چند دن پہلے کتابوں کا عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹیں لکھیں، اخبارات میں بھی لکھا گیا۔ میں لکھنا چاہ رہا تھا مگر سچی بات ہے کہ ہمت نہیں ہوئی۔ کتابوں سے اتنی زیادہ محبت ہونے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ میرے روزمرہ معمول سے کتاب ایک طرح سے نکل ہی گئی۔
ایسا نہیں کہ کتاب دیکھتا ہی نہیں۔ میری کتابوں کی خریداری ٹھیک ٹھاک ہے، ہر سال لاہور کے کتاب میلہ سے بہت سی کتابیں خریدتا ہوں، پچھلے سال دسمبر میں کراچی کے کتاب میلہ میں گیا تو وہاں عالمی ادب کے تراجم شائع کرنے والے معروف پبلشر سٹی بک پوائنٹ سے کئی کتابیں لیں، جن میں ناول گاڈ فادر کے مصنف ماریا پوزو کے دو ناول اومرتا اور لاسٹ ڈان بھی شامل تھے، یہ دونوں ناول پڑھ بھی ڈالے۔ کئی دوست مجھے اپنی کتابیں بطور تحفہ بھیج دیتے ہیں۔ ان کتابوں کو دیکھتا تورہتا ہوں، کسی کی ورق گردانی بھی کر لی، مگر جس طرح پہلے روزانہ کچھ وقت مطالعہ کے لئے نکالا جاتا تھا یا کسی کتاب کو دیوانہ وار کئی گھنٹے لگا کر ختم کرنے کی کوشش ہوتی تھی، اب وہ چیز غائب ہوچکی۔ ایسے میں لگا کہ عالمی یوم کتاب پر کوئی رسمی تحریر لکھنے سے بہتر ہے نہ لکھا جائے۔
البتہ دو دن پہلے ایک ایسا خوشگوار تجربہ ہوا، جس نے مجھے ہلا کر بھی رکھ دیا اور اندر سے سرشاری کی ایسی کیفیت پیدا ہوئی جسے شائد لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں۔ فرینک ہربرٹ ایک معروف امریکی سائنس فکشن رائٹر ہیں، ان کا ایک بہت مشہور اور مقبول ناول ڈیون Dune کے نام سے ہے۔ اب اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ رمضان سے قبل اسی ناول پر بنی فلم دیکھی۔ فلم دو سال پرانی تھی، مگر اب نیٹ فلیکس پر آئی، چیک کرنے لگا تو دلچسپ لگی اور دیکھ لی۔ انہی دنوں پتہ چلا کہ اس فلم کا دوسرا حصہ امریکہ اوردنیا بھر میں سینما میں ریلیز ہوا ہے۔
ایک دوست نے اس کا ایچ ڈی پرنٹ بھیجا تو اسے بھی دیکھ لیا۔ یوں دلچسپی بڑھ گئی۔ پھر خبر آئی کہ ڈیون کا ترجمہ بک کارنر جہلم شائع کر رہا ہے۔ اس ناول کو اردو میں معروف مترجم شوکت نواز نیازی نے منتقل کیا ہے۔ شوکت نیازی کئی عالمی ادب کے شاہکار اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں، ان میں فرانسیسی فکشن بھی شامل ہے۔ پتہ چلا کہ فرینک ہربرٹ کا پہلا ناول کامیاب ہوا تو اس نے اس سیریز میں چار پانچ مزید ناول لکھے، مگر پہلا ناول زیادہ اہم اور بنیادی نوعیت کا ہے، ڈیون فلم (پارٹ ون، پارٹ ٹو)اسی پہلے ناول سے اخذ شدہ ہے۔
دو دن پہلے یہ ناول حاصل کیا، اسے پڑھنا شروع کیا اور ہر چیز بھول گیا۔ عرصے بعد ایک بہت دلچسپ اور بڑا ناول پڑھنے کو ملا۔ ایک زمانے میں سب رنگ ڈائجسٹ کے تازہ شمارے میں بازی گر کی قسط کو شروع کرتا اور پھر چھوڑ دیتا، ایک طرف اتنی دلچسپ کہ پڑھے بغیر آدمی رہ نہ سکے۔ دوسری طرف یہ خوف کہ ختم ہوگئی تو اگلی قسط پھر کئی ماہ بعد پڑھنے کو ملے گی۔ وہی کیفیت اس ناول ڈیون کو پڑھتے ہوئے طاری ہوئی۔ کئی سو صفحات پر مشتمل ضخیم ناول ہے۔ اندازہ ہے کہ اس سیریز کے کسی دوسرے ناول کا ترجمہ ہونے اور چھپنے میں سال دو سال لگ ہی جائیں گے۔ ڈیون کو پڑھے بغیر رہ نہیں پا رہا اور اسے ختم ہونے کا اندیشہ بھی ستا رہا ہے۔ بڑی مشکل سے کوئی فرحت بخش مزیدار مشروب ملے اور پتہ ہو کہ ایک ہی گلاس شربت کا ہے، دوسرا نہیں ملے گا تو اسے گھونٹ گھونٹ پی کر مزا لیا جاتا ہے۔ " ڈیون" جیسے ناول بھی ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس کا ترجمہ اتنا عمدہ ہے کہ پڑھتے ہوئے لگتا ہے جیسے اردو ہی میں ناول لکھا گیا۔
اس کی کہانی بتا کر قارئین کا مزا خراب نہیں کرنا چاہتا البتہ سرسری تعارف میں کوئی حرج نہیں۔ یہ کہانی بہت آگے مستقبل کی ہے جب انسان مختلف سیاروں پر جا بسا، آرٹیفشل انٹیلی جنس اور جدید مشینوں نے انسانیت کے لئے اتنے خطرات پیدا کئے کہ انہیں ختم کرنا پڑا۔ اب جدید گیجٹ اور مشینیں تو موجود ہیں، مگر اس کے ساتھ بہت کچھ قدیم انداز کا بھی چل رہا ہے۔ فن حرب میں بھی سٹن گن، لیزرگنوں کے ساتھ خنجر اور تلواریں بھی چل رہی ہیں، ڈیفنس شیلڈ بھی بن گئی۔
یہ مختلف سیاروں کی دنیا ہے، جس کا ایک شہنشاہ ہے اور حسب روایت وہ خاصا بدبخت قسم اور سیاہ دل ہے۔ کچھ سیاروں کا فضا خوشگوار اور بعض کی مشکل اورسخت ہے۔ اراکیس ایک ایسا سیارہ ہے جہاں کے جغرافیائی حالات بہت ہی مشکل اور کٹھن ہیں، سخت ترین گرمی اورعظیم ترین صحرا۔ ہر طرف ریت اور خوفناک ریتلے طوفان جبکہ اس ریت میں عظیم الجثہ کیڑے ریگمار (Sand Worm) بھی ہیں جو معمولی سی آواز پر اس جانب لپکتے ہیں اور انسان یا گاڑیاں تو کیا، بہت بڑے ٹرالر اور ٹنوں وزنی مشینری بھی نگل لیتے ہیں۔
ہاوس آف ایٹریڈس(Atreides) کا ڈیوک لیٹو ایٹریڈس ایک ایسے سیارے کا حاکم ہے جہاں پانی وافر مقدار میں ہے، وہاں بارشیں ہوتی ہیں اورہر طرف سبزہ بھی۔ ڈیوک کو نواب یا حاکم سمجھ لیں۔ یہ سب سیاروں کے ڈیوک بنیادی طور پراس پوری یونیورس کے شہنشاہ کے ماتحت ہیں، تاہم ان کی ایک باہمی انجمن بھی ہے، اسی طرح خلائی گلڈ یونین بھی ہے جس کے سپیس شٹل وغیرہ کی مدد سے ایک سیارے سے دوسرے میں جایا جاسکتا ہے۔
یہاں ایک اور دلچسپ کردار جیسیکا کو بھی یاد رکھنا ہوگاجو ڈیوک کے بچے یعنی ولی عہد کی ماں اوراس کی لائف پارٹنر ہے۔ جیسکا ایک "بینی جیسریٹ " Bene Gesseritہے۔ یہ ایک الگ سے پراسرار اور بہت دلچسپ معاملہ ہے۔ یہ بینی جیسریٹ خواتین کا ایک ادارہ سمجھ لیں، نسل در نسل چلنے والا۔ یہ مختلف بچیوں کو لے کر انہیں خاص قسم کی تربیت دیتے ہیں، حیران کن مشاہدہ، چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت، زہروں میں مہارت، خفیہ زبانوں سے شناسائی اور ایسے بہت سے علوم۔ جیسیکا اپنے خاوند سے تو محبت کرتی ہے، مگر وہ بینی جیسریٹ کی سربراہ معظم ملکہ سے بھی دبتی اور ڈرتی ہے۔
ناول کا سب سے اہم اور مرکزی کردار پال ایٹریڈس ہے، جیسیکا اس کی خاص انداز میں تربیت کرتی ہے، فائٹنگ کی صلاحیت، سمجھ بوجھ، دانش اور اس کے ساتھ مختلف پراسرار صلاحیتوں کا پروان چڑھنا، چھٹی حس یا وجدان بھی بہت تیز ہوجاتا وغیرہ۔ اس زمانے اور بعض سیاروں میں ایک متھ یا تصور تھا کہ ایک غیرمعمولی آدمی یا مسیحا آئے گا اور وہ لسان الغیب ہوگا یعنی غیب کی زبان بولنے والا، وہ سب کچھ جان جائے گا(صاحب کشف ہوگا)اور وہ بنجر سیاروں کی بھی تقدیر بدل دے گا۔ جیسیکا کی خواہش ہے کہ اس کا بیٹا ہی وہ مسیحا یا غیر معمولی آدمی بنے۔
خیر ہائوس آف ایٹریڈس کے ڈیوک لیٹو کو اراکیس جانے کا حکم ملا۔ وہ اپنی فیملی یعنی بیوی جیسیکا اور بیٹے پال اور اپنے قریبی ساتھیوں، فوجیوں سمیت وہاں چلا جاتا ہے۔ اراکیس کی زندگی بہت ہی مشکل ہے، سازشی ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت کچھ اوپر نیچے ہوتا ہے، ہائوس آف ایٹریڈس کے لئے مشکلات بڑھ جاتی ہے۔ پال اور اس کی ماں جیسیکا کو صحرائی بدوئوں یا قبائلیوں فریمن میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ فریمن بھی بہت دلچسپ کردار ہیں۔ شدید ترین گرمی اور پانی کی کمی کے باوجود انہوں نے جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔
اراکیس کی سب سے اہم چیز سپائس نامی ایک عنصر یا دوائی ہے جو وہاں کی سرخ ریت میں ملا ہوا ہے۔ اس سپائس اوراس اچھوتے انداز کے ناول کے مختلف پہلوئوں پر ان شااللہ اگلی نشست میں مزید بات ہوگی۔ اس میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے آج سے بھی متعلق ہے۔
جاری ہے۔۔