راجا انور ممتاز ادیب، دانشور اور سیاسی ورکر رہے ہیں، وہ ایک زمانے میں لیفٹ کی طلبہ سیاست کا ایک اہم کردار تھے۔ ستر کی دہائی کے اوائل میں پنجاب یونیورسٹی کے سالانہ یونین الیکشن میں رائیٹ اور لیفٹ کی کشمکش مشہور ہے، اس زمانے کے طلبہ کردار بھی معروف ہوئے۔ راجہ انور تب پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں ماسٹر کر رہے تھے۔ بعد میں پیپلزپارٹی کا حصہ بنے۔ 1973-77 وہ وزیراعظم بھٹو کے مشیر برائے طلبہ رہے۔ جنرل ضیا نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا تو پیپلزپارٹی پر افتاد نازل ہوئی، رہنمائوں اور کارکنوں کے لئے زندگی دشوار ہوتی گئی۔
اقتدار کے زمانے میں بیگم نصرت بھٹو کی تقاریر راجہ انور لکھا کرتے تھے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے پندرہ اکتوبر 77کو فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں اپنی زندگی کی پہلی سیاسی تقریر کی، وہ بھی راجہ انور ہی نے لکھی تھی۔ بعد میں وہ مارشل لا حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے لئے سرگرم رہے، درجنوں مقدمات بھی درج ہوئے۔ راجہ صاحب 1979ء میں جلاوطن ہوکر افغانستان چلے گئے۔ اپنی کتاب بَن باس میں انہوں نے لکھا کہ ملک سے باہر چلے جانے کا مشورہ انہیں بیگم نصرت بھٹو ہی نے دیا تھا۔
راجہ انور کی زندگی کے اگلے سال ڈرامائی اتارچڑھائو سے دوچار رہے۔ وہ پشاور سے کابل پہنچے تھے، وہاں کچھ دن رہے اور پھر حالات دیکھ کر ترکی چلے گئے، استنبول میں کچھ دن رہے اور پھر خاصے جتن کے بعد مغربی جرمنی پہنچ گئے۔ جرمنی کے بعد پھر کابل آئے جب ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو کابل آ کر ببرک کارمل کی افغان حکومت کی مدد سے جنرل ضیا کے خلاف اپنی سرگرمیاں شروع کر چکے تھے۔ راجہ انور مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ رہے اور پھر سیماب صفت، مغلوب الغضب میر مرتضیٰ کے غصے کا نشانہ بن کر کابل کی بدنام جیل پل چرخی قید رہے۔ مرتضیٰ بھٹو نے مشہور کر دیا کہ راجہ انور کی موت ہوگئی۔
مرتضیٰ نے ایک قبر بھی کھدائی جہاں وہ رہائی کے بعد راجہ انور کوخود مار کر دفن کرنا چاہتا تھا۔ حالات میر مرتضیٰ کو راجہ انور کی رہائی سے قبل ہی دمشق، شام لے گئے۔ یوں راجہ انور کی زندگی بچ گئی۔ بعد میں انہوں نے ایک افغان خاتون کے ساتھ شادی کر لی اور پھر ان کے ساتھ جرمنی چلے گئے، وہاں کئی سال مقیم رہے۔ پاکستان واپسی پر راجہ صاحب نے پولیٹیکل ایکٹوازم کو تو زیادہ نہیں اپنایا، البتہ وہ پنجاب حکومت کے ایک بڑے تعلیمی پراجیکٹ سے وابستہ رہے۔ پچھلے چند برس وہ فالج کے باعث شدید علیل رہے، اب ان کی طبیعت بہتر ہے اور مختلف تقریبات میں شرکت بھی کر لیتے ہیں۔
راجہ انور جیسی شخصیت کا تذکرہ زیادہ تفصیل سے کرنا چاہیے تھا، میں نے مختصر اس لئے رکھا کہ ان کی کتابوں پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ راجہ صاحب مقبول اور نامور لکھاری ہیں۔ ان کی کتاب" جھوٹے روپ کے درشن" تو کلاسیکی حیثیت رکھتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم کے حوالے سے لکھا جانے والا وہ قصہ ایک زمانے میں بہت ہی معروف تھا۔ مجھے یاد ہے کہ تیس پینتیس سال قبل ہمارے زمانہ طالب علمی میں بھی یہ کتاب بہت مشہور تھی۔ طلبہ حلقوں میں یہ عام تاثر تھا کہ جس نے راجہ انور کی جھوٹے روپ کے درشن نہیں پڑھی، اسکا مطالعہ مشکوک ہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ تب ڈھونڈ ڈھانڈ کر یہ کتاب پڑھی تھی، غالباً کلاسیک کی چھپی ہوئی، کاغذ اور پرنٹنگ خاص نہیں تھی، مگر کتاب دلچسپ اور نہ بھولنے والی۔ یہ کتاب کئی پبلشروں نے چھاپی، شائد پائریٹیڈ ایڈیشن بھی ہوں گے۔ ابھی پچھلے سال یہ کتاب بک کارنر جہلم نے بڑی حسین پرنٹنگ کے ساتھ شائع کی تو ریسپانس سے اندازہ ہوا کہ" جھوٹے روپ کے درشن" آج بھی پڑھی جا رہی ہے۔
راجہ انور کئی کتابوں کے مصنف ہیں، سب اپنے اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت عمدہ اور دلچسپ ہیں۔ انہیں پہلے بھی پڑھتا رہا تھا، وہ اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے، یہ سب پڑھے مگر اب ان کی چار پانچ کتابیں اکھٹی منگوائیں تو زیادہ یکسوئی اور تفصیل سے پڑھنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ راجہ انور کی ایک کتاب جنرل ضیا کے دور ہی میں شائع ہوگئی تھی، یہ میر مرتضیٰ بھٹو پر تھی۔ دی ٹیررسٹ پرنس کے نام سے انگریزی میں یہ کتاب دنیا کے کئی ممالک سے چھپی۔ اسے آپ ڈیٹ کرکے بعد میں اردو میں بھی شائع کیا گیا۔ یہ کتاب ایک سے زائد بار کئی جگہوں سے چھپی ہے۔
میرے سامنے بک کارنر جہلم سے شائع کردہ اس کا ایڈیشن ہے۔ دہشت گرد شہزادہ، میر مرتضیٰ بھٹو کی کہانی۔ یہ کتاب بھٹو کے زوال سے لے کرپیپلزپارٹی کے مارشل لا کے خلاف مزاحمت کے ابتدائی برسوں کی تفصیل بتاتی ہے، النصرت کا قیام، جیالوں کی خودسوزی کا المناک اور سفاک قصہ۔ پھر کابل کے ایام، مرتضیٰ بھٹو کے ہندوستان سے رابطے، پی آئی اے کے طیارے کا اغوا، پھر مرتضی کی دمشق روانگی، "الذوالفقار "کا قیام اور اس کی ہٹ لسٹ، جنرل ضیا پر الذوالفقار کے حملے، مرتضیٰ کا دشمن، الذوالفقار کے مظلوم، سندھو دیش، اور آخر میں کراچی کی ایک سڑک پر میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل۔ یہ کتاب کئی حوالوں سے چشم کشا ہے۔ اس میں الذوالفقار کی دہشت گرد کارروائیوں کی تفصیل پہلی بار سامنے آئی اورپڑھنے والوں کو اندازہ ہوا کہ کس طرح عام کارکن کا جذباتی استحصال ہوتا ہے۔
راجہ صاحب کی کتاب" بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک "پاکستانی جیلوں کے حوالے سے ذاتی مشاہدات ہیں۔ یہ کتاب میں ابھی پڑھ نہیں سکا، اسے پڑھنے کے بعدا پنی رائے ضرور دوں گا۔ البتہ کابل کی بدنام زمانہ جیل پل چرخی میں گزرے ڈھائی برسوں کے حوالے سے راجہ انور کی کتاب" قبر کی آغوش " پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ جیل ظاہر ہے اپنے بہت ہی سخت اور کڑے حالات کی وجہ سے بدنام ہے، مگر راجہ انور نے ان تمام واقعات، ساتھی قیدیوں اوروہاں گزرے تکلیف دہ لمحات کو بھی اتنے دلچسپ انداز میں بیان کیا کہ اس پر ایک اچھی فلم یا سیزن بن سکتا ہے۔ ایسی شگفتہ، رواں اور دلچسپ نثر جیسے پہاڑوں کے دامن میں کوئی ندی دھیمے سروں بہہ رہی ہو۔ قاری پہلے صفحے سے یوں سحرزدہ ہوجاتا ہے کہ آخر تک گویا بہتا چلا جاتا ہے۔
ڈاکٹر معین نظامی نے قبر کی آغوش کا چند سطروں میں بہت خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے، لکھتے ہیں: "واقعات کی معجز نما رنگ آمیزی اور تلخ وشیریں حوادث کی تمام تر جزئیات کے ساتھ موثر تصویر کشی میں راجہ انور کی مہارت نے قبر کی آغوش کو ایک دلچسپ اور سچے واقعات پر مبنی موثر ناول کے درجے پر پہنچا دیا ہے۔ اس کی نثر تروتازہ اور شگفتہ ہے جسے پڑھنے سے قاری کو بالکل بوریت نہیں ہوتی۔ مصنف تکلیف دہ احساسات اور جذبات بیان کرنے میں کبھی طنز ومزاح سے کام لیتا ہے تو کبھی ماہرانہ نیش دارانہ انداز میں ان کا اظہار کر دیتا ہے، مگر دونوں صورتوں میں اپنی بے سروسامانی کی داستان حیات کو بہت مہارت سے دلنشیں بنا دیتا ہے۔ کتاب میں اول سے آخر تک مصنف کا نقطہ نظر رجائیت سے لبریز، عالمانہ، تجزیاتی، جاندار اور دلکش ہے، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے"۔
ان پانچ کتابوں کی سیریز میں سے نئی اور بعض حوالوں سے بہت ہی بھرپور کتاب بَن باس ہے۔ یہ راجہ انور کے مختلف ممالک کے سفر اور وہاں قیام کے حوالے سے مشاہدات، تاثرات اور دلچسپ واقعات ہیں۔ آخری باب میں انہوں نے اپنے گائوں کے چند بہت دلچسپ کرداروں کا تذکرہ کیا۔ بن باس کے حوالے سے چند دلچسپ اقتباسات اگلی نشست میں ان شااللہ شیئر کروں گا۔