برٹش کولمبیا کینیڈا کا مغربی صوبہ ہے، اس کا دارالحکومت وینکووور دنیا کے چند خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ آج کل برٹش کولمبیا کینڈین اور مغربی میڈیا کے ساتھ دنیا بھر کے میڈیا کی خبروں میں اِن ہے۔ اس کی وجہ سردست وینکووور نہیں بلکہ اس سے تیس کلومیٹر دور ایک شہر سرے (Surrey) ہے۔ سرے کی وجہ شہرت مغربی کینیڈا کے ایک اہم شہر ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کی سکھ کمیونٹی بھی ہے۔
سرے شہر زیادہ بڑا نہیں، ساڑھے پانچ لاکھ آبادی ہوگی، مگر اس کا ستائیس فیصد حصہ سکھ کمیونٹی پر مشتمل ہے۔ کینیڈا میں سکھوں کی اچھی خاصی تعداد مقیم ہے، کوئی پندرہ سولہ لاکھ کے لگ بھگ۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی صوبہ پنجاب کے بعد صرف کینیڈا ہی میں اتنی بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں۔
چند ماہ قبل سرے شہر میں ایک ایسا واقعہ ہوا، جس سے پیداہونیو الی اضطراب اور بے چینی کی لہروں نے کینیڈا اور اب بھارت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ خبروں کے مطابق اٹھارہ جون2023، اتوار کی شام کو وہاں کی مشہور سکھ عبادت گاہ گوردوارہ نانک صاحب میں شام کی عبادت کے لئے لوگ جمع ہوئے تو پارکنگ لاٹ سے فائرنگ کی آواز آئی۔ پتہ چلا کہ دو نقاب پوش نوجوانوں نے فائرنگ کرکے گوردوارہ کے صدر ہردیپ سنگھ نِجر کو قتل کر دیا ہے۔
ہردیپ سنگھ نِجر معروف سکھ ایکٹوسٹ رہنما تھے۔ وہ طویل عرصہ سے کینیڈا میں مقیم تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق بھارتی شہر جالندھر سے تھا، مگر 1997ء میں کینیڈا آگئے اور تب سے یہیں رہ رہے، خاصا عرصہ قبل کینیڈین شہریت مل چکی تھی۔ ہردیپ سنگھ نجر آزاد خالصتان تحریک کے زبردست حامی تھے اور اس کے لئے ہمیشہ آواز بلند کرتے رہتے۔ عوامی اجتماعات اور ریلیز وغیرہ کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی ایکٹو رہتے۔
کینیڈا میں خالصتان کے حوالے سے ریفرنڈم کرانے کی طرح بھی انہوں نے ڈالی۔ بھارتی حکومت کے دعوے کے مطابق ہردیپ سنگھ علیحدگی پسند تنظیم خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ تھے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا میں ہردیپ سنگھ کے خلاف بہت کچھ بولا جاتا رہا ہے۔ چند سال پہلے ان کے لئے دس لاکھ روپے انعامی قیمت بھی رکھی گئی۔ کینیڈا میں چونکہ سکھ کمیونٹی اچھی خاصی عددی قوت رکھتی ہے، یہ سیاسی طور پر بھی ایکٹو ہیں، اس لئے مقامی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کے لئے انہیں نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو ایشیائی آبادی کے خاصے قریب ہیں، وہ تارکین وطن کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور یہ ان کے پکے ووٹر حلقے ہیں۔ وزیراعظم ٹروڈو کی سکھ تقریبات میں روایتی زعفرانی رومال سر پر باندھے شمولیت کی تصاویر بھی آتی رہتی ہیں۔ ویسے ٹروڈو مسلم تقریبات میں بھی جوش وخروش سے شرکت کرتے ہیں۔
بھارتی حکومت کے دعووں اور الزامات کے باوجود کینیڈین حکومت کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہاں سکھوں کی پرامن ایکٹوٹی کو روک سکیں۔ اسی وجہ سے وزیراعظم ٹروڈو نے بھی کبھی کچھ نہیں کیا۔ پانچ سال قبل جسٹن ٹروڈو بھارت کے دورے پر آئے تو تب بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے انہیں ان کینیڈین سکھوں کی فہرست پیش کی جوبقول ان کے بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کر رہے ہیں، ان میں ہردیپ سنگھ نِجر کانام سرفہرست تھا۔ کینیڈا نے کچھ تفتیش بھی کی، مگر ہردیپ سنگھ کے ہاتھ صاف تھے۔ ہردیپ سنگھ نجر نے بھی تب ویڈیوز وغیرہ جاری کیں اور بتایا کہ میں پلمبر ہوں اور یہاں اتنے طویل عرصے سے اپنا کام ہی کر رہا ہوں جبکہ مجھے اپنے سیاسی نظریات اور آرا کے پرامن اظہار کا حق حاصل ہے وغیرہ وغیرہ۔
پچھلے سال ڈیڈھ میں کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں سکھوں نے خالصتان پر ریفرنڈم کی طرح ڈالی۔ یہ ایک ایسی سرگرمی تھی جس سے بھارتی حکومت، خاص کر وزیراعظم نریندر مودی بری طرح جھنجھلائے اور تلملائے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا میں ریفرنڈم عام آدمی سے ووٹ لینے کی ایک ایکٹوٹی ہے جس کی وہاں مخالفت نہیں کی جا سکتی اور اس کا ایک خاص تاثر بنتا ہے۔ بھارتی حکومت اس سے نالاں تھی۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت اور وہاں کے خفیہ اداروں نے ایک ایسی جارحانہ حکمت عملی اپنائی ہے جو ان کے اپنے لئے اب تباہ کن اور نہایت خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ہونے والے بہت سے ایسے پراسرار واقعات ہیں جن کے پیچھے بھارتی خفیہ اداروں کی انوالمنٹ نظر آ رہی ہے۔ پاکستان تو بہت پہلے سے یہ کہہ رہا ہے کہ بھارتی ایجنسیاں یہاں پراکسی وار کر رہی ہیں اور کئی خوفناک واقعات وہ کرا چکی ہیں۔ اب لگتا ہے مغربی دنیا بھی اس طرف کان دھرنے پر مجبور ہوگئی۔
ہردیپ سنگھ نِجر کے قتل نے کینڈین حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان کی تفتیش اور تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ بھارتی ایجنسی را کی اس میں انوالمنٹ ہے۔ تین دن قبل کینیڈا نے ایک بھارتی سفارت کار کو ملک سے نکال دیا۔ کینیڈین وزیرخارجہ نے میڈیا کو بتایا کہ یہ سفارت کار پون کمار دراصل کینیڈا میں را کا سٹیشن چیف تھا۔ کسی مغربی ملک میں را کے مقامی سربراہ کو یوں بے عزت کرکے نکالا جانا بھارت کے لئے بڑے دھچکے سے کم نہیں۔ بھارت نے بھی جوابی طور پر ایک کینڈین سفارت کار کو نکال دیا ہے، مگر معاملہ دبا نہیں۔
دراصل کینیڈا میں پچھلے سال بھی ایک پروخالصتان سکھ لیڈر کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ پچھتر سالہ رپودمن ملک تھے، بھارتی میڈیا کے مطابق وہ ببر خالصہ نامی تنظیم کے سربراہ تھے۔ انہیں بھی سرے شہر ہی میں گولی مار کر قتل کیا گیا۔ جون دو ہزار تیئس میں برطانوی شہر برمنگم میں ایک اور مشہور سکھ لیڈر اوتارسنگھ کھانڈا(کھنڈا)کی پراسرار حالات میں موت ہوئی۔ یہ بھی پروخالصتان تحریک لیڈر تھے اور اپنی ایکٹویٹیز کی وجہ سے سکھ کمیونٹی میں مشہور تھے۔ سکھ کمیونٹی کا الزام ہے کہ اوتار سنگھ کھانڈا کو زہر دے کر مارا گیا ہے۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل لاہور میں بھی ایک ممتاز خالصتانی لیڈر کی ٹارگٹ کلنگ کی خبر آئی تھی۔
اب ان تمام واقعات کی کڑیاں مل کر بھارت کے خلاف ایک چارج شیٹ کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ کینیڈا اور بھارت کے باہمی تعلقات میں خاصی کشیدگی آ گئی ہے۔ دونوں ممالک میں آزاد تجارت کے ایک معاہدے پر بات چیت ہورہی تھی جو اب معطل ہوگئی ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو چند دن قبل جی ٹوئنٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے بھارت آئے تھے، اس دورے میں بھی کشیدگی برقرار رہی۔ میڈیا نے نوٹ کیا کہ سلامی کی تقریب میں ٹروڈو نے نریندرمودی سے ہاتھ جلد چھڑایا اور رخصت ہوگئے۔ دونون کی ملاقات میں بھی کشیدگی کی خبریں آئیں۔ اب واپس جا کر وزیراعظم ٹروڈو نے باقاعدہ طور پر بھارتی سفارت کار کو نکال دیا ہے اور باضابطہ الزام لگا دیا۔
کینیڈا کا کہنا ہے کہ ان کے ایک شہری کو نشانہ بنانا ان کی خودمختاری اوران کے وقار پر وار ہے۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے برطانوی وزیراعظم رشی سونک اور امریکی صدر جو بائیڈن سے بھی فون پر گفتگو کی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ دونوں کے بھارت کے ساتھ خاصے قریبی تعلقات ہیں، مگر کینیڈا بھی ان کا قریبی دوست ملک ہے اور وہاں جا کر کسی شہری کو قتل کرنے کے واقعے کی یہ کیسے حمایت کر سکتے ہیں؟ دونوں ممالک نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ تحقیقات میں کینیڈا سے تعاون کریں۔
تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ کے ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی ہردیپ سنگھ نجر کیس میں کینیڈاکی جانب سے تحقیقات کی مطالبے کی حمایت کر دی ہے۔ ایک طرح سے ان پانچ ممالک (کینیڈا، امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ)کا انٹیلی جنس اتحاد ایک خاص حوالے سے بھارت کے مقابلے میں ایک ہی پلیٹ فارم پر آ گیا ہے۔
یہ سب کچھ بہت اہم اور غیر معمولی ہے۔ بے شک بھارت کی لابی مضبوط اور طاقتور ہے، وہاں پر ان ممالک کے مفادات اور بہت سے فوائد منسلک ہیں، مگر بہرحال بھارت بیک فٹ پر چلا گیا ہے۔ ان ممالک کی جانب سے یہ بیانات بھارت کے لئے پریشان کن ہیں۔ سب سے اہم کہ ان ممالک کے میڈیا میں بھی اس حوالے سے بہت کچھ چھپ رہا ہے جو بھارتی حکومت، خاص کر وزیراعظم مودی کے امیج کے لئے تباہ کن ہیں۔
پاکستان اس معاملے میں اس لئے مطمئن اور آسودہ ہوگا کہ جو باتیں ہم عرصے سے کہتے آئے تھے اور مغربی دنیا اسے قبول کرنے میں تامل کا شکار تھی، اب خود ان کے اپنے اندر تک اس دہشتگردی اور اس جارحانہ بھارتی آمرانہ طرزعمل کا اثر پڑا ہے۔ مغربی دنیا کے لئے یہ بہرحال قابل قبول نہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنٹ وہاں آ کر کارروائی کریں اور اپنے سکور سیٹل کریں۔ لگتا ہے بھارتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر" اجیت دول" کی جارحانہ ڈاکٹرائن بیک فائر کر گئی ہے اور آگ کے گولے الٹ کر بھارتی صحن میں جا گرے ہیں۔