آج بات ایک شارٹ مووی سے شروع کرتے ہیں، مگریاد رہے کہ کالم کا مرکزی خیال فلم سے متعلق نہیں۔
ایک فلم کی آج کل خاصی شہرت پھیلی ہے۔ نام "چمپارن مٹن "ہے۔ اسے بہار، انڈیاسے تعلق رکھنے والے بعض یونیورسٹی کے طلبہ نے بنایا۔ چوبیس منٹ دورانیہ کی شارٹ فلم ہے۔ بہار کی ایک مقامی زبان" بجیکا" میں بنایا گیا ہے۔ یہ فلم آسکرکے سٹوڈنٹ اکیڈمی ایوارڈ کے سالانہ مقابلے کے لئے بھیجی گئی تھی۔ پونے دو ہزار کے قریب فلموں میں سے اس نے شارٹ لسٹ ہو کر سیمی فائنل رائونڈ تک جگہ بنا لی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ یہ فائنل میں پہنچ جائے اورپھر شائد فائنل بھی جیت لی۔ بھارتی تاریخ کی یہ پہلی فلم ہے جو آسکر سٹوڈنٹ اکیڈمی ایوارڈ میں اتنا آگے گئی۔
فلم ابھی شائد یوٹیوب وغیرہ پر دستیاب نہیں، مقابلہ جیت گئی تو شائدنیٹ فلیکس جیسے کسی بڑے سٹریمنگ چینل پر بھی آ جائے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بہار ہی سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم رنجن کمار نے یہ فلم بنائی ہے۔ اس کے بیشتر اداکار بہار ہی کے ہیں۔ مرکزی کردار اداکار چندن رائے اور اداکارہ فلک خان نے ادا کیا۔ چندن رائے نے پرائم ویڈیو کے ایک مقبول ڈرامہ سیزن پنچایت میں وکاس کا کردار ادا کرکے مقبولیت حاصل کی تھی۔
"پنچایت"بھی ایک دلچسپ ڈرامہ ہے۔ بظاہر خشک سادہ، مگر دلچسپ۔ عام کرداروں کے گرد گھومتا۔ اس کے پہلے سیزن کی دس اقساط میں سرے سے کوئی لڑکی تھی ہی نہیں، البتہ سیزن کے آخری منظر میں ایک لڑکی جو مقامی پنچایت کی پردھان کی بیٹی تھی، اسے دکھایا گیا۔ دوسرا سیزن میں البتہ اس لڑکی رنکی کا کردارنسبتاً بڑا ہے مگر گلیمر سے پاک۔ چندن نے مقامی پنچایت کے ملازم وکاس کاکردار خوب نبھایا۔
اس فلم کے بارے میں رائے تو خیر دیکھنے کے بعد ہی دی جا سکتی ہے، سردست تو مجھے اس کی کہانی نے اپنی طرف کھینچا ہے۔ کہانی میں بہار کی ایک مشہور ڈش "چمپارن مٹن" کا تذکرہ ہے۔ چمپارن وہاں کے کسی علاقہ کا نام ہے اوروہاں مخصوص انداز میں مٹن بنایا جاتا ہے، جیسے ہمارے ہاں شنواری مٹن یا دنبہ کڑھائی مشہور ہوچکی۔ چمپارن مٹن فلم پر بات کرنے سے پہلے خاص طور سے نیٹ پر سرچ کرکے چمپارن مٹن کی تصاویر اور اس کی تیاری کا طریقہ (ریسیپی) ڈھونڈا۔ تصاویر ایسی اشتہاانگیز اور مسحورکن ہیں کہ آدمی اگلا کام اپنے شہر میں چمپارن مٹن کی کسی دکان کو ڈھونڈنے کا کرتا ہے۔ ہم نے بھی لاہور میں سرچ کیا، سردست تو کامیابی نہیں ہوئی۔
چمپارن مٹن میں پیاز زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ ایک کلو مٹن یعنی بکرے کے گوشت میں تین پائو پیاز جبکہ دیگر چیزوں میں بھی خاصے مسالہ جات ہیں۔ پہلے دہی یا بعض جگہوں پر سرسوں کے تیل میں میرینیٹ کرکے گوشت رکھ دیتے ہیں۔ پھر مٹی کی ہانڈی میں سب چیزیں ڈال کر آٹے سے اوپر کا ڈھکن اچھی طرح بند کر دیں۔ ہلکی آنچ پر پکائیں، کچھ دیر بعد آنچ بڑھانی ہے اور پھر کوئی گھنٹے بھر بعد کھول کر دیکھیں، امید ہے کہ مٹن اچھی طرح گل چکا ہوگا۔ اگرگوشت نہیں گل سکا تو پھر کوئی اور جگاڑ لگائیں۔ اتنی تحقیق ہم نے بھی نہیں کی۔ ویسے بھی ہمیں ہمیشہ کھانے سے دلچسپی رہی ہے، پکانے سے قطعی نہیں۔
چمپارن مٹن فلم کی کہانی کورونا لاک ڈائون کے دنوں کے گرد گھومتی ہے۔ فلم کے مرکزی کردار نے محبت کی شادی کی تھی، اس کی بیوی کا تعلق چمپارن سے ہے اور مٹن اسے بے حد پسند۔ اب وہ حاملہ ہے اور ایسے میں کسی خاص ڈش کے کھانے کا بڑی شدت سے دل کرتا ہے۔ ادھر ان کی ملازمت ختم ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے شہر چھوڑ کر گائوں آئے ہیں۔ غربت اورمعاشی مسائل کے درمیان مٹن کیسے خریدا جائے؟ یاد رہے کہ مٹن بھارت میں بھی بہت مہنگا ہے۔ خیر خاوند کوئی ترکیب چلا کر کسی نہ کسی طرح گوشت لے آتا ہے۔ اب جیسے ہی کھانا پکنے لگتا ہے، کہیں سے مہمان ٹپک پڑتے ہیں، پھر مٹن کی خوشبو سے ہمسائے بھی آ جاتے ہیں۔ اب آگے کیا ہوا، کس طرح انہوں نے کام چلایا اور اپنا چمپارن مٹن بچایا، یہ تو فلم دیکھنے سے اندازہ ہوگا۔
ڈائریکٹر رنجن کمار کا انٹرویو ایک ویب سائٹ پر پڑھا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ میری زندگی کا حقیقی واقعہ ہے، ایک بار کسی رشتے دار کے گھر اتفاق سے گیا تو وہاں مٹن پک رہا تھا، پھر ایک شناسا ڈاکٹر بھی اتفاق سے آ گیا اور کھانے کی سحرانگیز خوشبو ہمسایوں کو بھی کھینچ لائی۔ ظاہر ہے میزبان بے چارے بری طرح پھنس گئے، کھلانا بھی مشکل، نہ کھلانا اس سے کڑا۔
کہانی کی جھلکیاں پڑھ کر یہ خیال آیا کہ آدمی کے اندر کیسی خواہشات جنم لیتی ہیں۔ وسائل کی کمی اسے وہ دبانے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آج بھی بے شمار گھرانے ایسے ہیں جنہیں مٹن صرف عید قرباں پر نصیب ہوتا ہے، وہ بھی اگر کوئی ان کے گھر بھیج دے۔ ویسے تو بیف بھی آج کل بہت مہنگا ہوگیا ہے اور مرغی کا گوشت بھی عام آدمی تو کیا لوئر مڈل کلاس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ساڑھے چھ، سات سوروپے کلو گوشت کون خریدے جو آٹھ دس بندوں کے گھرانے میں صرف ایک وقت یا ایک دن کا کھانا ثابت ہو؟
مجھے چند سال پہلے کا ایک واقعہ آج تک اچھی طرح یاد ہے۔ ایک دوست نے واقعہ سنایا۔ وہ لاہور کے ایک درمیانے سے علاقہ میں رہتے تھے۔ ہمسایہ میں اتفاق سے ایک خاندان مقیم تھا، جن کے بیرون ملک مقیم سسرالی عزیز نے انہیں رہنے کو اوپر والاحصہ دے رکھا تھا۔ میاں ایک ٹیلرنگ فیکٹری میں کاریگر تھا جبکہ بیوی محلے والوں کے کپڑے سی کرگھر کی کفالت میں حصہ ڈالتی۔ دوست بتانے لگے کہ ایک دن ان خاتون نے میری اہلیہ کو باتوں میں بتایا کہ میری مڈل سکول جانے والی بیٹی کی ضد ہوتی ہے کہ وہ انڈے، ڈبل روٹی کا ناشتہ کرے، مگر اتنا مہنگا ناشتہ کیسے ممکن ہو، اسے ڈانٹ کر چائے رس یا چائے روٹی کھانے کی ہدایت کرتی ہوں۔
وہ دوست مجھے بتانے لگے کہ جب سے یہ بات سنی ہے، رات کی نیند اڑ گئی ہے۔ متوسط طبقہ کا ہونے کے باوجود ہمارے بچوں کے لئے انڈہ ڈبل روٹی کا ناشتہ کرنامعمول ہے بلکہ ان کا اس سے دل بھر چکا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہی نہیں تھا کہ انڈے، ڈبل روٹی بھی کوئی مہنگا یا کسی کی رسائی سے دور ناشتہ ہوسکتا ہے۔ مجھ سے انہوں نے پوچھا کہ وہ ان خاتون کی مدد کرنا چاہ رہے ہیں، مگر کس طرح کریں؟ اگر انہیں ڈبل روٹی یا انڈے بھیجیں گے تو وہ خود دار خاتون نہیں لیں گی، کوئی ایسا حل بتائیں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ بات پرانی ہے، آج تو ڈبل روٹی اور انڈے جتنے مہنگے ہوچکے ہیں، چند سال پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب تو اچھے بھلے گھرانے کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کو ناشتہ میں ڈبل روٹی کے بجائے روٹی کی طرف مائل کریں تاکہ پیٹ بھی بھر جائے اور خرچ کم ہو۔
ہمارے ایک دوست نت نئے آئیڈیاز سوچتے رہتے ہیں، خیر کے کاموں میں ان کی بہت دلچسپی ہے۔ انہوں نے پچھلے سال یہ فیصلہ کیا کہ اپنے ملازمین اور جاننے والے کچھ گھرانوں میں کسی نہ کسی بہانے سے گوشت یا کچھ راشن کی چیزیں بھجوائی جائیں۔ وہ تو اس کے لئے تھوڑا بہت مصلحت آمیز دروغ بھی روا سمجھتے ہیں۔ اپنے نسبتاً کمزور عزیزوں کے گرد بیف یا مٹن کا گوشت کبھی یہ کہہ کر بھجوا دیتے کہ فلاں وجہ سے بکرے کا صدقہ کیا ہے۔ اپنے ملازموں کا وہ خیال رکھتے تھے مگرمہینے میں ایک آدھ بار اضافی پیسے دینے کے بجائے گوشت، پھل وغیرہ ان کے گھر بھجواتے۔ ان کا خیال تھا کہ پیسے تو کسی نہ کسی مد میں لگ ہی جاتے ہیں، مگر گوشت اگر گھر میں آئے تو وہ پک ہی جاتا ہے، اسی طرح موسمی پھل جیسے آم، کینو وغیرہ کا معاملہ ہے۔ بچے اگر کھائیں گے تو ان کا احساس محرومی کچھ نہ کچھ تو کم ہوگا۔
آج کل جو حالات بن گئے ہیں، یہ پوسٹ کورونا ہی سمجھیں۔ کم وبیش وہی تنگی، سختی اور وسائل کی کمی ہر جگہ نظر آ رہی ہے۔ پچھلے ڈیڈھ دو برسوں میں پٹرول، گیس، بجلی کے نرخ غیر معمولی بڑھے ہیں جبکہ دودھ، دہی، گوشت، دالوں وغیرہ کے ریٹ بھی بہت اوپر چلے گئے۔ گندم کی قیمت خرید حکومت کو چار ہزارفی من کرنا پڑی، نقصان اس کا یہ ہوتا ہے کہ آٹا بہت مہنگا ہوگیا۔ آٹے کی وجہ سے تنور کی روٹی، نان وغیرہ اتنے مہنگے ہوئے کہ رسائی ہی ختم ہوگئی۔ لاہور میں یہ صورتحال ہے کہ درمیانے خاندان کو اگرآٹھ دس نان منگوانے پڑیں تو سیدھا تین سو روپے گئے۔ پہلے کہاوت کے طور پر کہا جاتا تھا کہ دھنیا، مرچ پیس کر چٹنی بنا کر روٹی کے ساتھ کھا لی۔ اب وہ بھی دوبھر ہوگیا۔
"چمپارن مٹن"کے ڈائریکٹر نے زندگی کے بعض حقائق کو موضوع بنایا، یہ اچھی بات ہے۔ اس سے بھی اہم مگر یہ کہ زندگی کی ان تلخیوں کو کم کرنے اور اپنے سے کم وسیلہ افراد کی محرومیوں کی تلافی کرنے کے لئے اپنی سی کوشش کی جائے۔