اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حوالے سے پچھلے چند دنوں میں جتنی ویڈیوز اور وی لاگز سن رہا ہوں، غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسا شرمناک، گھٹیا رویہ بہت سے وی لاگرز نے اپنایا ہے کہ آدمی کو حیرت ہوتی ہے۔ پیٹ کی خاطر اتنا بے حمیت اور بے حیا ہو اجا سکتا ہے؟
وی لاگ مقبول کرانے کی خاطر صریحاً بے بنیاد خبریں پھیلا رہے ہیں۔ جھوٹ در جھوٹ۔ نرا پروپیگنڈہ۔ بے سروپا خبریں۔ افسوس دیکھنے والوں پر کہ ایسے گھٹیا وی لاگرز کو لاکھوں کے ویوز مل رہے ہیں۔ اتنی کمائی ہوگی تو بہت سے ایسا ہی کریں گے۔
گزشتہ روز کسی نے ایک وی لاگر کی ویڈیوز بھیجیں۔ ایسی فضول ویڈیوز اس نے بنائی ہیں جس کی حد نہیں۔ سر پر سرخ ہیٹ رکھ کر یونیورسٹی کے باہر پہنچ گیا۔ کسی کو پکڑ لیا، دو چار سو دے کر جو مرضی کہلوا لیا۔ بے تکی، غیر منطقی باتیں، مگر لاکھوں کے ویوز مل رہے۔ پتہ چلا کہ چند دن پہلے وہ یہی سب کچھ انڈیا جانے والی مبینہ پاکستانی خاتون سیما کے حوالے سے کر رہا تھا۔ تب بھی اس نے سیما کی نام نہاد سہیلیاں ڈھونڈ لیں اور من گھڑت شرمناک کہانیاں سنا کر اپنے وی لاگ سپرہٹ کر لیے۔ کیا ایسی غیر ذمہ داری کے لئے کوئی قانون، کوئی سزا موجود نہیں؟
سوال یہ ہے کہ ہم صاف نظر آتے جھوٹ کوسچ کیوں مان لیتے ہیں؟ کیاحسن ظن رکھنے کا اسلامی حکم بھول چکے ہیں؟ اس پورے سکینڈل میں چند باتیں صاف اور واضح ہیں۔
1: اسلامیہ یونیورسٹی سیکس سکینڈل کے نام پر جو کچھ سامنے آرہا ہے، وہ صریحاً جھوٹ اور کئی ہزار گنا مبالغہ آمیزی کے سوا کچھ نہیں۔
2: چیف سکیورٹی آفیسر کے موبائل سے ہرگز ہرگز پچپن سو ویڈیوز برآمد نہیں ہوئیں۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔
3: جن تحقیقاتی افسروں نے وہ موبائل دیکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پانچ سات سے زیادہ ویڈیوز نہیں اوروہ بھی پروفیشنل کال گرلز وغیرہ کی۔ باقی کچھ فحش مواد انٹرنیٹ سے ڈائون لوڈ ہے جیسا کہ عیاش طبع افراد مزا لینے کے خاطر کیا کرتے ہیں۔
4: جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر چلتی رہی ہیں، وہ اس یونیورسٹی کی ہیں ہی نہیں۔ رقص کی بعض ویڈیوز چیف سیکورٹی افسر سے منسوب کی گئی ہیں، وہ بھی غلط ہیں۔ شکل قدرے ملتی ہے، مگریہ وہ بندہ نہیں۔
5: چیف سکیورٹی افسر کے مبینہ اعترافی بیان کے حوالے سے بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ وہ بھی غلط ہے۔ ایسا کوئی اعترافی بیان ریکارڈ پر نہیں اور نہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو چل رہی ہے جس میں بعض نام بولے گئے، وہ کسی اور ایشو پر ہے۔ اس میں پروفیسروں کے جو نام دئیے گئے وہ بھی غلط ہیں۔
6: یہ صریحاً غلط ہے کہ یونیورسٹی میں لڑکیاں بلیک میل ہو کر جنسی زیادتی کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ اس کا ابھی تک ایک بھی ثبوت نہیں ملا۔ ایک بھی نہیں۔
7: یہ صریحاً غلط ہے کہ یونیورسٹی ہاسٹلز میں رہنے والی لڑکیاں کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی یا وہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ یہ سو فی صد غلط ہے۔
8: بہاولپور پریس کلب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے گیٹ سے چند قدم دور واقع ہے۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ہم روزانہ رات دس گیارہ بجے تک وہیں ہوتے ہیں، بچیوں کو آتے جاتے دیکھتے ہیں۔ کسی قسم کی غیر اخلاقی حرکت دیکھی اور نہ ہی ایسا ہوا کہ بچیاں غیروں کی گاڑیوں میں آتی جاتی ہیں وغیرہ۔ ایسے الزامات غلط اور شرمناک پروپیگنڈہ ہے۔
یونیورسٹی کی پچیس چھبیس ہزار بچیوں کو اس قسم کے فضول اور بے بنیاد وی لاگز سے جتنی تکلیف، کوفت اور پریشانی اٹھانا پڑی ہوگی، اس کا اندازہ ہر صاحب دل اور ہر وہ شخص کر سکتا ہے جس کے اپنے گھربچیاں ہوں۔
بہاولپور کے طاقتورمقامی سیاستدان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کے صاحبزادے کی ملزموں سے دوستی تھی اور اسی غصے پر ان صاحب نے پولیس پر دبائو ڈال کر یہ ایکشن کرایا۔ ایسے الزامات کی جے آئی ٹی ہی چھان بین کرکے رپورٹ دے سکتی ہے۔ اس پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ کسی صحافی یا دوسرے شخص کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت یا ویڈیوز وغیرہ موجود نہیں۔ جو باتیں ہیں، وہ سب ہوائی ہی ہیں۔ اس سیاستدان نے دو دن پہلے پریس کانفرنس کی اور اس میں کھل کر کہا کہ جن اینکرز/وی لاگرز نے یہ الزام لگایا ہے، میں انہیں نوٹس دوں گا اور ان کا تعاقب کروں گا۔ انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔
ہم نے صحافت میں یہی سیکھا کہ بغیر ٹھوس ثبوت کسی پر الزام نہیں لگانا چاہیے اور وہ بات کبھی نہ کی جائے جو آپ عدالت میں ثابت نہ کر سکیں۔ افسوس کہ آج کل اس اصول کے پرخچے اڑا دئیے جاتے ہیں۔ کاش پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین سخت ہوتے اور ان کے تحت فوری سزائیں مل سکتیں تو کوئی بھی اینکر، وی لاگر، ٹک ٹاکر یا کوئی بھی دوسرا شخص بغیر ثبوت کے کسی پر الزام نہ لگائے۔
یہ سب تو یونیورسٹی سیکس سکینڈل سے متعلقہ باتیں ہیں۔ جہاں تک آئس کے استعمال کی بات ہے تواسے خارج ازامکان نہیں کہہ سکتے۔ آج کل منشیات کی یہ جدید قسم تعلیمی اداروں میں پھیل رہی ہے۔ ممکن ہے کہ بہاولپور میں بھی ایسا ہو۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک سو تیرہ لڑکے اس کے استعمال یا خرید وفروخت میں ملوث ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہوسکتی ہے، مگر یونیورسٹی کے چونسٹھ ہزار طلبہ میں سے 113 کا تناسب نکال کر دیکھ لیں۔ یہ ایک تو کیا آدھا فی صد بھی نہیں بنتا۔ پولیس اگر مستعدی سے اپنا کام کرے تو یہ شرح صفر ہو۔
البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ چند پروفیسر مختلف وجوہات کی بنا پر تنگ کرتے یا مارکس دینے میں فیورٹ ازم وغیرہ ہے، تو یہ ایک بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو، مگر یہ بھی یاد رہے کہ یونیورسٹی میں اٹھارہ سو اساتذہ ہیں۔ اگر پانچ سات استادوں کے خلاف ایسی کوئی شکایت ہے تو اس کی شرح بھی۔ 27یعنی آدھے فی صد سے بھی کم بنتی ہے۔ میرا مقصدہرگز کسی کا دفاع کرنا نہیں، میرے نزدیک منشیات اور ہراسمنٹ وغیرہ کے کیسز کی شرح ہر حال میں صفر ہی ہونی چاہیے۔ اس موازنے کا مقصد صرف قارئین کو یہ بتانا ہے کہ کس قدر خوفناک اور غیر منطقی مبالغے کے ساتھ پروپیگنڈہ کیا گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس طرح کی شکایات تو پاکستان کی ہر یونیورسٹی میں کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی سطح پر ہوتی ہے۔ اس کے تدارک کے لئے ہر یونیورسٹی میں ہراسمنٹ سیلز بھی موجود ہیں۔ یہ بات مت بھولیں کہ لڑکیاں ایسے معاملات میں ہمیشہ متحد ہو جاتی ہیں۔ کسی پروفیسر کی مجال ہی نہیں کہ وہ یوں دھڑلے سے لڑکیوں کو تنگ کر سکے۔
اپنے ذہن میں یہ بات رکھیں کہ یونیورسٹی میں ہزاروں لڑکے بھی ہیں۔ اٹھائیس تیس ہزار لڑکے ہیں اور جب بھی کوئی بچی اس قسم کی شکایت کرے تو ہمیشہ پوری کلاس ہر جگہ اکھٹی ہوجاتی ہے۔ لڑکے ہم جانتے ہیں کہ ایسے معاملے میں زیادہ پرجوش ہوجاتے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ نسبتاً کمزور ہے مگر وہاں انجمن طلبہ اسلام(ATI)خاصی تگڑی ہے اور یہ بھی مذہبی تنظیم ہے۔
طلبہ تنظیمیں ہراسمنٹ معاملات میں اپنا مثبت کرداررکھتی ہیں اور ہمیشہ طلبہ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی پروفیسرز اس کی جرات نہیں کرسکتے کہ کھلم کھلا کسی کو تنگ کریں۔ چیف سکیورٹی افسر کی بھی کیا مجال تھی کہ وہ طلبہ تنظیموں کے سامنے کھڑا ہوسکے۔ طلبہ کی قوت کے سامنے تو بہت بار ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور وی سی تک کی بھی نہیں چلتی۔ یہ سب باتیں ایسی نہیں جو ہر کوئی نہ جانتا ہو۔ افسوس جب منفی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، ہم فوری مان لیتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اصلاحات نہیں ہونی چاہئیں۔ سمسٹر ازم کی اپنی خرابیاں ہیں اوراس سسٹم میں فیورٹ ازم بروئے کار آتا ہے۔ لڑکیوں اور ہراسمنٹ سے ہٹ کر دیکھیں تو بہت بار مختلف یونیورسٹیز میں لڑکے بھی فیورٹ ازم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگراحتساب کا سخت نظام نہ ہو، جیسا کہ بہت سی جگہوں پر نہیں ہوتا تو پسند ناپسند کی بنیاد پر کسی لڑکے کو زیادہ نمبر اور کسی لڑکے کو بلاوجہ فیل کر دیا جاتا ہے۔
سمسٹر سسٹم کو ختم یا اس میں اصلاحات لائی جائیں۔ پیپرزاس یونیورسٹی سے باہر کے پروفیسرز بنائیں اور وہی چیک کریں۔ اسی طرح کراس چیک کا نظام موجود ہو۔ ہراسمنٹ کے قوانین مزید سخت کئے جائیں اور ان پر فوری کارروائی ہو۔ نجی یونیورسٹیوں میں طلبہ سے ٹیچرز کے بارے میں فیڈ بیک لیا جاتا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہراسمنٹ کی ہر شکایت حقیقی اور اصلی نہیں ہوتی۔ ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ کسی لڑکی کو فیل کیا جائے تو اسے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی ہراسمنٹ جیسی لگتی ہے۔
حرف آخر یہ کہ براہ کرم اسلامی یونیورسٹی بہاولپور یا عمومی طور پر یونیورسٹیوں کے خلاف بے بنیاد، یک طرفہ پروپیگنڈہ بند کیا جائے۔ آنکھیں کھول کر ایسی چیزیں پڑھیں، دیکھیں۔ اپنے ذہن کو کام میں لے آئیں۔ جھوٹی ویڈیوز سے چسکا لینے کے بجائے یونیورسٹی کی طالبات کو اپنی بچیاں سمجھ کر منطقی سوال سوچیں۔ جواب آپ کو خود مل جائیں گے۔