Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Haqeeqi Tasawuf Aur Faqeer Logon Ki Baatein (2)

Haqeeqi Tasawuf Aur Faqeer Logon Ki Baatein (2)

تصوف اور اس کی مختلف جہتوں اور اصطلاحات کے حوالے سے صاحب عرفان روحانی سکالر جناب سرفراز اے شاہ صاحب سے گفتگو کی تفصیل اپنے کل کے کالم میں شیئر کی۔ سرفراز شاہ صاحب تصوف کو بڑے آسان اور عام فہم انداز میں پیش کرتے ہیں اور اس کا حقیقی جوہر سامنے لاتے ہیں۔ شاہ صاحب کے نزدیک تصوف بنیادی طور پرفرد کی تربیت کے لئے ہے اور اس کا مقصد شریعت کی راہ پر چلانے کے لئے تیار کرنا، اس کی کیپیسٹی بلڈنگ کرنا ہے۔ جس شخص کو اس تربیت کی ضرورت نہیں تو ٹھیک ہے، اٹس اوکے۔ البتہ جو کمزور ہے، جسے اخلاقی تذکیہ اور تربیت کی ضرورت ہے، تصوف ان کے لئے ہے۔ شاہ صاحب وظائف کے مخالف نہیں ہیں، مگر ان کے خیال میں آپ ﷺ کی سیرت ہمیں یہ بتاتی اور سکھاتی ہے کہ عمل کو ترجیح بنانا چاہیے، اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہو کر دعائیں مانگنی چاہیے، جیسا ہمارے آقا سرور کائناتﷺ نے غزوہ بدر کے موقعہ پر عمل کرکے دکھایا۔

اب ان سے کی گئی نشست میں گفتگو کی کچھ مزید تفصیل ملاحظہ کیجئے: سرفراز اے شاہ کہتے ہیں: " مجھ سے اکثر یہ بات پوچھی جاتی ہے کہ ٹی وی شوز پرلوگوں کے سوالات کے جواب میں تسبیحات اور وظائف بتائے جاتے ہیں، اس سے نیا ٹرینڈقائم نہیں ہورہا؟ میرے نزدیک اس کی ایک خاص افادیت تو ہے۔ اللہ کا کلام ہے، اس میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کے اثرات انسانی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ البتہ اس حوالے سے ایک سوال اٹھتا ہے کہ جب رب تعالی ہمیں عروج کی طرف لے جا رہا تھا، اس وقت کیا ہمارا تکیہ وظائف پر تھا؟ کیا ہم نے اللہ کی مدد اور اپنی جدوجہد پر تکیہ کیا تھا؟ یہ جو طریقہ ہم نے پکڑا ہے کہ ہردنیاوی کام کے لیے وظائف پڑھے جائیں، کیا یہ ہم بے عملی کی راہ نہیں ا ختیار کر رہے؟ کیا ہم اپنی نئی نسل کو محنت اور جدو جہد سے دور نہیں لے جا رہے؟ اس کو روکا جانا چاہئیے۔

"لوگوں کو تعلیم دی جانی چاہئیے کہ اللہ پسند کرتا ہے ان لوگوں کو جو مجاہدوں کی طرح کمر کس کے رکھتے ہیں۔ ہر وقت عمل کے لیے تیار رہتے ہیں۔ رب تعالی نے قرآن میں واضح طور پر ایک چیز کا فیصلہ کر دیا کہ انسان کو وہ ہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ تو ہم یہ تو ضرور کریں کہ کسی بھی کام کی ابتدا کرنے سے پہلے ہم اللہ سے یہ دعا کریں کہ اے پروردگار میں بہت ناتواں انسان ہوں اور میرا علم میری عقل اور میری جدو جہد سب محدود ہیں، میں ایک کام کی ابتدا کر رہا ہوں تیرے نام سے اور تجھ سے مدد کی دعا کرتا ہوں تو مجھے یہ توفیق بخش دینا کہ یہ پورا ہو۔ جب ہم بھرپور محنت کر لیں تو اینڈ پر جا کہ ہم پھر دعا کریں کہ اے اللہ تو نے مجھے جو ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں بخشیں، میں نے ان سے اپنے تئیں بھرپور کام لیا اور اپنی طرف سے ناقص کوشش کی تو میری کوشش کو قبول فرما اور مجھے اس کا بہترین نتیجہ عطا فرما۔

"یہ خالصتا مسلمان کا رویہ ہے، نا کہ یہ کیا جائے مجھے اگر شرٹ کے بٹن بند کرنے ہیں تو میں پہلے آدھے گھنٹے کا وظیفہ پڑھوں کہ میرے شرٹ کے بٹن آسانی سے بند ہو جائیں۔ یا مجھے گاڑی سٹارٹ کرنی ہے تو میں کار میں بیٹھ کر وظیفہ پڑھوں کہ گاڑی سٹارٹ ہوجائے تو یہ بے عملی کی راہ ہے۔ مسلمان تسبیحات کرتا ہے، ذکر اذکار کرتا ہے بہت اچھا ہے کرنا چاہیئے لیکن اس کے پیچھے نیت صرف ایک ہو کہ میں اپنے رب کو یاد کر رہا ہوں۔ کوئی کمرشل ڈیل نہ کی جائے رب تعالی کے ساتھ کہ میں پڑھوں گا تو میرا یہ کام کر دینا۔ ہم اپنے رب کو پکاریں ہم اپنے رب کو یاد کریں، اس کا شکر ادا کریں جو وہ اپنی رحمتیں اور نعمتیں نازل فرما رہا ہے۔ صرف اللہ کو پکارنے کے لیے توتسبیحات کی جائیں، اللہ کو یاد کرنے کے لیے تو تسبیحات کی جائیں، کمرشل ٹرانزیکشن نہ بنایا جائے۔

"بعض اوقات آدمی مشکلات میں گھر جاتا ہے، تب وہ وظائف کی طرف جاتا ہے۔ اس کا بڑا آسان حل ہے کہ جب آدمی خدا نخواستہ مصائب میں آگیا تو قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کرے۔ دوسری بات حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مسلمانوں کو سکھائی۔ فرمایا مصیبت کا مقابلہ صدقہ و خیرات سے کرو۔ تو ہم مصیبت کا مقابلہ رب کو پکارنے، مدد مانگنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے کر سکتے ہیں۔ خود آنحضور نے مختلف مواقع پرتسبیحات تعلیم فرمائی ہیں، وہ کرنی چاہئیں، مگر بے عملی سے بچنا چاہیے۔ اگر ہم رب تعالی کی شکر گزاری کا اظہار اسکے بندوں کے ساتھ نیک سلوک کرکے کریں کہ یہ میرے اس رب کے بندے ہیں جس کا میں بندہ ہوں اور جو اتنا مہربان ہے کہ میری تمام تر نالائقیوں کے باوجود میرے اوپر عنایات کرتا ہے۔ تو میں اسکی شکر گزاری کے طور پر احسان مندی کے لیے اس کے دوسرے بندوں کا خیال کر لوں۔ اپنی کمائی میں سے دوسروں کو حصے دار بنا لیں، تب رب تعالیٰ مشکلات بھی کم کر دے گا، اپنی رحمت سے آسانیاں عطا فرمائے گا"۔

سرفراز شاہ صاحب سے میں نے سوال کیا کہ دنیاوی مقاصد کے لئے جدوجہد کرنا غلط ہے کیا؟ کیا یہ قناعت اور توکل کے خلاف ہوگا؟ سرفراز شاہ صاحب کا کہنا تھا: نہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہم قناعت کو، توکل کو سمجھ نہیں پاتے وہ ہے کیا۔ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جانے کو ہم توکل کا نام دے دیتے ہیں۔ ہم لیٹے ہیں کہ نوالہ خود بخود آکر ہمارے منہ میں پڑ جاے گا۔ اس کو ہم نے قناعت کا نام دے دیا۔ ہم اگر پوری قوت سے کام کریں۔ محنت کریں کمائیں۔ لیکن اس پروسیس سے حرص نکال دیں، مائینس کر دیں تو یہ قناعت ہوجائے گی۔ ہم محنت سے پوری قوت سے کام کریں، حلال کمانے کی کوشش کریں۔ جو ہماری ضرورت سے فالتو بچ رہے ہم اس سے اللہ کے بندوں کی خدمت کریں۔ دنیاوی چیزوں کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے۔ اگر آپ اپنی ضرورت سے زیادہ نہیں کماتے تو آپ اپنے عزیز رشتے دار بہن بھا ئی پڑوسی کی خدمت کیسے کر پائیں گے؟ آپ کی تو اپنی روٹی پوری نہیں ہے تو کسی دوسرے کی کیا مدد کریں گے۔ یہ تصوف کی اوریجنل ڈیفینیشن ہے۔

"رہی بات یہ کہ تصوف میں کشف وکرامات کا تذکرہ اس قدرزیادہ کیوں ہے تو یہ دراصل غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے۔ حقیقی صوفی کبھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ آپ کشف المحجوب اٹھا کر دیکھ لیں، کہاں ہے کہ داتا صاحب نے ترغیب دی کسی کو کہ وہ کشف و کرامات کے لیے کوشش کرے۔ داتا صاحب کا ایک قول جو کشف المحجوب میں ہے کہ فقیر پر لازم ہے کہ وہ دوسرے کی خدمت کرے، اس طرح سے کرے کہ خدمت لینے والا یہ سمجھے کہ فقیر سے میں نے یہ خدمت لے کر اس پر احسان کیا ہے۔ اب یہ عاجزی کا سبق ہے، اعلی ظرفی کا سبق ہے، انسانیت کا سبق ہے۔ پرابلم ہمارے ہاں یہ آ رہا ہے کہ ہمارے ہاں دو ٹائپ کے لوگ ہیں۔ ہم دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک حصہ ہمارا وہ ہے جو الفاظ کو ان کی فیس ویلیو پر لیتا ہے، ظاہری معنوں میں لیتا ہے۔ وہ بھی مس انڈرسٹینڈ کر رہا ہے کنفیوژن پیدا کر رہا ہے۔ ایک حصہ ہمارا وہ ہے جو بہت ہی زیادہ گہرائی میں اتر جاتا ہے۔ اتنی گہرائی میں کہ الفاظ کی روح ختم ہوجاتی ہے۔ ان دونوں میں انتہاہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ بات کی اصل روح تک پہنچا جائے۔ الفاظ پر نہ جایا جائے۔ یہاں اگر کہیں کچھ لوگوں نے حالت جذب میں ایسی باتیں کہ دیں تو اس کو ہم نے سند بنا لیا۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ اکثریت کیا کہتی ہے۔ ہم اقلیت کے پیچھے کیوں جائیں۔

"یہ بھی یاد رکھیں کہ جو انسان اپنے آپ کو بڑا کہے وہ بڑا نہیں ہوتا۔ جو صیح معنوں میں ولی اللہ ہے وہ اپنے بارے میں ایسا نہیں کہتا۔ لوگ تو اس کے بارے میں کہتے ہیں۔ فقیر کے پاس جا کے بیٹھیے آپ، نصیحت کی ایک بھی بات نہیں کرے گا آپ کو۔ جنرل بات کرے گا آپ کے ساتھ لیکن اپنے کردار سے آپ کو اتنا متاثر کر دے گا کہ آپ مجبور ہوجائیں گے اس کی نقل کرنے پہ۔ اس کی جو پرسنل ایگزایمپل (ذاتی مثال) آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوگا وہ کیا ہوگی؟" آنے والے کی خدمت کرنا، خود بھوکے رہ کر دوسرے کو کھانا کھلا دینا، خود روکھی سوکھی کھانی، اگلے کو بہترین کھانا کھلانا۔ خود پھٹا ہوا کپڑا پہننا دوسرے کو نیا کپڑا پہنانا۔ مہمان کے جوتے اپنی قمیص کے گھیرے سے صاف کرکے رکھ دینا۔ جھوٹ نہیں بولے گا، خیانت نہیں کرے گا۔ آپ کو دھوکا نہیں دے گا آپ کے ساتھ وفاداری نبھائے گا۔ " یہ ہے حقیقی صوفی۔ (جاری ہے)

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran