پاکستانی سیاست کا عجب معاملہ ہے۔ یہاں آپ کسی چیز کے بارے میں یقین سے پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ کسی بھی وقت، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ دوست دشمن بن جاتے ہیں، شدید مخالف اچانک ہاتھوں میں ہاتھ دئیے قہقہے لگاتے ملیں گے۔ سیاست دان ہو ں یا سیاسی جماعتیں اپنا موقف اس تیزی سے، ترنت بدلتے ہیں کہ آدمی دم بخود رہ جاتا ہے۔
کسی خاص سیاسی جماعت کو اس میں استثنا نہیں ہے، کم از کم بڑی قومی جماعتوں کو تو ہرگز نہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جے یوآئی، ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر قومی، علاقائی جماعتوں میں کم وبیش یہی وصف پائے جاتے ہیں۔ اس وقت ہم پیپلزپارٹی اور اس کے نوجوان قائد بلاول بھٹو کی بات کررہے ہیں۔
چند ماہ پہلے صحافی دوستوں کی ایک محفل میں کسی نے کہا کہ جلد ہی آپ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو ایک دوسرے کے سامنا کھڑا دیکھیں گے۔ تب پی ڈی ایم حکومت چل رہی تھی اور یہ دونوں جماعتیں اور ان کے لیڈران آپس میں خوب شیروشکر تھے۔ بعض دوستوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور پوچھا کہ کس طرح یہ ممکن ہوپائے گا، دونوں سیاسی حلیف اچانک حریف کیسے بن جائیں گے؟ اس پر انکشاف کرنے والے نے مسکرا کر کہا، یہی تو ہماری سیاست کا ڈھنگ اور ان لوگوں کا فن ہے۔ آپ دیکھئے گا کہ کس طرح یہ سب ہوگا؟
پھران تجربہ کار دوست نے قدرے تفصیل سے سیاسی تاریخ پر روشنی ڈالی اور پچھلے دوتین انتخابات کی کمپین کا حوالہ دے کر کہا کہ ن لیگ اور پی پی پی دونوں کا اب سیاسی وتیرہ بن گیا ہے۔ مشرف دور میں ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد یہ ایک دوسرے کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ رکھتے ہیں۔ حکومت سازی کے بعد ایک دوسرے کو ڈسٹرب نہیں کرتے، دوسرے کے دائرہ اثر میں مداخلت نہیں کرتے۔
فرینڈلی اپوزیشن کرتے ہیں اور جب الیکشن کا بگل بج اٹھے، تب یہ فاصلہ کر لیتے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید کا عمل شروع ہوجاتا ہے، ذاتی حملے، نکتہ چینی، پرانی سیاسی غلطیوں کے طعنے وغیرہ۔ یہ سب کچھ ووٹر کو بے وقوف بنانے کے لئے ہوتا ہے۔ اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم تو الگ الگ جماعتیں ہیں، دوسرا برا ہیں، اس لئے ہمیں ووٹ دو۔ شہباز شریف نے زرداربابا کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات بھی اسی تناظرمیں کی تھی۔ شریف خاندان کے طرز سیاست پر پیپلزپارٹی کے سیاسی حملے بھی اسی لئے پچھلے دونوں انتخابات میں کئے جاتے رہے۔
اس نکتے پر بحث چلتی رہی، میری رائے بھی ملتی جلتی تھی، اس لئے اختلاف نہیں کیا، تاہم یہ خیال ذہن میں ضرور آیا کہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے بعد اب شائد یہ سب کرنا آسان نہیں ہوگا۔ کس منہ سے بلاول بھٹو اپنے ہی وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف بات کریں گے، جس نے انہیں وزیرخارجہ بنایا؟ اسی طرح شہباز شریف کیا سوچ کر پیپلزپارٹی والوں کو برا کہیں گے، جن کو انہوں نے خود اپنی کابینہ میں وزیربنایا تھا؟
پاکستانی سیاست واقعی نرالی ہے۔ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آج ہم وہ سب کچھ عملی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ پی پی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو مختلف شہروں میں جلسے، ورکرز کنونشن سے دھواں دھار خطاب کر رہے ہیں۔ وہ کبھی نرم اور کبھی گرم، تیکھے، کٹیلے انداز میں ن لیگ کی قیادت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ن لیگ کے قائد کو انہوں نے لاڈلے کا خطاب بھی مرحمت فرمایا ہے۔
بلاول بھٹو بطور وزیرخارجہ شہباز شریف حکومت کا حصہ تھے، وہ وزارت خارجہ چلانے کے باوجود اندرون ملک پوری سیاست کرتے رہے۔ آئے روز پریس کانفرنس کرتے اور زوردار سیاسی بیانات جاری کرتے رہتے۔ پیپلزپارٹی کے دیگر وزرا بھی حکومت کا حصہ تھے اور وہ پوری طرح تمام مفادات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ تب انہیں حکومت میں کوئی خرابیاں نظر نہیں آ رہی تھیں اور نہ ہی یہ اندازہ ہورہا تھا کہ حکومت میں شامل یہ لوگ اپنی ذاتی دشمنی پوری کر رہے ہیں۔ اب سوشل میڈیائی محاورے کے مطابق اچانک ہی بلاول بھٹو کے دماغ کی بتی جل اٹھی ہے، انہیں سمجھ آ گئی کہ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومتی کارکردگی اتنی بری اور تباہ کن کیوں تھی؟
بلاول آکسفورڈ سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ بدقسمتی سے اتنے برسوں میں بلاول نے کبھی کسی کتاب کا حوالہ دیا نہ کوئی علمی فقرہ کہا، مگر ان کی والدہ اور نانا دونوں بڑے صاحب مطالعہ تھے۔ بلاول کے جینز میں یقیناً مطالعہ کی کچھ نہ کچھ عادت تو آئی ہوگی۔ انہیں یہ تو پتہ ہی ہوگا کہ کابینہ کا ہر وزیر حکومت کا حصہ ہوتا ہے اور وہ بعدمیں حکومتی بری کارکردگی کی تنقید سے بچ نہیں سکتا۔ یہ تمام عذر اور شکوے شکایتیں تو حکومت کے دوران کرنی چاہیے تھیں۔ بلاول کو اگر پتہ چل گیا تھا کہ شریف فیملی یا ن لیگ کے وزرا اپنی ذاتی دشمنی پوری کر رہے ہیں تو انہیں کابینہ اجلاسوں یا بند کمروں میں ہونے والی ملاقاتوں میں یہ کہنا چاہیے تھا اور بہتری نہ آنے پر مستعفی ہوجاتے۔ اب یہ باتیں کہنا زیب نہیں دیتا اور نہ ہی ان سے کوئی قائل ہوگا۔
بلاول نے ایک اور دلچسپ بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بزرگ سیاستدان اب گھروں میں بیٹھ جائیں، تیس چالیس سال سے جو سیاست کر رہے ہیں، اب انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ سیاست کریں وغیرہ وغیرہ۔ ان کا ہدف غالباً بڑے میاں صاحب اور مولانا فضل الرحمن ہیں۔ بلاول بھٹو شائد ایسی بات کرکے نوجوان ووٹروں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بلاول کو یہ بات مگر سمجھ نہیں آئی کہ ان کے طنز کا سب سے بڑا نشانہ تو خود ان کی اپنی پارٹی اور ان کے والد آصف زرداری سمیت پیپلزپارٹی کے بیشتر سینئر رہنما ہیں۔ نوے سالہ قائم علی شاہ تو خیر ابھی تک سندھ پیپلزپارٹی میں ایکٹو ہیں ہی، مگر خود آصف زرداری بھی ستر کے ہونے والے ہیں، خورشید شاہ، سراج درانی، یوسف رضا گیلانی، مولا بخش چانڈیو، رضا ربانی، فرحت اللہ بابر، تاج حیدر، شیری رحمان، راجہ پرویز اشرف اور نجانے پیپلزپارٹی کے کتنے لیڈر ساٹھ کے پیٹے میں ہیں، تیس پینتیس سال سے وہ سیاست کر رہے ہیں۔
بلاول کے بیان سے ذہن میں ایک خیال آیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تاریخ پیدائش1953 بتائی جاتی ہے، وہ اگر آج زندہ ہوتیں تو ان کی عمر بھی ستر سال ہوتیں۔ تب بھی بلاول یہ مشورہ دیتے؟ کیا کسی سیاستدان کی عمرساٹھ ستر سال ہوجانا کوئی برائی یا عیب یا خامی ہے؟ ویسے توضروری نہیں کہ کسی نوجوان لیڈر کے ساتھ ہی نوجوان جڑیں۔ عمران خان نے ثابت کر دیا کہ ستر سال کے قریب عمر ہونے کے باوجود بھی اپنے ایجنڈے اور طرزسیاست سے نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ دراصل یہ سب باتیں ذہنی افلاس اور کوئی بامقصد، ٹھوس ایجنڈا نہ ہونے کے باعث ہیں۔ بلاول دیگر سیاسی قائدین سے عمر میں خاصے چھوٹے ہیں، مگر ان کے پاس نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے کچھ نہیں۔ بلاول پیپلزپارٹی کی روایتی(زر داری)سیاست کا ایک ماڈل ہیں۔ انہوں نے کبھی ریفارمز کی بات نہیں کی، سسٹم بدلنے کا کہا یا سندھ میں اپنی پندرہ سالہ حکومت کے دوران کبھی کوئی عملی نمونہ پیش نہیں کیا۔
بلاول بھٹو ہوں یا پیپلزپارٹی کے دیگر قائدین، مسلم لیگ ن یا پی ڈی ایم کی کسی سابق جماعت پر ان کی تنقید نمائشی اور دکھاوے کی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت میں شامل ہو کر تمام فوائد اور ثمرات لوٹے مگر اس حکومت کی بری کارکردگی کا بوجھ اٹھانے سے اب انکاری ہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ وزارتیں لی تھیں تو نقصانات بھی شیئر کرنا پڑیں گے۔
یہ بات یقینی ہے کہ الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ حکومت چلانے کا فارمولہ انتخابی نتائج کے حساب سے مختلف ضرور ہوسکتا ہے۔ کیک کے بڑے یا چھوٹے حصے کا فیصلہ نشستیں ہی کریں گی۔ پیپلزپارٹی مگر اگلے پانچ سال ن لیگ کے ساتھ ہی رہے گی یا زیادہ سے زیادہ اپنی صوبائی حکومت چلانے کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کرے گی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
بلاول بھٹو بھی اچھی طرح یہ جانتے ہیں۔ ان کی البتہ یہ خوبی ہے کہ وہ کسی اچھے پروفیشنل فن کار کی طرح لکھے ہوئے سکرپٹ کو اچھے سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلاول کو یہ کریڈٹ تو دینا چاہیے کہ متواتر اور مسلسل اپنے تنقیدی بیانات سے انہوں نے ن لیگ کو بھی ہلکے پھلکے جواب دینے پرمجبور کر دیا ہے۔ بلاول کے بیانات اور یہ نام نہاد تنقیدی حملے ایک خاص تاثر تو بنا رہے ہیں۔ بلاول نے وہ کر دکھایا جو چند ماہ پہلے مجھے خاصا مشکل لگ رہا تھا۔ ویل ڈن ینگ مین۔