم کارسیلا اچار۔ یہ سب فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانوں پر بھاری ہے۔ اسی طرح خوشگوار رت میں بیگم کے ساتھ باہر نکل جانا، پیدل چلنا، بائیک یا گاڑی پر لانگ ڈرائیو، گھنٹوں گپ لڑانااور پھر اپنی جیب کی حالت کے مطابق کافی، چائے یا آئس کریم کون کھاکر واپس آنا اور اپنے لائف پارٹنر کی آسودہ مسکراہٹ دیکھ کر زندگی میں نئے رنگ شامل کرنا۔ کبھی دوستوں کی بے تکلف محفل میں بیٹھ کر مزے کی گپیں اور دنیا جہاں کی تمام سٹریس بھلا کر قہقہے لگانا۔ یہ سب اپنی جگہ خوبصورت اور حسین ہے۔
کل ایک وائرل فیس بک پوسٹ دیکھی، بعد میں معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا لکھاری ڈاکٹر عبدالرحمن کی تحریر ہے۔ مجھے تحریر بہت اچھی لگی۔ اس میں سے بعض چیزیں ممکن ہے کسی کو پسند نہ ہوں یا چند ایک کا اضافہ کرنا چاہیں۔ اپنے حساب سے کمی بیشی کرکے اسے ڈھال لیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ زندگی کے خالص پن کو نہ بھولیں اور جو مصنوعی پردے اوپر اوڑھے ہوئے ہیں، انہیں کسی جگہ پر اتار بھی دیں۔ ع
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ڈاکٹر عبدالرحمن کی تحریر پڑھیں اورلطف لیں: " اگر آپ کو کتابیں پڑھنا نہیں پسند، لکھنا نہیں پسند۔ اگر آپ بارش میں بھیگتے نہیں ہیں۔ اگر آپ پرانی غزلیں نہیں سنتے۔ اگر آپ چودھویں رات کے مکمل چاند کے دیوانے نہیں۔ آپ کو سردیوں کی لمبی راتوں اور گرمیوں کی طویل دوپہروں میں ناول پڑھنا وقت کا ضیاع لگتا ہے۔
"اگر آپ شام ڈھلے بے اختیار دعا نہیں مانگتے۔۔ گر آپ کوئی مصرعہ زیرِ لب نہیں گنگناتے۔ اگر آپ کھل کر نہیں ہنستے۔ آپ کو زرد پھولوں سے الفت نہیں، دل کو تتلیاں نہیں بھاتیں۔ اگر آپ شعر و شاعری نہیں پڑھتے۔ آپ کو کوئل کا کوکنا پسند نہیں، گیلی ریت پہ ننگے پاوں چلنا پسند نہیں۔ اگر صحرا آپ کو اپنی طرف نہیں کھینچتا، تو ہم مل تو سکتے ہیں لیکن اچھے دوست نہیں بن سکتے۔
"اگر آپ اردو ادب نہیں پڑھتے۔ بانسری اور ریل کی سیٹی نہیں سنتے، اگر آپ کو ریلوے اسٹیشن پہ بوریت ہوتی ہے، آپ کو عجائب گھر دیکھنے کا شوق نہیں۔ اگر آپ کو کھانے سے عشق نہیں ہے، آپ کو خط لکھنا پسند نہیں، پتلی تماشہ دیکھنا وقت کا ضیاع لگتا ہے۔ اگر آپ کو سخت سردی میں ٹھنڈی ہوا پسند نہیں، خزاں کا موسم پسند نہیں۔ اگر آپ کو سیزن دیکھنے میں دلچسپی نہیں، آپ بلا وجہ اداس نہیں ہوتے۔ اگر آپ کو خوشی میں رونا نہیں آتا تو میں اور آپ کبھی دوست نہیں بن سکتے۔ اگر آپ کولڈ کافی چاکلیٹ فلیور پی نہیں سکتے۔ اگردھندآلود رات میں آئس کریم کھانا الجھن میں ڈال سکتا ہے، آپ کو چائے پینا زہر لگتا ہے تو میں اور آپ ایک گھنٹہ بھی بات نہیں کر سکتے۔
"مجھے کتابیں پڑھنا پسند ہے اور لکھنا بھی۔ بارش میں بھیگنا پسند ہے۔ سردیوں کی لمبی راتوں اور گرمیوں کی لمبی دوپہر میں ناول پڑھنے کاخاص مزہ ہے، پرانی غزلیں چودھویں کی رات میں چھت پر بیٹھ کر سننا ہائے کیا قیامت ہے۔ صبح صادق کے وقت اور شام ڈھلے دعائیں مانگنا۔ گیلی گھاس پر چلنااور صحرا کے تپتے دن اور خنک راتوں کا سحرانگیز لگنا۔ ریلوے اسٹیشن کا ہلکا شورجس میں چھپی خاموشی اور تنہائی غضب لگتی ہے۔ عجائب گھر کا قدیم سناٹا روح میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
"لگتا ہے شعر و شاعری پڑھنا اور زیر لب مصرعے گنگنانا ہمارے حصے میں آیا ہے۔ اردو ادب کو گھول کر پینا بھی ہمارا مقدر بنا۔ لذیذ کھانوں سے محبت تو انسان کے خمیر میں ہے اس سے کون منہ پھیر سکتا ہے؟ شدید سردی، سرد ہوائوں میں کولڈ کافی کا مگ ہاتھ میں لیے ٹہلنا، خزاں میں پتوں کی سرسراہٹ اور چرچراہٹ کو محسوس کرنا، اور راتوں میں کمرے میں ہیڈفون لگا کر سیزن دیکھنا، اور پھر بیچ شب میں آئسکریم کی طلب!
مجھے پسند ہے!
کسی پہاڑ کی چوٹی پر
لکڑی سے بنا چھوٹا سا گھر
چاے کا کپ ہاتھ میں تھامے
کھڑکی سے برستی بارش دیکھنا
بوڑھے دراز قامت سر سبز درخت
قدیم حویلیاں، ۔!
اْفق پر روشنی بکھیرتا سورج
ڈھلتی ویران شام
ویران جزیرے،!
خزاں کے موسم میں کسی انجان
پگڈنڈی پر بکھرے زرد پتے
اور جان لیوا خاموشی۔۔!
زندگی! تو نے کیا کیا رنگ دکھا دیے
روشنی! تو نے آنکھوں میں دیے جلا دیے"