سات اکتوبر کو غزہ سے حماس جنگجوئوں نے اسرائیلی فوج اور ان کے زیرقبضہ علاقوں پر جو شدید ترین حملہ کیا ہے، اسے مشرق وسطیٰ کا نائن الیون کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایسا حملہ ہے جس کے بعد مشرق وسطیٰ (مڈل ایسٹ) میں بہت کچھ تبدیل ہوجائے گا۔ عرب دنیا اور شائد اسلامی دنیا اب شائد پہلے جیسی نہ رہے۔ جو مسلم ممالک ہزاروں میل دور واقع ہیں، ان پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
اس واقعے سے متعلق بہت کچھ سامنے آ چکا ہے، مسلسل نئی اطلاعات آ رہی ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ عام فہم، سادہ اور مختصر انداز میں اپنے قارئین کو چند بنیادی نکات سے آگاہ کریں۔ عام قاری اگر اس ایشو یا موضوع کو فالو نہیں کر رہا تو اس کے ذہن میں تناظر بھی واضح ہو اوراہم سوالات کے جواب بھی مل جائیں۔
حماس کیا ہے؟ یہ سب سے پہلا اور بنیادی سوال ہے۔ حماس ایک فلسطینی گروپ یا تنظیم ہے، کوئی چھتیس برس قبل نامور فلسطینی عالم اور مذہبی لیڈر شیخ احمد یاسین نے اسے قائم کیا۔ فلسطین کاذ کے حوالے سے سب سے پرانی اور اہم تنظیم پی ایل او (فلسطین لبریشن آرگنائزیشن)ہے، اس کے بانی اور سربراہ یاسر عرفات (ابوعمار)تھے۔ پاکستان میں بے شمار نوجوانوں کے نام یاسرعرفات کے نام پر رکھے گئے۔
پی ایل او 1964میں قائم ہوئی تھی۔ اگر چہ پی ایل او کے علاوہ بھی بعض فلسطینی گروپ رہے ہیں جیسے جارج حباش کا پاپولر فرنٹ وغیرہ، مگر مسلم دنیا اور عالمی سطح پر طویل عرصے تک پی ایل او کو ہی فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم سمجھا جاتا رہا۔ 1987 میں البتہ شیخ احمد یاسین کی زیرقیادت حماس سامنے آئی۔ تب پرامن فلسطینی جدوجہد کا ایک فیز سامنے آیا جسے انتفادہ کہتے ہیں۔ یہ درحقیقت زیادہ پرجوش، زیادہ مذہبی فلسطینی گروپ تھا جو پی ایل او اور یاسرعرفات کی طرز سیاست کا شدید ناقد تھا۔
حماس کی فکر اور سٹرکچرحماس پر مصر کی نامور اسلامی تنظیم اخوان المسلمون (مسلم برادر ہڈ)کے گہرے فکری اثرات ہیں۔ بہت سے لوگ اسے اخوان کی ذیلی شاخ تصور کرتے ہیں، تاہم یہ درست نہیں۔ حماس کا اپنا الگ سیٹ اپ اور سٹرکچر ہے۔ طویل عرصہ حماس کے سربراہ خالد مشعل رہے۔ تاہم غزہ میں حماس کی حکومت کے سربراہ وزیراعظم اسماعیل ہنیہ ہیں، تاہم دو ہزار سترہ سے اسماعیل ہانیہ یا ہنیہ ہی خالد مشعل کی جگہ حماس کے سربراہ بن گئے۔
حماس دراصل"حرکتہ المقاوتہ الاسلامیہ"کا مخفف ہے۔ حماس نے ابتدا میں خاصا بڑا سماجی نیٹ ورک بنایا، حماس کے سماجی خدمت نیٹ ورک کا نام دعوہ ہے، اس کے تحت تعلیم اور صحت کے ادارے قائم ہوئے۔ تاہم اس کا عسکری ونگ مشہور ہو ا جسے عزالدین القسام بریگیڈ کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ شہید عزالدین القسام دراصل ایک لیجنڈری عرب سکالر اور مجاہد تھے جنہوں نے بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے میں برطانوی اور فرانسیسی سامراج کے خلاف جدوجہد کی۔
حماس اور غزہ، غزہ کی پٹی یا غزہ سٹرپ (قطاع غزہ)بحیرہ روم کے کنارے پر واقع ہے۔ اس کے ایک طرف مصر اور باقی سائیڈز اسرائیل نے گھیری ہوئی ہیں۔ اسرائیل اور مصر کے علاوہ کسی عرب ملک کا غزہ سے کوئی زمینی راستہ یا تعلق نہیں ہے۔ غزہ تک پہنچنے کا دوسرا طریقہ سمندر ہے جسے اسرائیل نے طویل عرصے سے اپنی نیوی (بحریہ)کے ذریعے حصار میں لیا ہوا ہے۔
دراصل دو علاقے ایسے ہیں جہاں فلسطینی کلسٹر موجود ہیں اور انہیں کسی حد تک خودمختاری حاصل ہے، انہیں فلسطینی اتھارٹی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ویسٹ بینک (مغربی کنارہ) اور دوسرا غزہ ہے۔ یہ دونوں آپس میں ملے ہوئے نہیں ہیں اور درمیان میں اسرائیلی مقبوضہ علاقہ اور فورسز وغیرہ موجود ہیں۔ یہ برائے نام خود مختار علاقے بھی اوسلو امن معاہدے کے نتیجے میں حاصل ہوئے، جو یاسر عرفات اور اسرائیلی حکومت کے درمیان نوے کے عشرے کے اوائل میں ہوا تھا، اگرچہ اس پر بھی مکمل عملدرآمد نہیں ہو پایا۔
فلسطینی اتھارٹی کے ان علاقوں (غزہ اورمغربی کنارے) میں انتخابات کے ذریعے حکومت کا تعین کیا جاتا تھا۔ یاسر عرفات کے قریبی ساتھی اور مشہور فلسطینی لیڈر محمود عباس(ابومازن)فلسطینی اتھارٹی کے صدر منتخب ہوتے رہے، پی ایل او دونوں جگہوں پر جیت جاتی تھی، تاہم محمود عباس اور ان کے ساتھیوں پر بیڈ گورننس، کرپشن، نااہلی وغیرہ کے عوامی الزامات بھی لگائے جاتے رہے۔ 2006 کے انتخابات میں ایک بڑا اپ سیٹ ہوا اور حماس نے غزہ میں الیکشن جیت کر وہاں سے پی ایل اوPLOکا صفایا کر دیا۔ مغربی کنارے میں البتہ پی ایل او جیت گئی۔ تب سے غزہ میں حماس کی حکومت چلی آ رہی ہے جبکہ مغربی کنارے میں پی ایل او حکمران ہے۔
عالمی سطح، خاص کر مغربی دنیا میں البتہ مغربی کنارے کی پی ایل او حکومت کو فلسطینی اتھارٹی کی آفیشل نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ حماس کو مغربی دنیا نے تسلیم نہیں کیا، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حماس کے منشور میں اسرائیل کی غاصبانہ ریاست کا خاتمہ کرنا شامل ہے۔ غزہ میں جب سے حماس کی حکومت قائم ہوئی، تب سے اسرائیل نے زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے اس کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ غزہ میں ہمیشہ اشیا ئے ضرورت کی قلت رہی اور اکثر وہاں شدید اقتصادی بحران چلتا رہا۔ اس وقت غزہ کی باقاعدہ حمایت یا مالی اعانت ایران اور اس کے حامی گروپوں (حزب اللہ وغیرہ)کی جانب سے کی جاتی ہے۔ شام نے بھی(عرب سپرنگ سے پہلے)طویل عرصہ حماس کے لیڈروں کو اپنے ہاں پناہ دی۔
عرب اسرائیل جنگیں فلسطین کا مسئلہ بہت پرانا ہے، پون صدی سے بھی زیادہ عرصہ۔ فلسطین ایشو پر عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین چار جنگیں ہوچکی ہیں، پہلی 1948میں ہوئی، جس میں عربوں کو شکست ہوئی اور اسرائیل بیشتر فلسطینی علاقوں پر قابض ہونے کے بعد ایک الگ ملک کے طور پر سامنے آیا۔ دوسری عرب اسرائیل جنگ نہر سویز کے تنازع پر ہوئی جب مصری صدر جمال ناصر نے نہر سویز کو قومیانے کا اعلان کر دیا۔ وہ بحران بڑا شدید ہوگیا تھا اور برطانیہ، فرانس کھل کر مصر کے خلاف جنگ پر اترآئے، طوالت کے پیش نظر ہم تفصیل میں نہیں جا رہے۔
تیسری عرب اسرائیل جنگ 1967 میں ہوئی۔ دراصل فلسطین کا ایشو ہر عرب حکمران کو اندر سے تکلیف دیتا رہا اور عرب ممالک میں اپنے اندر ناسور کے طرح پلتے اسرائیل کو ختم کرنے کی خواہش پنپتی رہی۔ 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو غیر معمولی برتری رہی اور جنگ کے اختتام پر مصر کا صحرائے سینا کا علاقہ اور شام کی گولان کی پہاڑیاں اور اردن کا کچھ علاقہ اسرائیل کے قبضے میں آگیا۔ دراصل اسرائیلی فضائیہ نے شدید حملہ کرکے باقاعدہ جنگ سے پہلے ہی مصری فضائیہ اور ائیرپورٹس کو تہس نہس کر دیا تھا جس کے بعد جنگ میں اسے فیصلہ کن برتری حاصل ہوگئی۔
1973کی جنگ جسے جنگ رمضان یا جنگ کپور بھی کہا جاتا ہے، یہ کئی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ تب رمضان کا مہینہ تھا، اسرائیلی اپنے مقدس دن یوم کِپورمنارہے تھے، تب مصر اور شام کی زیرقیادت عرب اتحاد نے اسرائیل پر دو تین اطراف سے شدید حملہ کر دیا۔ مصری، شامی، اردنی افواج کے ساتھ انہیں دیگر عرب ممالک کی بھی بھرپور سپورٹ حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ تب وزیراعظم بھٹو نے پاکستانی پائلٹس بھی مدد کے لئے بھیجئے تھے، اسرائیل نے اس جسارت کو کبھی معاف نہیں کیا۔
جنگ کِپورکی ابتدا میں مصری اور شامی افواج کوکامیابی ملی اور اسرائیلی فوجیں پسپا ہوئیں، تاہم بعد میں امریکی اعلیٰ جنگی ہتھیاروں وغیرہ کی مدد سے اسرائیل نے کم بیک کیا اور وہ جنگ آخر کار جیت لی۔ یہ وہ آخری فیصلہ کن جنگ تھی جس کے بعد عرب ممالک نے محسوس کیا کہ وہ اسرائیل کو عسکری میدان میں نہیں ہرا سکتے۔ مصری صدر سادات نے یہ بات کھل کر کہی کہ ہم اسرائیل سے لڑ سکتے ہیں مگر سپر پاور امریکہ سے نہیں لڑ سکتے۔ یہی سوچ بعد میں 1978ء میں امریکی سرپرستی میں کئے گئے کیمپ ڈیوڈ معاہدے تک لے گئی، جس کے بعد مصر نے باقاعدہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ ایسا کرنے پر بعد میں ایک شدت پسند مصری گروپ کے زیراثر ایک مصری فوجی نے پریڈ کے دوران صدر سادات کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ حماس کاحالیہ حملہ جنگ کِپور کی پچاسویں سالگرہ کے دن کیا گیا۔
غزہ اور حماس اسرائیل جھڑپیں غزہ پر حماس کے قبضے اور وہاں حکومت قائم کرنے کے بعد اسرائیل اور حماس کے جنگجوئوں کے مابین کئی بار جھڑپیں اور جنگیں ہوچکی ہیں۔ اسرائیل نے ہمیشہ غزہ کی ناکہ بندی کئے رکھی اور اس کے دبائو میں مصر نے بھی ایسا ہی کیا۔ حماس والوں نے ٹوٹے پھوٹے راکٹ بنائے اور وہ کبھی کبھار اسرائیل پر فائر کر دیتے، جواب میں اسرائیلی بمبار طیارے بمباری کرکے سینکڑوں فلسطینی شہید کر دیتے۔
پچھلے پندرہ بیس برسوں میں ہزارہا فلسطینی ایسی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ جب مصر پر اخوانی صدر ڈاکٹر مرسی حکمران تھے، تب کچھ عرصہ کے لئے ناکہ بندی نرم ہوئی اور مصر نے غزہ سے ملنے والی رفاہ کراسنگ کھول دی تھی، مگر ریلیف کا یہ سانس قلیل مدت کے لئے تھا۔ حماس کا حالیہ حملہ البتہ غیر متوقع اور نہایت منظم ہونے کے ساتھ ایسی شدت اور قوت والا تھا کہ نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی سطح پر ہر کوئی حیران وپریشان ہے کہ یہ کیسے ہوا؟ اس پر ہم ان شااللہ اگلی نشست میں بات کرتے ہیں۔