حماس کے اہم ترین رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگ کی طرف جائے گا؟ ایران جواب میں کہاں اور کیا وار کرے گا اور اس کا ردعمل کسی چین ری ایکشن (Chain Reaction) کوتو جنم نہیں دیگا۔ انہی نکات پر بات کرتے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ پر حملے کی سرائیل نے کھل کر ذمہ داری قبول نہیں کی، مگر اس حوالے سے اب کسی کوذرا برابر بھی شک نہیں۔ واضح ہے کہ یہ اسرائیل کا کام تھا۔ اسرائیل کے مظالم کے ساتھ اس کی حماقتوں کی بھی طویل دہرست ہے، یہ بھی احمقانہ حد تک غیر ذمہ دارانہ آپریشن تھا۔ اس لئے کہ اس سے اسرائیل کو حاصل کم ہوگا، نقصان زیادہ ہونے کاامکان ہے۔
اسماعیل ہنیہ حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ تھے۔ وہ شروع ہی سے ایک سیاسی شخصیت رہے۔ زمانہ طالب علمی میں بھی وہ سیاست کی طرف مائل تھے اور کبھی عسکری جدوجہد میں شریک نہیں رہے۔ حماس کے شہید لیڈر پچھلے کئی برسوں سے دوہا، قطر میں مقیم تھے، وہ غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی سے پہلے وہاں سے نکل گئے۔ دنیا بھر میں مسلح تنظیموں کے سیاسی شعبہ کے افراد کو نہیں چھیڑا جاتا، ان پر اٹیک بھی نہیں کیا جاتا۔ اس لئے کہ مذاکرات کا راستہ ہمیشہ کھلا رکھا جاتا ہے اور یہ چینل بند نہیں ہونے دیا جاتا۔ انگلینڈ میں جب آئرش ری پبلک آرمی مسلح جدوجہد کر رہی تھی، تب بھی آئرش سیاسی رہنمائوں کو برطانوی حکومت نے کچھ نہیں کہا اور انہی مذاکرات سے آئرش مسئلہ حل ہو پایا۔
اسماعیل ہنیہ چونکہ غزہ سے دور تھے، اس لئے وہاں موجود سرگرمیوں سے بھی ایک حد تک وہ بے خبر تھے۔ کہا جاتا ہے اور اس کے شواہد موجود ہیں کہ حماس کے اسرائیل پر حملوں سے بھی اسماعیل ہنیہ لاعلم تھے۔ ایک ویڈیو کلپ منظرعام پر آیا تھا جب وہ ٹی وی پر یہ خبریں دیکھ کر بے ساختہ خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ حماس کو مانیٹر کرنے والے سنجیدہ ماہرین کے مطابق حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے فیصلے مقامی قیادت اور خاص کر یحییٰ سنوار اور محمد ضییف وغیرہ کیا کرتے۔ اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو ہٹ کرنے کے ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے ماہ ایک بمباری میں حماس کے اساطیری شہرت رکھنے والے گوریلا کمانڈر محمد ضیف(جنہیں مغربی ماہرین نو زندگیوں والی بلی کہتے ہیں)شہید ہوگئے ہیں۔ حماس نے اس کی باضابطہ تردید کی ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کم از کم آٹھ بار محمد ضیف کو مار دینے کے دعوے کر چکا ہے جو ہر بار غلط ثابت ہوتے ہیں۔
غزہ کے بحران کے پیش نظر بعض فلسطینی حلقے یحییٰ سنوار پر تنقید کر رہے تھے کہ انہوں نے جنگ طویل کرنے کی حکمت عملی بنائی جس سے ہزاروں جانیں گئیں اور غزہ تباہ ہوگیا۔ اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنانے سے یحییٰ سنوار کو تقویت ملے گی اور ان پر تنقید ختم ہوجائے گی کہ جس شخص نے سیاسی حل نکالنے کی کوشش کی، سفاک اسرائیلیوں نے اس کے ساتھ کیا کیا؟
اس پر خاصی بات ہو رہی ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو کیسے ہٹ کیا گیا؟ ابھی تک یہی اطلاعات آئی ہیں کہ اسرائیلیوں نے انہیں میزائل سے نشانہ بنایا۔ اس پر خاصے لے دے ہوتی رہی کہ آخر اسماعیل ہنیہ کی رہائش گاہ محفوظ کیوں نہیں رکھی جا سکی اور کیا بریچ آف سکیورٹی ہے؟ اب بعض نیوز رپورٹس کے مطابق اسرائیلیوں نے اسماعیل ہنیہ کے واٹس ایپ میں کسی میسج کے ذریعے اپنے بدنام زمانہ پیگاسس سافٹ ویئر کی طرح کا کوئی اور جاسوسی وئیرڈال دیا اور اسی سے جگہ کی نشاندہی ہوئی۔
یہ بات یورپی مبصربرائے مشرق وسطی ایلیا جے میگنیئرنے بھی کہی ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنانے کیلئے اسرائیل کا جاسوسی سافٹ ویئراستعمال کیا گیا۔ ان کے مطابق اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کے واٹس ایپ پیغام میں جدید ترین اسپائی ویئر لگائے۔ اسپائی سافٹ ویئر نے اسرائیلی انٹیلی جنس کو اسماعیل ہنیہ کی لوکیشن بتائی۔ ایلیا جے میگنیئر کے مطابق اسماعیل ہنیہ کو اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والی کال کے بعد قتل کیا گیا، کال کے دوران اسماعیل ہنیہ کے مقام کی نشاندہی کی گئی۔
ادھر ایران میں موجود حماس کے رہنما خلیل حیہ کا کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ ایران میں کسی خفیہ مقام پر تھے اور نہ ہی لوگوں سے الگ تھلگ تھے۔ خلیل حیہ کے مطابق اسماعیل ہنیہ کی تہران میں موجودگی اوپن تھی اور اس لئے ان کو نشانہ بنانے کو کسی بھی طرح اسرائیلی انٹیلی جنس کی کامیابی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ خلیل حیہ نے بتایا کہ اسماعیل ہنیہ کو میزائل کی مدد سے شہیدکیا گیا۔ وہاں موجود لوگوں کے مطابق میزائل کمرے کی کھڑکی توڑ کر سیدھا انہیں لگا۔ اسماعیل ہنیہ کی مظلومانہ شہادت نے نہ صرف مغربی دنیا بلکہ اسلامی ممالک کی کمزوری اور منافقانہ رویے کو بھی ایک بار پھر ایکسپوز کر دیا ہے۔ حماس کے سیاسی شعبے کی سربراہی اب شائد خالد مشعل کے پاس جائے۔ خالد مشعل اور اسماعیل ہنیہ دونوں مل کر غزہ جنگ بندی مذاکرات کر رہے تھے۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس کی سرزمین پر اس کے ایک اہم اورہائی پروفائل اتحادی کو نشانہ بنایا گیا، جو ایک طرح سے ایرانی انٹیلی جنس اور سکیورٹی فورسز کے لئے ندامت کا باعث بنا۔ تاہم بعض ایران مخالف حلقوں کا پاکستان اور عرب دنیا میں سوشل میڈیا پرایران کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا نہایت فضول ہے۔ ان کا یہ الزام بھی احمقانہ ہے کہ ایران کا اس کارروائی میں کوئی ہاتھ ہوسکتا ہے۔ معمولی سی عقل فہم رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایران کو اس سے نہ صرف نقصان ہوا بلکہ ایران کو ایک بار پھر جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے ایرانی سفارت کاروں کو شہید کرکے بھی اسرائیل نے کوشش کی کہ ایران اس کا جواب دے تاکہ جنگ کے شعلے بھڑک سکیں۔ ایران نے بڑی عمدگی سے ایک کیلکولیٹڈ جواب دیا اور پھر جیسے تیسے بعض مغربی اور عرب ممالک کی کوشش سے بات آگے نہ بڑھی۔ اب ایک بار پھر ایران کے لئے ایسی صورتحال پیدا کر دی گئی کہ وہ خاموش بھی نہیں رہ سکتا اور اس کی جانب سے کوئی زیادہ جارحانہ اور بڑا جوابی حملہ پورے خطے کو بھیانک جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
اسرائیل نے ایران میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ بیروت میں حزب اللہ کے ایک بڑے کمانڈر کو بھی نشانہ بنا ڈالا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیل محاذ جنگ کو پھیلانے اور لبنان، ایران وغیرہ کو جنگ کی لپیٹ میں لینے پر تلا ہوا ہے۔ دراصل وائیٹ ہائوس میں ایک کمزور اور غیر متعلق امریکی صدر بھی بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن الیکشن بھی نہیں لڑ رہے اوران کی حکومت کمزور ہے۔ دونوں صدارتی امیدواروں نے الیکشن لڑنا ہے اور امریکہ کی طاقتور جیوش لابی کو ناراض نہیں کر سکتے۔ اس لئے وہ بڑھ چڑھ کر اسرائیل کی حمایت میں بیان دیں گے، بعد میں کیا ہوتا ہے، یہ سردست ان کی ٹینشن نہیں۔ وائٹ ہائوس کو البتہ جنگ بڑھنے نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس سے آئل کی قیمتیں آسمان تک پہنچیں گی اور مغربی دنیا کی توجہ یوکرائن وار سے بھی ہٹ جائے گی۔
ایران کے پاس آپشن محدود ہیں۔ اسے جواب تو دینا ہی ہے۔ اس حملے کو ایسے ہضم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کو اس بار کسی خالی ائیر بیس کے بجائے اسرائیلی آبادی، حکام یا ان کے فوجیوں کو نشانہ بنانا پڑے گا۔ ایسا حملہ جس میں اسرائیلی جانی اموات یقینی ہوں۔ ایرانی جوابی حملہ تب ہی اس کامیاب اور کارگر سمجھا جائے گا۔ ایرانی عسکری ماہرین سوچ بچار کر رہے ہوں گے کہ ایسا ٹارگٹ کیا ہوسکتا ہے؟ ممکن ہے یہ تحریر آپ کے سامنے پہنچے، تب تک ایرانی جواب بھی سامنے آ چکا ہو۔ جوابی حملے میں بہت زیادہ تاخیر نہیں کی جائے گی۔ ایران کے جوابی حملے اور اس پر ہونے والے ردعمل سے زیادہ درست طور پر اندازہ ہوگا کہ مشرق وسطیٰ کسی نئے بحران سے دوچار ہوگا یا بچت رہے گی؟