مجھے سپورٹس سے دلچسپی رہی ہے۔ کرکٹ تو ایک طرح سے اب پاکستانیوں کا قومی کھیل بن چکا ہے، اس سے تو محبت کی حد تک دلچسپی ہے، ہمارے اصلی والے قومی کھیل یعنی ہاکی، فٹ بال، کسی حد تک ٹینس اور پھر باکسنگ میرے آل ٹائم فیورٹ رہے ہیں۔ باکسنگ کے مقابلے آج بھی کبھی کبھار دیکھ لیتا ہوں، مگر سچی بات ہے کہ اصل فائٹس وہی تھیں جو اب یوٹیوب پر تو مل جاتی ہیں، حقیقی زندگی میں وہ باکسر ہی چلے گئے۔ محمد علی میرے آل ٹائم فیورٹ باکسر رہے۔ ان کی شہرہ آفاق فائٹس جب ہوئیں، تب توشائد نرسری، ون کلاس میں ہوگا، مگر بعد میں انہیں ایک سے زیادہ بار دیکھا۔ محمد علی پر بنی فلم بھی دیکھی اور ان پر لکھی گئی ایک سے زائد کتابیں بھی پڑھیں۔ آج کل ہم ہر کسی کو چند ایک فتوحات کے بعد عظیم کھلاڑی یا چیمپین یا کنگ کہہ دیتے ہیں۔ یہ معمولی الفاظ نہیں، انہیں احتیاط سے برتنا چاہیے۔ ہم نے اپنی زندگی میں جو عظیم کھلاڑی دیکھا، جس پر کنگ، چیمپین جیسے الفاظ سجتے تھے، وہ صرف باکسر محمد علی کی شخصیت ہے۔
محمد علی میرے لئے باکسنگ کے آخری چیمپئن تھے۔ واحد شخص جنہیں باکسنگ نہ دیکھنے والا بھی چیمپئن کہہ کر پکارتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ علی ہی ایک ایسے شخص تھے، جس پریہ نام اچھا لگتا تھا۔ علی کی ریٹائرمنٹ کے بعد باکسنگ میں کئی معروف باکسر آے، بعض نے مختلف حوالوں سے شہرت بھی کمائی۔ مائیک ٹائی سن نے اپنی وحشیانہ قوت کی وجہ سے بہت سوں کو حیران کیا، مگر قوت کے ساتھ جو خوبصورتی، تکنیک، پھرتی اور ان سب سے بڑھ کر جو سحر محمد علی کی شخصیت میں تھا، وہ ٹائسن سمیت دوسروں میں مفقود تھا۔ محمد علی میری نسل اور مجھ سے پہلی والی نسل کی خوشگوار، مہکتی یادوں کا حصہ تھے۔ ان کے بعض بہت مشہور اور یادگار مقابلے جیسے فائیٹ آف دی سنچری(جوفریزئیر سے مقابلہ)، تھرلاان منیلا(جو فریزئیر سے تیسری اور سب سے خوفناک فائیٹ)، دی رَمبل ان دی جنگل (جارج فورمین سے یاد گار فائیٹ)وغیرہ ستر کے عشرے کے وسط تک ہوچکی تھیں۔ علی کی لیری ہومز کے ساتھ آخری لڑائی افسوسناک رہی، جب چیمپین نے اپنے کیرئر کی سب سے بری لڑائی لڑی۔ محمد علی کی زندگی میں مگر کئی ایسی شاندار فائٹس تھیں، جو بعد میں دیکھنے کا موقعہ ملا اورپھر دیر تک ان کے ٹرانس سے نہیں نکل سکا۔
پاکستان میں سپورٹس چینلز شروع ہوئے تو علی کی کئی فائٹس بار بار دکھائی جاتی رہیں۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے والی نسلوں کے لئے تو علی طے شدہ، غیر متنازع ہیرو تھا۔ بطور مسلمان علی کی مقابلوں میں جیت کودنیا بھر کے مسلمان اپنی کامیابی سمجھتے۔ محمد علی کا اسلام قبول کرنا اور پھر ایک بنیاد پرست مسلمان کے طور پر زندگی گزارنا، اپنے آپ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ جوڑے رکھنا، مغرب میں اسلامی مخالف پروپیگنڈہ کے خلاف ایک ٹھوس چٹان بن کر کھڑا ہوجانا ایسا کام تھا، جو ہمارے جیسے بے شمار لوگوں کوآج بھی مسحور کر دیتا ہے۔
محمد علی مگر صرف مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا نہیں تھا، اس نے وہ کر دکھایا تھا جو اس کے عہد کے بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ میں سیاہ فاموں کے لئے زندگی نہایت مشکل تھی اوربدترین نسلی تعصب کے مظاہر ہر جگہ نظر آتے۔ سفید فاموں کے لئے الگ سکول، الگ پارک، الگ ریستورا ن اور سینماگھر عام تھے۔ لاتعداد ایسے ہوٹل اور ریستوران تھے جن کے دروازے پر لکھا تھا کہ کالے (نیگرو)نہیں آ سکتے۔ محمد علی جو اس وقت کاسیئس کلے تھا، انہی سخت اور کٹھن حالات سے ابھرا اور چھوٹی عمر میں امریکہ کے لئے اولمپکس گولڈ میڈل حاصل کیا۔
اس نوجوان باکسر کاسیئس کلے میں بہت آگے جانے اور خود کو منوانے کے جراثیم تھے۔ اس نے کالوں کے لئے الگ ہوٹلوں کی پابندی ماننے سے انکار کیا۔ مشہور ہے کہ اپنے ایک ایسے ہی تلخ تجربے کے بعد اس نے اولمپک گولڈ میڈل دریا میں پھینک دیا۔ اس نے اپنے شدید غصے اور ڈپریشن کو باہر نکالنے کے لئے پروفیشنل باکسنگ کی راہ اختیار کی اور محض اکیس سال کی عمر میں سونی لسٹن جیسے ممتاز باکسر سے چیمپئن شپ فائٹ جیت کر ہر ایک کو حیران کر دیا۔ سونی سے فائٹ جیتنے اور چیمپئن بننے کے بعد اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنانام کاسئیس کلے سے بدل کر محمد علی کر لیا۔ اپنی بقیہ تمام زندگی علی کا اصرار رہا کہ کوئی اسے کلے کہہ کر نہ پکارے، اب وہ محمد علی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ نادانستگی میں اسے محمد علی کلے کہہ کر پکارتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ محمد علی کو لفظ کلے سے سخت نفرت تھی۔
سونی لسٹن سے فائٹ سے پہلے محمد علی نے ایک ایسا ڈرامائی طریقہ اختیار کیا، جس نے اسے بہت زیادہ شہرت دی اور دنیا بھر میں معروف کیا۔ علی اپنی ہر فائیٹ کی منفرد انداز سے تشہیر کرتا۔ وہ اپنے مخالف پر تند وتیز حملے کرتا، انہیں بے وقعت ثابت کرتا اور پیش گوئی کرتا کہ میں اسے فلاں رائونڈ میں ناک آئوٹ کر دوں گا۔ یہ پیش گوئی علی نظم کی شکل میں کرتا۔ چھوٹی چھوٹی سادہ سی نظمیں جو اس کی بے باکی، جرات اور مخالف پر حملوں کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوگئیں۔ علی نے ان چیلنجزکے ذریعے اپنی سیاہ فام آبادی کو اٹھایا، ان میں جذبہ جگایا اور یہ احساس ڈالا کہ وہ گوروں سے کم تر نہیں، انہیں شکست دے سکتے ہیں۔ علی کا یہ بڑا کریڈٹ ہے کہ اس نے چیمپین بننے، دولت وشہرت کے مہربان ہوجانے کے بعد اشرافیہ کا حصہ بننے کے بجائے ایک عام سیاہ فام سے خود کو جوڑے رکھا۔
محمد علی کا یہ مزاحمتی رویہ اس وقت بہت نمایاں ہوگیا، جب امریکہ نے بلاجواز ویت نام پر حملہ کر دیا۔ ویت نام کے ساتھ جنگ کے لئے امریکہ بھر میں لازمی فوجی بھرتی کا قانون آ گیا اور بے شمار نوجوان فوج میں بھرتی ہو کر ویت نام لڑنے چلے گئے۔ محمد علی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں ویت نامیوں پر ظلم کیوں کروں؟ یہ ناانصافی ہے، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ محمد علی کی زبانی انکار سن کر امریکہ کی طاقتور لابیز مشتعل ہوگئیں۔ علی سے چیمپین کا ٹائٹل چھین لیا گیا، باکسنگ لائسنس منسوخ ہوگیا اورقید کی سزا سنا دی گئی۔ علی کو بتایا گیا کہ فوجی بھرتی کے لئے ہا ں کر دے، اسے ویت نام نہیں بھیجا جائے گا اورامریکہ کے اندر ہی کسی شعبے میں چند ماہ کی سرو س کرکے وہ یہ شرط پوری کر دے۔ محمد علی نے انکار کر دیا اور سب کچھ کھونا قبول کر لیا۔ یہ علی کی زندگی کا ایک اور شاندار پہلو تھا۔
محمد علی کا یہ دور آخر گزر ہی گیا۔ ویت نام جنگ ختم ہوگئی، امریکہ رسوا ہو کر وہاں سے نکلا۔ امریکی عوام کو بھی اندازہ ہوا کہ یہ بلامقصد بیکار جنگ تھی۔ علی کی سزا ختم ہوئی۔ وہ باکسنگ رنگ میں واپس آیا اور اپنی شاندار فائٹس کے ذریعے خود کو منوایا۔ علی کا سٹائل عام باکسروں سے مختلف اور دلکش تھا۔ عام باکسر ہمیشہ اپنا ایک ہاتھ چہرے کو بچانے کے لئے اوپر رکھتے ہیں۔ علی کمال جرات سے دونوں ہاتھ نیچے کر لیتا اور مخالف کو حملہ کرنے پر اکساتا۔ اپنی پھرتی سے وہ بچتا اور پھر موقع ملتے ہی ضربیں لگا کر مقابل کو ناک آئوٹ کر دیتا۔ جارج فورمین جیسے طاقتور باکسر کو اس نے اسی حربے سے زیر کیا۔ کئی سال تک وہ ناقابل شکست رہا، مگر پھر جوفریزئیر سے پہلی لڑائی میں وہ پوائنٹس پر ہار گیا۔ اس فائٹ سے پہلے محمد علی نے اپنے مخصوص بڑبولے انداز میں بہت سے دعوے کئے تھے۔ اس شکست کے بعد کوئی اور ہوتا تو شائد ہمیشہ کے لئے آئوٹ ہوجاتا۔ علی واپس آیا اور فریزیئر کو دوسری فائٹ میں ہرا دیا۔ فورمین کو شکست دے کر وہ دوسری بار چیمپئن بنا۔ کین نارٹن سے فائیٹ میں اس کا جبڑا ٹوٹ گیا۔ کئی ماہ بعد وہ پھر سنسنی خیز جیت کے ذریعے واپس لوٹ آیا۔ لیون سپنکس سے وہ ہارا، مگر پھر اسے ہرا کر کم بیک کرکے تیسری بار چیمپین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ نیچے گرنے اور پھر نئے جذبے اور قوت سے اٹھ کر کھڑے ہونے کا جذبہ ہی محمد علی کو ممتاز بناتا ہے۔
مذہب محمد علی کی زندگی کا بہت اہم حصہ رہا۔ شروع میں وہ عالیجاہ محمد کا پیروکار رہا، جس کے عقائد مشکوک تھے۔ بعد میں اس نے اپنے عقائد کی اصلاح کی اور مین سٹیریم مسلمانوں کا حصہ بن گیا۔ علی پارکنسن کی بیماری کا شکار ہوجانے کے باوجود سماجی کاموں میں حصہ لیتا رہا، مختلف ممالک میں اسلام کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک بار اپنی اس بیماری کے حوالے سے علی نے کہا، 'ہم تمام زندگی خود کو عظیم کہتے ہیں، مگر عظمت صرف رب تعالیٰ کو حاصل ہے، اس کے سوا کسی کو یہ دعویٰ زیب ہے نہ ہی اس کا ایسا مقام ہوسکتا ہے، میری بیماری نے مجھے سمجھا دیا کہ عظمت اور دوام صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ میرے نزدیک محمد علی عزم وہمت کا ایک ایسا استعارہ ہے، جو ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔