پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ملتان ٹیسٹ جیت کر جہاں ساڑھے تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری جمود ختم کر دیا، وہاں کرکٹ شائقین کے ذہنوں میں بہت زیادہ نئی توقعات بھی پیدا کر دی ہیں۔ اس جیت کا اپنا ایک خاص امپیکٹ ہے، اس سے انکار نہیں، مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستانی کرکٹ کے کچھ مسائل اتنا جلد حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ جو مسائل برسوں بلکہ عشروں میں پیدا ہوئے ہیں، ان کے حل کے لئے صرف چند دن یا ہفتے ناکافی ہیں۔ آپ جسے چاہے سلیکشن کمیٹی میں شامل کر لیں، جو مرضی کوچ لے آئیں، یکایک انقلابی تبدیلی نہیں آتی۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ گندم کی فصل جتنا مرضی زور لگا لیں، جنوری فروری میں نہیں پک سکتی۔ اسے اپریل کی دھوپ درکار ہوگی۔ یہی معاملہ ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کا بھی ہے۔
ملتان میں دوسرے ٹیسٹ کی فتح نے بعض مغالطے بھی پیدا کر دئیے۔ اس میچ سے قبل کئی سینئر کھلاڑیوں جیسے بابراعظم، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو ٹیم سے ڈراپ کیا گیا، ان کی جگہ نئے کھلاڑی آئے۔ تاثر یہ ملا کہ شائد جن کھلاڑیوں کو ڈراپ کیا گیا، وہ جیت کی راہ میں رکاوٹ تھے اورا ن کی سیاست نے یہ دن دکھلایا تھا۔ ایسا درست نہیں۔ اصل مسئلہ ٹیسٹ کرکٹ ہے، جہاں پاکستانی قومی ٹیم خاصے طویل عرصے سے کمزور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ اعلیٰ کوالٹی کرکٹ ہے، وہاں پر آپ کو غیر معمولی کرکٹر درکار ہوتے ہیں اور خاص کر ٹیسٹ بیٹنگ میں بہت اچھی تکنیک اور عمدہ ٹمپرامنٹ والا کھلاڑی ہی چل پاتا ہے۔ پاکستان کی کرکٹ، خاص کر پی ایس ایل کے بعد سے وائٹ بال کے گرد گھوم رہی ہے۔ پہلے ون ڈے کرکٹ اور پچھلے پانچ سات برسوں سے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے تقاضے مختلف ہیں، وہاں ایک ہٹر اکیلا بھی دھواں دھار بیٹنگ سے میچ جتوا سکتا ہے۔ وہاں پر اوسط درجے کے باولر بھی اچھی لائن لینتھ میں باولنگ کرا کر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں مسٹری سپنر کامیاب ہیں، مگر ٹیسٹ کرکٹ میں ضروری نہیں کہ انہیں بڑی کامیابی ملے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بلے باز کو ہر گیند پر ہٹ لگانی ہوتی ہے، ا س میں وہ غلطیاں کر جاتا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں اس کے پاس بہت وقت ہوتا ہے۔ وہ کئی کئی اوورز رنز بنائے بغیر گزارا کر سکتا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بھی بلے باز کو آوٹ کرنے کے لئے باولر کو بہت زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ اس کے پاس غیر معمولی ورائٹی اور صبر وتحمل ہو تب ہی وہ کامیاب ہوگا۔
پچھلے چند برسوں سے پاکستان کے پاس ٹیسٹ لیول کے اچھے باولر موجود نہیں۔ شاہین شاہ آفریدی تو خاص طور سے صرف وائٹ بال میں کامیاب ہوا، ٹیسٹ ریکارڈ اس کا مایوس کن ہے، ویسے تووائٹ بال میں بھی اس کی حالیہ فارم اچھی نہیں۔ حارث روف تو ریڈ بال کرکٹ یعنی ٹیسٹ کرکٹ کا باولر ہی نہیں۔ یہی معاملہ شاداب خان، اسامہ میر وغیرہ کا ہے۔ یعنی پاکستان کے جو سپنر ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں کھیلتے ہیں، ان میں سے کسی کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بھی نہیں بنتی۔ یہی معاملہ اکثر فاسٹ باولرز کا ہے۔ شاہین شاہ، حارث روف، حسنین، زمان خان وغیرہ کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی۔ نسیم شاہ البتہ ٹیسٹ ٹیم میں آ سکتا ہے، مگر اسے بھی خاصی محنت کرنا پڑے گی۔
محمد عباس، حمزہ میر، محمد علی وغیرہ کو ٹیسٹ کرکٹ کھلائی جا سکتی ہے، مگر عباس کی سپیڈ بہت کم ہوگئی ہے اور وہ فلیٹ یعنی سیدھی پچوں پر کامیاب نہیں۔ میر حمزہ اچھا باولر ہے، مگر اس کی بھی سپیڈ خاصی کم ہے اور وہ اسی وجہ سے خشک فلیٹ پچوں پراچھی ریورس سوئنگ نہیں کرا سکتا۔ محمد علی کا ڈومیسٹک ریکارڈ اچھا ہے، مگر ٹیسٹ میں اسے مواقع ملنے پر خاص کامیابی نہیں ملی۔ خرم شہزاد البتہ اچھا ٹیسٹ فاسٹ باولر ہے، مگر اس کی فٹنس کے ایشوز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ عامر جمال نے آسٹریلیا میں اچھا پرفارم کیا، دو بار پانچ وکٹیں لیں، نصف سنچریاں بھی بنائیں تو ہمیں لگا کہ ٹیسٹ فاسٹ آل راونڈر مل گیا ہے۔ عامر جمال کو مگر پاکستان کی پچوں پر کامیاب باولر بننے کے لئے خاصی محنت درکار ہوگی۔
ملتان ٹیسٹ کی کامیابی میں دو تین اہم فیکٹرز ایسے تھے جو ضروری نہیں کہ پنڈی ٹیسٹ میں مل سکیں۔ پاکستان نے سپن ٹریک پر میچ کھیلا جہاں پانچ دن پہلے میچ ہوچکا تھا، وہاں پر ٹاس اہم تھا۔ پاکستان نے ٹاس جیت لیا، کامران غلام کا پہلا ٹیسٹ تھا، اس نے پرفارم کیا اور سنچری بنا دی، پاکستان پہلی اننگ میں اچھا سکور اس لئے کر گیا کہ پہلے دو دن پچ نسبتاً آسان تھی۔ تیسرے دن کے سکینڈ لاسٹ سیشن میں وکٹ نے زیادہ ٹرن لیا اور انگلینڈ کی ٹیم کولیپس کر گئی۔
پاکستان کی دوسری اننگ میں اگر سلمان آغا کا آتے ہی کیچ پکڑا جاتا تو پاکستان کا ہدف سو رنز کم ہوتا، ایسی صورت میں انگلینڈ پر دباؤ کم ہوتا۔ اگر چوتھی اننگ پاکستان کو کھیلنا پڑتی تو میچ کا نتیجہ ریورس بھی ہوسکتا تھا۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بابر اعظم کو آوٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے ڈراپ کرنا غلط فیصلہ نہیں تھا۔ کامران غلام اِن فارم تھا، اسے کھلانا ٹھیک رہا۔ شاہین شاہ اچھی فارم میں نہیں اور ٹیسٹ میں سٹرگل کر رہا تھا تو اسے ڈراپ ہی کرنا چاہیے تھا، نسیم شاہ کو البتہ شامل کیا جا سکتا تھا۔
عامر جمال ایسا پیسر نہیں جو ٹیم کا اکیلا بوجھ اٹھا سکے۔ بہتر ہوگا کہ پنڈی ٹیسٹ میں دو پیسر، دو سپنر کے ساتھ جائیں۔ جب ٹیم میں سات بلے باز کھیل رہے ہیں تب عامر جمال کی بیٹنگ اضافی ہے، اسے مین باولر کا بوجھ اٹھانا چاہیے، ورنہ اس کی جگہ کوئی اور سپیشلسٹ فاسٹ باولر کھیلے۔ پاکستان پنڈی ٹیسٹ میں ان شااللہ اچھا پرفارم کرے گا، مگر ٹیم سے بلند توقعات نہ وابستہ کی جائیں۔ اگر پاکستان ٹاس ہار گیا اور انگلینڈ نے پہلے دن اچھی اور تیز بیٹنگ کر لی اور پہلی اننگ کا سکور چار پانچ سو ہوگیا تو میچ پھنس جائے گا۔
پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوالٹی سپنر ہمارے پاس موجود نہیں، خاص کر رائیٹ آرم لیگ سپنر اور اچھے مسٹری سپنر کی کمی ہے۔ ابرار مسٹری سپنر ہے، مگر کچھ عرصے سے وہ ٹیسٹ میچز میں زیادہ کامیاب نہیں ہو رہا۔ ہمارے پاس نعمان علی کی صورت میں آرتھوڈاکس لیفٹ آرم سپنر اور ساجد خان کی صورت میں ایک اچھا آف سپنر موجود ہے، مگر ان دونوں کو کامیابی کے لئے ٹرننگ سپن ٹریک درکار ہے۔
ضروری نہیں کہ ہر جگہ وہ ملتان ٹیسٹ والی کامیابی دہرا سکیں۔ ہمیں بہرحال ثقلین مشتاق، سعید اجمل جیسے ورائٹی والے آف سپنر اور عبدالقادر، مشتاق احمد، دانش کنیریا اور یاسر شاہ جیسے میچ وننگ لیگ سپنر درکار ہیں۔ ہماری اصل خامی یہ ہے کہ ہم نے اپنی اکیڈمی میں پچھلے دس برسوں سے کوئی اچھا ٹیسٹ لیگ سپنر تیار ہی نہیں کیا۔ ہمیں اس طرف توجہ دینا چاہیے۔ درست سمت میں سفر شروع ہوجائے تو کچھ وقت گزرنے کے بعد سہی، لیکن منزل لازمی مل جاتی ہے۔