گزشتہ روز بعض واٹس ایپ گروپوں میں صحافی دوستوں کے ساتھ اس بحث میں خاصا وقت صرف ہوا کہ بھارت میں مودی جی کی شکست(یا معمولی برتری) کے پیچھے اصل فیکٹرز کیا ہیں؟ ان احباب کا خیال تھا کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم نریندرمودی کو دھچکا پہنچایا ہے، ورنہ بی جے پی کو یوپی، مقبوضہ کشمیر اور ایودھیا وغیرہ میں آپ سیٹ شکست نہ ہوتی۔ آج کے کالم میں انہی دو تین مفروضوں پر بات ہوگی۔ اصل صورتحال سمجھنے کے لئے اپنے روٹین کے ریسرچ ورک، بھارتی اخبارات اور جرائد کے سکیننگ کے علاوہ بعض انڈین فیس بک فرینڈز سے ڈسکشن مفید رہی۔ ممتاز کشمیری صحافی اور کالم نگار برادرم افتخار گیلانی سے ہمیشہ بھارتی سیاست اور اس کی ڈائنامکس سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ جو نکات مجھے سمجھ آئیں، وہ اپنے قارئین سے شیئر کر رہا ہوں۔
کیا بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت کی؟ یہ مفروضہ درست نہیں کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ مودی کی شکست یابی جے پی کے برتری نہ لینے کے پیچھے تھی۔ انڈین اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمارے ہاں سے خاصا مختلف ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ سے صرف فوج مراد نہیں ہوتی، اس میں ٹاپ بیوروکریسی، انٹیلی جنس ادارے، بڑے میڈیا ہائوسز، طاقتور تھنک ٹینک، ملک کے چوٹی کے کارپوریٹ گروپ اور ایک خاص سطح پر سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ اہم ملکی پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر حکومتیں بدل جائیں، ایک دوسرے سے مختلف نقطہ نظر رکھنی والی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں، تب بھی بنیادی ریاستی پالیسیاں ویسے چلتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں البتہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار مختلف ہے اور اس میں عسکری قوتیں ہی فیصلہ کن ہیں۔
بھارت میں اسٹیبلشمنٹ کبھی فرنٹ پر آ کر کردار ادا نہیں کرتی۔ اس نے اگر کچھ کرنا ہو تو وہ بڑی سمجھداری اور دانش سے اور پس پردہ رہ کر کیا جاتا ہے، مگر عام طور سے اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ اہم نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ آج کی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے بیشتر اجزا پروزیراعظم مودی اور بی جے پی کا گہرا اثرونفوذ قائم ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی ریاست کے بیشتر سٹرکچر نے بی جے پی کے حسب منشا پالیسیاں اپنائیں اور ان سے کانگریس کے اپوزیشن اتحاد کو شدید نقصان پہنچا۔
یہ خیال بھی رہے کہ انڈین آرمی کوچھوڑ کرباقی جگہوں پر پچھلے دس برسوں میں بی جے پی کے ہم خیال شدت پسندانہ ہندو ذہن کے لوگ ہی آگے آئے ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق مودی جی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دول نے آئی بی یعنی انٹیلی جنس بیورو میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھرتی کئے اور انہیں پروموٹ کیا جو بی جے پی اور مودی کے حامی ہیں۔ پاکستان میں شائد زیادہ لوگ نہ جانتے ہوں گے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کا کردار بھارت میں محدود نوعیت کا ہے، بھارت کے اندر آئی بی بہت زیادہ طاقتور تنظیم ہے اور اس کے مقابلے میں را کے پاس کم وسائل اور کم افرادی قوت ہے۔ اس لئے آئی بی کے سٹرکچر میں پرو بی جے پی افسروں کا اوپر آنا اہم ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کی بیوروکریسی، پولیس اور خاص کر تفتیشی ایجنسی سی بی آئی اور دیگر محکموں ed، Nia وغیرہ میں بھی بڑی حد تک بی جے پی کا کنٹرول ہوگیا ہے۔ ان محکموں نے کانگریس کے اپوزیشن اتحاد کے خلاف بہت سی کارروائیاں کیں اور ان کے لئے سیاست کرنا اور کمپین کرنا ہی مشکل ہوگیا۔ ہم پاکستانیوں کے لئے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری مقامی انتظامیہ، پولیس، محکمہ اینٹی کرپشن، ایف آئی اے، نیب وغیرہ کس طرح حکومتوں کے کہنے پر اپوزیشن کے خلاف چڑھ دوڑتے ہیں۔ اس بار بھارت میں بھی یہ سب ہوا۔ وہاں میڈیا تو بہت پہلے کنٹرول اور مینیج ہوچکا۔ بھارتی عدلیہ میں بھی بی جے پی کا اثر بہت بڑھ گیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ دو ججوں نے استعفا دے کر بی جے پی کی جانب سے الیکشن لڑا۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج نے ریٹائر ہونے کے بعد اعتراف کیا کہ وہ آر ایس ایس کا حامی اور ممبر رہا ہے۔
کانگریس اتحاد کے ساتھ ہونیوالی زیادتیاں زیادتی کی انتہا ہے کہ اورند کیجروال سمیت اپوزیشن کے دو زیراعلیٰ اس وقت جیل میں بند ہیں۔ کیجروال دو بار جیل بھیجا گیا، الیکشن کے موقعہ پر وہ اسیر ہی تھا۔ دلی کی صوبائی حکومت ہونے کے باوجوداپنے امیدواروں کی الیکشن کمپین تک نہیں چلا سکا۔ دلی صوبائی حکومت کے تقریباً تمام نمایاں وزرا بھی جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ تلنگانہ میں ایک سابق وزیراعلیٰ کی بیٹی کوناجائز طور پر جیل بھجوا دیا گیا۔ اپوزیشن کے بیشتر رہنمائوں پر سی بی آئی اور دیگر محکموں کے متواتر چھاپے پڑتے رہے۔ ممبئی میں شیوسینا کے اکثر رہنما چھاپوں کے ڈر سے اپنے گھروں سے غائب رہے اور ان کے لئے جلسے کرنا اور مہم چلانا مشکل ہوگئی تھی۔
سب سے بڑا ظلم کانگریس کے ساتھ یہ ہوا کہ ان کے الیکشن فنڈز ضبط ہوگئے۔ ان کے چار میں سے تین بینک اکائونٹس منجمد کر دئیے گئے۔ یاد رہے کہ بھارت میں الیکشن اخراجات کے لئے سیاسی جماعتیں صرف مخصوص بینک اکائونٹس میں رقوم ہی جمع اور وہاں ہی سے خرچ کرسکتی ہے۔ کانگریس کے اکائونٹ فریز ہونے سے ان کے پاس الیکشن چلانے کے فنڈز نہیں تھے۔ امیدواروں کے پاس الیکشن مہم میں گاڑیوں کے لئے پٹرول تک نہیں تھا۔ یاد رہے کہ دس ہزار کروڑ روپے (یہ ایک کھرب یعنی سو ارب بھارتی روپے ہیں)ضبط کئے گئے۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق امیدوار اپنے جاننے والوں سے کہتے رہے کہ پٹرول پمپس سے ادھار پٹرول ڈلوا دو۔ امیدواروں نے لوکل سطح پر تھوڑے بہت فنڈز جمع کئے مگر یہ اپوزیشن کے لئے سب سے بڑا دردسر تھا۔ اگر بی جے پی کا اتنا اثر اور کنٹرول نہ ہوتا تو کیسے یہ سب ہوپاتا؟
الیکشن کمیشن نے بھی کئی جگہوں پر بی جے پی کو سپورٹ کیا، بعض جگہوں پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر اعتراضات ہوئے، متعدد اہم نشستوں پر ووٹوں کی گنتی سست کر دی گئی، جس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔ کانگریس رہنما چیختے رہے کہ آخر ووٹنگ سلو کیوں کی جار ہی ہے مگر الیکشن کمیشن کے پاس جواب نہیں تھا۔ ثابت یہ ہوا کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ مودی کے خلاف ہوتی تو یہ سب کچھ بی جے پی کو بھگتنا پڑتا، کانگریس کے اپوزیشن اتحاد کے لئے یہ بے پناہ مشکلات پیدا نہ ہوتیں۔ ویسے بھارتی پارلیمانی انتخابات اور الیکشن سسٹم کے لئے یہ بڑا سوال پیدا ہوگیا ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے الیکشن فنڈز والے بنک اکاونٹس یوں سیاسی انتقام میں منجمد کر دئیے جائیں تو وہ الیکشن کیسے لڑے گی؟
یوپی، ایودھیا اور مقبوضہ کشمیر میں شکست کیوں؟ یوپی میں شکست پر تو بھارتی میڈیا میں بہت کچھ آ چکا ہے۔ اپنے کل کے کالم میں اس طرف اشارہ کیا تھا کہ بھارتی اقلیتی ووٹر اس بات سے ڈر گیا کہ اگر بی جے پی بڑی اکثریت لے گئی تو وہ آئین میں ترمیم کرکے انہیں حاصل ایڈوانٹیج ختم کر دے گی۔ یاد رہے کہ بھارتی دلت، شیڈول کاسٹ، او بی سی وغیرہ کو منڈل کمیشن رپورٹ کے بعد تعلیمی اداروں، ملازمتوں وغیرہ میں ستائیس فیصد کوٹہ حاصل ہے۔ اعلی ذات کے ہندو اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ یوپی میں دلت کا بڑا ووٹ بینک ہے، وہاں مسلمان ووٹ بھی اچھا خاصا اور اہم ہے۔
مودی جی کی کامیابی یہ تھی کہ وہ اینٹی مسلمان اور اینٹی پاکستان جذبات پیدا کرکے اعلیٰ اور نچلی ذات کے تمام ہندو ووٹر کو اکھٹا کر لیتے تھے اور یوں وہ دلت ووٹر جو ماضی میں سماج وادی پارٹی کو ووٹ ڈالتا تھا، یہ سب بی جے پی کی طرف جاتا تھا۔ اس بار ایسا نہیں ہوا اور دلت ووٹر، مسلمان ووٹر کے ساتھ جڑ کر کانگریس اوراکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کے اپوزیشن اتحاد انڈیا کی طرف گیا۔ یوں یوپی میں بی جے پی کو بڑی شکست کا سامنا ہوا۔ بی جے پی کے مقامی رہنمائوں نے کچھ جگہوں پر مناسب امیدوار نہیں دئیے اور اوور کانفیڈنس بھی نقصان دہ رہا۔ ایودھیا میں رام مندر بنانے کے باوجود اسی علاقے (فیض آباد)کی سیٹ سماج وادی پارٹی کے ہندو رہنما سے ہار جانا بی جے پی کے لئے بڑا دھچکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ رام مندر کے لئے جن مقامی لوگوں کی زمینیں لی گئیں، ان کی پیمنٹ ابھی تک نہیں ہوئی تھی اور وہ اس پربرہم تھے۔
مقبوضہ کشمیرکی پانچ میں سے بی جے پی نے جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے دو سیٹیں جیتی ہیں، جو کہ متوقع تھیں، وادی کی دو سیٹیں وہ ہار گئی جبکہ تیسری سیٹ جس پر سجاد لون کے ساتھ اتحاد تھا، اس پر بھی آپ سیٹ شکست ہوئی۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق وہاں اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت نہیں کی اور غیر جانبدار رہی، دراصل انہیں خدشہ تھا کہ اگر دھاندلی سے سجاد لون یا وادی سے بی جے پی کو جتوایا گیا تو کہیں 1987ء انتخابی دھاندلی کی طرح پھر سے کوئی بڑی تحریک شروع نہ ہوجائے۔ ایک فیکٹر بہرحال یہ بھی ہے کہ تیسری بار الیکشن لڑکر اکثریت لینا اسان نہیں ہوتا، کچھ نہ کچھ ووٹر توتنگ آ چکے ہوتے ہیں، ان کا رجحان تبدیلی کی طرف ہوتا ہے۔ یہ بھی مجموعی طور پربی جے پی کے خلاف گیا۔ اگر کانگریس اتحاد کو کچھ سپیس ملی ہوتی، الیکشن فنڈز موجود ہوتے تو شائد بی جے پی اپوزیشن میں بیٹھتی۔