بلاول بھٹو کو قومی اسمبلی میں گزشتہ روز تقریر کرتے دیکھ کر عجیب احساس ہوا۔ ایک طرف تو خوشی ہورہی تھی کہ نوجوان بلاول قومی اسمبلی کے فلور پر تقریر کر رہے ہیں۔ اردو وہ ٹھیک نہیں بول سکتے، مگر پھر بھی اظہار کر رہے تھے، دل خوش کن احساس ہوا۔ نظر آیا کہ بلاول میں کسی قدر تحمل پیدا ہوا ہے۔ ان کے خلاف تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی بلند آواز میں احتجاج کر رہے تھے، شور خاصا تھا، مگر بلاول مشتعل ہونے کے بجائے مسکرا کر دیکھتے رہے۔ یہی پارلیمانی سیاست ہے اور یہی جمہوریت۔
یہ بھی لگا کہ بلاول کو غیر ضروری ردعمل دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر ہیں، اپنے آپ کو وزیراعظم کا امیدوار سمجھتے تھے، مطلوبہ نشستیں نہیں ملیں تو اس باروفاقی کابینہ میں بھی شامل نہیں ہوئے۔ انہیں چاہیے کہ ہر معاملے میں خود ردعمل دینے کے بجائے کچھ کام اپنی پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے سپرد کریں۔ اس حوالے سے انہیں اپنے والد آصف زرداری سے سیکھنا چاہیے، جو کبھی جواب در جواب کے تنازع میں نہیں پڑتے۔
اب یہی دیکھ لیں کہ اگر بلاول ردعمل میں آ کر عمران خان کے خلاف تنقید ی فقرے نہ کہتے تو اس سے پہلے وہ اچھے خاصے مدبر بنے تقریر فرما رہے تھے۔ ان کی تنقید پر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی بھڑک اٹھے اور پرزور احتجاج شروع کر دیا اورپھر سپیکر قومی اسمبلی نے قابل اعتراض الفاظ اسمبلی کی کارروائی سے حذف بھی کرا دئیے۔ تب تک بلاول کو بھی احساس ہوگیا تھا، انہوں نے سپیکر سے کہا کہ میرے الفاظ حذف کر دیں، ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔
بلاول بھٹو ویسے بڑے اہم اور جوہری قسم کے مسئلے سے دوچار ہیں، ایک مخمصہ (dilemma)سمجھ لیں۔ مشہور انگریزی محاورے کے ترجمہ کے مطابق آپ بیک وقت شکاراور شکاری کے ساتھ نہیں دوڑ سکتے۔ آپ کو مظلوم شکار کی سائیڈ لینا پڑتی ہے یا پھر شکار کرنے کے درپے حملہ آوروں کا ساتھ دینا ہوگا۔ بلاول یہ دونوں کام بیک وقت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس میں انہیں ناکامی ہو رہی ہے، اسی نتیجے میں گاہے ندامت، جھنجھلاہٹ اور فرسٹریشن جیسے جذبات بھی امنڈ آتے ہیں۔
بلاول بھٹو اور ان کی جماعت نے ن لیگ سے باقاعدہ معاہدہ کرکے وفاقی حکومت بنائی ہے۔ وہ حکومتی پارٹنر ہیں۔ درحقیقت پاکستان پیپلزپارٹی جس دن اپنی حمایت واپس لے گی، اسی دن حکومت اکثریت ختم ہونے کے بعد دھڑام سے گر جائے گی۔ ن لیگ، ایم کیو ایم، ق لیگ، استحکام پاکستان پارٹی، یہ سب مل کر بھی سادہ اکثریت نہیں بنا سکتے۔ حکومت بنائے رکھنے اور بجٹ وغیرہ منظور کرانے کے لئے وہ پیپلزپارٹی کے محتاج ہیں۔
پیپلزپارٹی یہ سب مفت نہیں کر رہی، اس کے بدلے وہ آصف زردری صاحب کی دیرینہ خواہش پوری کرتے ہوئے انہیں ایک بار پھر ایوان صدر میں پہنچانا چاہ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر بنوا لیا ہے، دو صوبوں میں گورنر بھی ان کے ہوں گے جبکہ سینیٹ کا چیئرمین بھی یقینی طور پر ان کی پارٹی سے ہوگا۔ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ بھی پی پی نے کمال مہارت سے ہتھیا لی، ورنہ اگر ن لیگ جے یوآئی کے ساتھ بلوچستان میں ہاتھ ملاتی تو صوبائی حکومت وہ بنا سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی نے مگر وفاق میں تعاون کی جو شرائط رکھیں، ان میں ایک وزارت اعلیٰ بلوچستان بھی شامل تھی۔
یہ سب فوائد پیپلزپارٹی اٹھا رہی ہے یا یہ ثمرات اگلے چند دنوں میں سمیٹ لئے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ چاہتی ہے کہ وفاق اور پنجاب میں کابینہ کا حصہ نہ بن کر اپنے آپ کو نیوٹرل ثابت کرے اور اپوزیشن میں ہونے کا تاثر بھی دے۔ اگرچہ وزارتیں نہ ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی کو وفاق میں فنڈز کی کمی ہوگی نہ ہی ان کے کام رکیں گے۔ اس لئے کہ شہباز شریف اپنی حکومت بچانے کے لئے بار بار پی پی پی کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے۔
پیپلزپارٹی تمام اہم آئینی عہدے ہتھیانے کے باوجود اپوزیشن پارٹی کا کردار اس لئے نبھانا چاہتی ہے کہ اس نے پی ڈی ایم کی سولہ ماہ حکومت کا نتیجہ ان انتخابات میں اچھی طرح دیکھ لیا۔ پی پی پی کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ عوام نے مسلم لیگ ن کے ساتھ پنجاب میں اور مولانا فضل الرحمن کی جے یوآئی کے ساتھ خیبر پختون خوا میں کیا حال کیا ہے۔
پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو کی یہ تمام خواہشات اپنی جگہ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن کاکردار صرف سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین اسمبلی ہی ادا کر رہے ہیں۔ ان کا انداز جارحانہ اور احتجاجی ہے، وہ کسی بھی صورت میں حکومت سے کوئی مفاد لینے کو تیار نہیں۔ اسمبلی کی کارروائی میں بھی ٹف ٹائم سنی اتحاد کونسل کے لوگ ہی دیں گے۔ ان کے کارکن اور رہنمائوں پر مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں اور عوامی سطح پر تحریک انصاف کا بیانیہ ہی اپوزیشن جماعت کا بیانیہ سمجھا جا رہا ہے۔
ملک میں سیاسی تقسیم اس نوعیت کی ہے اور اتنی واضح، فیصلہ کن کہ کسی کے لئے غیر جانبدار رہنا ممکن نہیں۔ آپ کو پرو عمران ہونا پڑے گا یا اینٹی عمران خان۔ ملکی سیاست اسی محور کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ بلاول بھٹو کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ن لیگ کو سپورٹ بھی کریں، شہباز شریف کا دفاع بھی کرتے رہیں اور ساتھ پنجابی محاورے کے مطابق" پولی پولی تنقید "بھی کرتے رہیں۔ محمود خان اچکزئی کے گھر پر پولیس ریڈ پر گزشتہ روز اسمبلی میں احتجاج ہوا۔
بلاول بھٹو نے بھی اس کی کمزور سی مذمت کی اور یہ کہ کہ وہ چیف منسٹر بلوچستان سے بھی بات کریں گے۔ بلاول کی معلومات ادھوری اور نامکمل ہیں۔ انہیں ابھی تک خبر نہیں ہوئی کہ بلوچستان میں ان کی پارٹی کا چیف منسٹر ہے یعنی بلوچستان پر ان کی حکومت ہی ہے۔ بلوچستان میں پولیس جو بھی کرے گی، اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت یعنی پاکستان پیپلزپارٹی پر عائد ہوگی۔ بلاول بھٹو نے الیکشن مہم میں بہت سے لمبے چوڑے اور بلند بانگ دعوے کئے۔ اب وفاق میں ان کی پارٹنر حکومت ہے۔ بلاول اپنے تمام وعدوں سے یہ کہہ کر پیچھے نہیں ہٹ سکتے کہ انہیں چونکہ عوام نے بڑا مینڈیٹ نہیں دیا، اس لئے وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ وفاقی حکومت ان کی سپورٹ سے چل رہی ہے، اگر بلاول اپنے پارٹنر مسلم لیگ ن سے کوئی مطالبہ کریں گے تو وہ ماننے پر مجبورہیں۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی یا دیگر ہیومن رائٹس ایشوز وغیرہ پر بلاول کو اپنی معذوری بیان کرنے کے بجائے ان کے حل کے لئے عملی کوشش کرنی چاہیے۔
بلاول اگر خود کو اپوزیشن کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے مسائل میں بھی حصہ دار بنیں، ان کے لئے آواز اٹھائیں اور ان سے ہونے والی کسی سیاسی زیادتی میں بھی ساتھ کھڑے ہوں۔ وکٹ کے دونوں طرف بیک وقت کھیلنا بیک وقت ممکن نہیں ہوتا۔ بلاول بھٹو کو بھی اپنے بیٹنگ اینڈ کا انتخاب کر لینا چاہیے۔ پارلیمانی جمہوریت سنگل وکٹ مقابلہ نہیں ہوتاکہ ایک کھلاڑی دونوں اینڈ پر جا کر کھیلے بلکہ یہ ڈبل وکٹ یا پوری ٹیم کا کھیل ہے۔ ایک سائیڈ چن کراپنی پوری توجہ ادھر ہی مرکوز کریں۔ یہی ایک پریکٹیکل حل ہے۔