جو بات میں کہنا چاہتا ہوں، اس کا ذکرکالم کے تیسرے حصے میں ہے، مگر پہلے دو پیرے بھی ضروری ہیں۔ وہ بات نہ صرف امید میں لپٹی بلکہ آگے بڑھنے کا نیا راستہ بھی کھولنے والی ہے۔ اس لئے پہلے دوپیروں سے گزر کر اس تک ضرور پہنچیں۔
دو نکات بڑے واضح اور صاف ہیں۔ ان سے انکار کرنا مشکل ہوگا۔ پہلا یہ کہ زندگی مشکل ہوگئی ہے۔ مہنگائی کی ایسی لہر آئی کہ ہر کوئی پریشان ہے۔ نچلا طبقہ تو خیر بری طرح پس گیا ہے، مڈل کلاس بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔ لوئر مڈل کلاس پر ایسا برا وقت کم ہی دیکھنے کو ملا۔ سفید پوش لوگ کسی سے مانگ بھی نہیں سکتے، ان کے لئے مگر اپنا بھرم پورا کرنا بہت دشوار ہوچکا ہے۔ نسبتا خوشحال یا اپر کلاس کے خرچے چونکہ زیادہ ہیں، اس لئے معاشی بحران کی وجہ سے ان کے لئے بھی خاصی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ اپنے روزمرہ اخراجات پورے کرنا بھی اب آسان نہیں رہا۔
دوسرا یہ کہ عوام کے اندر ایسی شدید مایوسی، دل شکستگی اور تلخی کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ جس کسی سے بات ہو وہ فرسٹریٹ اور مایوس ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ ایسے مایوس ہوں گے، کبھی سوچا نہیں تھا۔ اس کی وجہ صرف سیاسی نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف تحریک انصاف والے ہی پریشان، ناراض اور شاکی ہیں بلکہ ہر حساس، درد دل رکھنے والا باشعور پاکستان متفکرہے۔
بے پناہ مہنگائی اور بہت زیادہ خراب معاشی حالات کے ساتھ جس فیکٹر نے پریشانی اور ناا میدی بڑھا دی ہے، وہ کسی حل کی عدم موجودگی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہونے والے تفصیلی مباحث سے ہر ایک کو اندازہ ہوگیا ہے کہ آئی پی پیز سے جو معاہدے ہوئے، وہ ابھی طویل عرصہ چلیں گے اور بظاہر کوئی امکان نہیں کہ کیپسیٹی چارجز کم ہوسکیں یا کہیں اور سے بجلی کے نرخوں میں کمی کی صورت نکلے۔
لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگربجلی کا یونٹ سستا ہوگیا تب بھی جو چیزیں مہنگی ہوچکی ہیں، وہ اب کبھی سستی نہیں ہوں گی۔ مثال کے طور پر دودھ، دہی کے نرخ جس قدر بڑھے ہیں، ان میں دس روپے کی کمی بھی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اب اندازہ ہوچکا کہ گوشت شائد ملک میں کبھی پہلے جیسا سستا نہیں ہوسکے گا۔ دالیں جو کبھی غریبوں کے لئے سستے ہونے کی وجہ سے نعمت سمجھی جاتی تھیں، اب وہ مرغی کے گوشت جتنی ہی مہنگی ہوگئی ہیں اور دور دور تک کوئی امید نہیں کہ یہ کبھی سستی ہوں گی۔ یہ ناامیدی دراصل لوگوں میں ڈپریشن اور قنوطیت پیدا کر رہی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اس طرح معاملات چل سکتے نہیں، مگر یہ بھی پتہ ہے کہ ایسے ہی سب کچھ چلتا رہے گا۔
یہ دونوں باتیں اپنی جگہ، مگر میرا خیال ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے کا بھی یہی وقت ہے۔ مایوسی، ڈپریشن اپنی جگہ مگر پچھلے ڈیڈھ برسوں میں عوام کے ایک بہت بڑے حصے کے لئے اپنی زندگی کا پہیہ چلانا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں یہ اب لازمی ہوگیا ہے کہ جس کسی کے پاس تھوڑے سے بھی وسائل ہیں، وہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھے اور اس کی مشکل کم کرنے کی کوشش کرے۔
اس حوالے سے اب تخلیقی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مشکلات ہیں، مگر آج بھی ایسے بہت سے ہیں جن کے اخراجات تھوڑی بہت کتربیونت کے بعد مینیج ہو رہے ہیں یعنی جب وہ اپنے اخراجات کی فہرست پر نظرثانی کرتے ہیں تو چند ایک چیزیں با آسانی نکالی جا سکتی ہیں۔ اپنی ماہانہ گروسری لسٹ میں سے کوشش کرکے چار پانچ ہزار کی بچت کی جا سکتی ہے۔
اگر ہم کوشش کریں تواپنے اخراجات کم کرکے، اپنے پیر چادر کے اندر کرکے اور چادر تھوڑی چھوٹی کرکے کچھ نہ کچھ رقم الگ کی جا سکتی ہے۔ اس سے ان کی مدد کریں جو آپ کے قریب ہیں، مگر ان کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ آئیڈیا لاہور کی ایک نیک دل خاتون نے فیس بک پر ان باکس میسج کے ذریعے دیا۔
مسز رضوان نامی خاتون کا کہنا ہے کہ پچھلے تین ماہ سے وہ اپنی ماہانہ خریداری (گروسری اور دیگر شاپنگ وغیرہ)کی فہرست پر سختی سے نظرثانی کرکے کچھ نہ کچھ رقم بچا لیتی ہیں۔ جن چیزوں کے بغیر گزارا ہوسکتا ہے، انہیں لینا چھوڑ دیا ہے۔ خاتون نے مثال دی کہ پہلے میں اپنے بچوں کے لئے ایک معروف کمپنی کے نگٹس اور چکن پیٹیز لے لیا کرتی تھی، چیز سلائس بھی لے لیتی تاکہ بچوں کو برگر بنا کر سکول لنچ میں دے سکوں۔ اب گھر میں نگٹس اورکباب بنا لیتی ہوں، چیز(پنیر)کے سلائس نہیں لیتی، جبکہ کئی اور امپورٹڈ چیزیں بھی کٹ کر دی ہیں۔ نوٹیلا چاکلیٹ وغیرہ کے بجائے بچو ں کو شکروالے پراٹھے سے متعارف کرایا ہے، پراٹھے پر تھوڑا دیسی گھی اور ایک چمچ دیسی شکر ڈالنے سے بھی کام چل رہا ہے۔ اسی طرح کے کئی اور کٹ لگائے ہیں۔ جو پیسے بچے، ان سے اپنی ملازمہ کو بیس کلو آٹے کا ایک تھیلا اور پانچ لٹر کوکنگ آئل لے دئیے۔ ایک اور جاننے والے سفید پوش گھرانے میں کسی بہانے سے کچھ راشن بھجوا دیا۔
ان خاتون نے تجویز دی ہے کہ ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اپنے ماہانہ اخراجات سے دو تین، چار یا پانچ ہزار روپے بچا سکتے ہیں۔ ان پیسوں سے اگر وہ اپنے قریبی جاننے والے سفید پوش گھرانوں میں اگر صرف راشن ہی ڈلوا دیں، کسی ایسے طریقے سے کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ اگر گھر میں آٹا ہو، گھی ہو تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
مسز رضوان کی ایک تجویز یہ ہے کہ آلو اور پیاز آج کل اسی یا نوے روپے کلو مل رہے ہیں، لیکن اگر سبزی منڈی یا ماڈل بازار وغیرہ سے لیں توتھوڑے سستے مل جائیں گے۔ ان کے خیال میں اپنے جاننے والے سفید پوش گھرانوں یا ملازمہ، مالی، درزی، بنکوں اور دکانوں کے باہر معمولی رقم پر کام کرنے والے گارڈز وغیرہ کو اگر پانچ پانچ کلو پیاز، آلو اور تھوڑا لہسن، ادرک وغیرہ ہی بھجوا دیں تو ان کی اچھی خاصی مدد ہوجائے گی۔ گھر میں آلو رکھے ہوں تو آرام سے اچھی خاصی فیملی کا کھانا بن جاتا ہے۔
ہمارے ایک دوست خاصے عرصے سے دو چار گھرانوں میں ہر ایک دو ماہ کے بعد دس کلو چاول کا تھیلا بھجوا دیتے ہیں یانئی فصل آنے پر اپنے سفید پوش عزیز واقارب کے ہاں چاول کا ایک توڑا (چالیس یا پچاس کلو) بطور تحفہ بھجوا دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر گھر میں چاول ہی ہوں تو اچھی خاصی بڑی فیملی کے لئے بھی آسانی سے کام چل سکتا ہے۔ دال چاول یا سادہ تڑکے والے چاول ہی بن جائیں۔ اسی طرح ان کی ایک اور عادت ہے کہ اپنے قریبی رشتے داروں کے گھر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ہر سال جب امتحانات کے بعد نئی کلاسز شروع ہوں تو یہ بہت سی کاپیاں، پینسلیں، پین وغیرہ خریدلیتے ہیں اور رشتے داروں کے بچوں کو بطور انعام تحائف دے دیتے ہیں۔ یہ خیال ذہن میں ہوتا ہے کہ سٹیشنری بھی سینکڑوں روپے کی آتی ہے، ان کے والدین کی کچھ مدد ہوجائے گی۔
یہ درست کہ معاشی مسائل بہت زیادہ ہوچکے ہیں، لوگوں میں مایوسی اور ناامیدی جھلک اور چھلک رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔ سسٹم کی بہتری کے لئے ہم ضرور بات کریں، اپنا ووٹ بھی اپنی دانست میں بہترین لوگوں کو ڈالیں، مزید پرامن جمہوری جدوجہد بھی کر سکتے ہیں تو ضرور کریں۔ سب سے اہم کام مگر انسانوں کو بچانا ہے اور اس شدید مشکل وقت میں لوگوں کی بھوک مٹانا اور ان کے سروائیول کو یقینی بنانا ہے۔ ہمیں اپنے حصے کا یہ کام کرنا چاہیے۔
اگر ہم تھوڑی کوشش سے اپنے اخراجات میں معمولی سا کٹ بھی لگا لیں تو ان دو تین چار ہزار سے بھی کسی نہ کسی گھرانے کی مدد ہوسکے گی۔ اس رقم کو حقیر نہ سمجھیں۔ اس چڑیا کو تصور میں لے آئیں جو حکایات کے مطابق اپنی چونچ میں چند قطرے بھر کر سیدنا ابراہیمؑ کے لئے بھڑکائی آگ بجھانے آئی تھی اور اس کا یہ کام قادر مطلق کو بہت پسند آیا۔ یہ مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا وقت نہیں بلکہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے کا وقت ہے۔