باب وڈورڈ ممتاز امریکی صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں، انہیں امریکہ میں صحافتی تحریروں کا بڑا اعزاز پلٹرز ایوارڈ دو مرتبہ مل چکا ہے۔ باب وڈورڈ وہ صحافی ہیں جنہیں امریکہ کا مشہور واٹرگیٹ سکینڈل بے نقاب کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ باب وڈورڈ نے ایک اور صحافی کے ساتھ مل کرمعروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لئے یہ سکینڈل فائل کیا۔ انہوں نے اپنے وائٹ ہاؤس کے ان سائیڈ سورس کا نام ظاہر نہیں کیا تھا اور اسے ڈیپ تھروٹ کے نام سے لکھتے رہے۔ بہت بعد میں جب اس سورس کی ڈیتھ ہوگئی تب باب وڈورڈ نے اس کی شناخت ظاہر کی اور اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی۔
باب وڈورڈ کی ایک اور شہرت مختلف امریکی صدور کے حوالے سے کتب لکھنے کی ہے، انہیں اکثر صدور نے وائٹ ہاؤس کے سٹاف اور صدر کی ٹیم سے گھنٹوں انٹرویوز کرنے کا موقع فراہم کیا، جن پر بعد میں باب وڈورڈ کی کتب لکھی گئیں۔ باب وڈ ورڈ نے صدر فورڈ اور ریگن ادوار پر بھی کتب لکھیں۔ بش سینئر کی گلف وار پر کتاب پلان آف اٹیک لکھی، جبکہ کلنٹن پر کتاب دی ایجنڈا اور پھر بش ایٹ وار جبکہ اوباما وارز بھی مقبول ہوئیں۔ صدر ٹرمپ کے ساتھ باب وڈورڈ کی ٹیپس پرمبنی کتاب آئی، یہ اور بات کہ بعد صدر ٹرمپ نے اس پر مقدمہ ٹھونک دیا۔
باب وڈورڈ کی نئی کتاب وار میں بائیڈن دور کے حوالے سے خاصا کچھ ہے، خاص طور پر یوکرائن وار اور غزہ بحران۔ تاہم باب وڈورڈ نے ٹرمپ کے حوالے سے بھی دلچسپ انکشافات کئے ہیں۔ باب وڈورڈ کی نئی کتاب میں دو ایسے دعوے آئے ہیں جنہوں نے امریکی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ پہلا یہ دعویٰ ہے کہ صدر ٹرمپ نے خفیہ طور پر روسی صدر پوٹن کو کورونا ٹیسٹنگ کٹ بھجوائی تھی جبب وہ کورونا میں مبتلا ہوئے تھے۔ اسے پوٹن کے مشورے پر خفیہ رکھا گیا۔ دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد بھی کئی بار صدر پوٹن سے فون پر گفتگو کی۔ یہ دعویٰ مبینہ طور پر ٹرمپ کے ایک قریبی ساتھی کے حوالے سے کیا گیا۔ یہاں پر یہ ذہن میں رکھیں کہ ٹرمپ کے روسی صدر کے ساتھ تعلق کے حوالے سے ان کے مخالفین پہلے ہی الزامات لگا رہے ہیں اور امریکی صدارتی انتخابات سے صرف بیس دن پہلے اس کتاب کے آنے کی ٹائمنگ دلچسپ ہے۔ اس سے یقینی طور پر ٹرمپ کو نقصان پہنچے گا۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے نہ صرف باب وڈورڈ کے الزامات مسترد کر دئیے بلکہ ان کے خلاف توہین آمیز کلمات بھی استعمال کئے۔
باب وڈورڈ نے صدر بائیڈن کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ بظاہر پبلک میں کسی کے خلاف سخت بات نہیں کرتے تھے، مگر دراصل وہ نجی محفلوں میں بعض سربراہان مملکت کے حوالے سے سخت کلمات کہتے رہیے جیسے ٹرمپ، پوٹن وغیرہ۔ وہ کتا، بیبی نیتن یاہو، وہ برا آدمی ہے۔ وہ بہت برا آدمی ہے! " بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم کے بارے میں 2024 کے موسم بہار میں اسرائیل کی غزہ جنگ کے دوران ایک نجی گفتگو میں کہا۔
جب بائیڈن نے 21 جولائی کو اپنی نامزدگی سے دستبرداری کا اعلان کیا تو انہوں نے فوراً ہیرس کی حمایت کی، جس سے انہیں ڈیموکریٹک حمایت کو مستحکم کرنے اور پارٹی میں پیچیدہ لڑائی سے بچنے کا موقع ملا۔ انہوں نے یہ بھی یاد کیا کہ صدر کی حمایت نہ ملنے کا کیا احساس ہوتا ہے۔
"میری رائے میں، یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بائیڈن کو 2016 میں صدر اوباما کی جانب سے حمایت نہ ملنے کا کتنا افسوس تھا، " امریکی وزیرخارجہ بلنکن نے ووڈورڈ کو بتایا۔ "وہ مایوس ہوئے تھے۔ انہیں احساس ہوا کہ، آپ جانتے ہیں، ان کے نائب صدر کی حیثیت سے یہ ایک معمول کی بات تھی"۔
انہوں نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ ٹرمپ کی گفتگو کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں نیتن یاہونے ایران کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کے لیے زور دیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں نیتن یاہو کو اس وقت مایوس کرنا پڑا جب انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف حملہ کرنے سے انکار کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگرچہ انہوں نے اسرائیل کے لیے بہت کچھ کیا، جس میں امریکی سفارت خانہ کو یروشلم منتقل کرنا اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرنا شامل ہے، لیکن وہ ایران پر حملے کے حامی نہیں تھے۔ ٹرمپ کے حوالے سے کتاب کے آخری حصے میں افغانستان سے امریکی انخلا کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچے تھے۔
ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو انخلا کو بہت بہتر طریقے سے منظم کرتے۔ ٹرمپ نے میڈیا کو اپنے سخت ترین ناقدین میں شمار کیا اور کئی مرتبہ دعویٰ کیا کہ میڈیا نے ان کے خلاف جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ انہوں نے خاص طور پر CNN اور The New York Timesجیسے میڈیا اداروں کو ہدف بنایا۔ بائیڈن نے بھی میڈیا کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، لیکن انہوں نے میڈیا کے ساتھ ٹرمپ کی طرح جارحانہ رویہ نہیں اپنایا۔
ٹرمپ نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کو ایک "زبردست حریف" کہا اور کہا کہ ان کی انتظامیہ کے دوران چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کیا گیا تھا تاکہ امریکی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے چین کو معاشی دھچکا لگا۔
بائیڈن کی چین کے ساتھ پالیسی زیادہ پیچیدہ تھی، لیکن وہ بھی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں ناکام رہے۔ بائیڈن نے چین کو امریکہ کے لیے ایک اہم چیلنج کے طور پر دیکھا، خاص طور پر ٹیکنالوجی، تجارت، اور قومی سلامتی کے میدان میں۔ انہوں نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر چین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی پالیسیوں کو کبھی کبھار امریکی کاروباری مفادات اور قومی سلامتی کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹرمپ والی کتاب میں کووڈ19 وبا کا بھی ذکر ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ وائرس کو قابو میں لانے کے لیے سخت اقدامات کے حق میں تھے، لیکن انہوں نے چین کو اس وبا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے وبا کے دوران اپنی انتظامیہ کی پالیسیوں کا دفاع کیا، حالانکہ انہیں اقدامات پر شدید تنقید کا سامنا تھا۔
بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس وبا سے نمٹنے کے وعدے کیے تھے، اور صدر بننے کے بعد انہوں نے ویکسین کی فراہمی میں تیزی لانے اور امریکی عوام کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ تاہم، بائیڈن کو بھی وبا سے متعلق عوامی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر معیشت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے۔
ٹرمپ نے نائب صدر کملا ہیرس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے ان کی کارکردگی کو "مایوس کن" قرار دیا اور کہا کہ وہ نائب صدر کے کردار کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ بائیڈن انتظامیہ میں ہیرس کی ذمہ داریاں واضح نہیں تھیں اور وہ زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو سکیں۔