موسم سرما اپنے اندر کئی خوبصورتیاں لئے آتا ہے۔ ہمارے جیسے پنجاب کے باسی چھ سات ماہ کی سخت گرمی اور ستمبر اکتوبر کے حبس آلود دنوں کے بعد ٹھنڈی، یخ رت کے تصورہی سے سحرزدہ ہوجاتے ہیں۔ دسمبر جنوری خاص طور سے کھانے پینے کا موسم ہے۔ بہت سے ایسے پکوان اور لذیز چیزیں ان دنوں میں ملتی ہیں، جسے گرمیوں میں ہم چھو بھی نہیں سکتے۔ نہاری، ہریسہ، پائے وغیرہ سے لے کرحلوہ جات، پنجیری، گجریلا، شہدآمیز قہوہ جات وغیرہ وغیرہ۔
ضروری نہیں کہ یہ سب چیزیں مہنگی ہوں، ان میں سے کئی چیزیں گھر میں بھی بن سکتی ہیں۔ قہوہ بنانے میں کیا خرچ اٹھتا ہے؟ اگر گھر میں زعفران موجود ہے تو پھر لطف دوبالا ہوجائے گا، ورنہ سادہ ادرک کی چائے بھی مزے کی ہوتی ہے۔ لیمن گراس کا قہوہ بھی خوب ہے۔ پچھلے دنوں ایک اور تجربہ کیا۔
لاہور کے نسبت چوک سے تھوڑا آگے میو ہسپتال کا مشہور لنڈا ہے، وہاں پر ایک مناسب سا ہوٹل ہے۔ اس کی بعض ڈشز تو کمال ہیں۔ کئی برسوں کے بعد میں نے پکی ہوئی اوجھڑی وہیں سے کھائی۔ ڈھائی سو روپے میں اچھی بھلی ہاف پلیٹ جو ایک آدمی کے لئے بہت ہی مناسب۔ میری والدہ کواوجھری کھانا بالکل پسند نہیں تھا، مگر والد صاحب کے لئے گھر میں اکثر بنا کرتی۔ امی کے ہاتھ کا کیا ذائقہ تھا۔ خاندان بھر میں جس کسی نے ان کے ہاتھ کی پکی کوئی ڈش کھائی، وہ کبھی نہیں بھول سکا۔ برسوں سے ہمارے گھر میں نہیں بنی تھی، اس ہوٹل سے کھانے کا موقعہ ملا۔ بہت ہی نفیس اور عمدہ مغز کا سالن بھی وہیں سے ملا۔ پائے بھی اچھے پکاتے ہیں۔ زردہ بھی مل جاتا ہے۔
نہاری، پائے، ہریسہ وغیرہ مزیدار تو ہوتے ہیں مگر بلڈ پریشر، شوگر کے مریضوں کے لئے احتیاط بہتر ہے۔ میرا اپنا فارمولا یہ ہے کہ سال میں ایک آدھ بار ہی انہیں کھایا جائے اور اس سے پہلے کئی روز احتیاط کرکے اپنی شوگر کنٹرول میں رکھی جائے۔ ان دنوں میں تھوڑی بہت بے احتیاطی ہوجاتی ہے تو اس لئے غذا میں فائبر بڑھائیں۔ سلاد کا پیالہ بھر کر کھائیں، کھیرے، بند گوبھی، گاجر، ٹماٹر، بنفشی بند گوبھی، بروکلی، سلاد پتہ، آئس برگ وغیرہ، اس پر ایک چمچ زیتون کا ایکسٹراورجن آئل چھڑک دیں۔ جی چاہے تو ایک ابلا ہوا انڈا بھی ٹکڑے کرکے ملا لیں۔ تھوڑا دہی بھی شامل کر سکتے ہیں۔ چیا سیڈز اور السی کے بیج بھی الگ سے تھوڑے پانی میں ڈال کر استعمال کر سکتے ہیں۔
لاہور کی اکثر بیکریوں سے گاجر حلوہ، پینٹھے کا حلوہ، چنے کی دال کا حلوہ مل جاتا ہے۔ گاجر حلوہ تو اکثر دودھ دہی کی دکانوں پر دستیاب ہوتا ہے۔ ہم سرائیکیوں کے لئے حلوہ مگر سوہن حلوے کا نام ہی ہے۔ ملتان، بہاولپور، احمد پور شرقیہ، رحیم یار خان وغیرہ میں کمال قسم کا سوہن حلوہ تیار ہوتا ہے۔ سرائیکی اسے سونا حلوہ کہتے ہیں۔ یہ گھروں میں بھی بنتا ہے اور گلی محلے کی دکانوں سے تو خیر مل ہی جاتا ہے۔ دو چار بڑے برینڈ اس حوالے سے بھی بن چکے ہیں، مگر روزانہ سوہن حلوہ بنانے والوں کی دکانوں سے خاصا سستا مگر مزے کا حلوہ مل جاتا ہے۔ احمد پورشرقیہ میں ایک ملک صاحب سوہن حلوہ بناتے ہیں، حیران کن ذائقے والا، ہزار روپے سے کم میں کلو مل جاتا ہے۔ اسی طرح فریدی اور انصاری حلوہ جات بھی خوب ہیں۔
سردیوں میں گڑ بنانے والے ویلنے لگتے ہیں تو ان کے کڑھائو سے جہاں گڑ، شکر وغیرہ بنتی ہے، وہاں پر ایک اور چیز بھی بنتی ہے جسے سرائیکی میں کَکو کہتے ہیں۔ یہ گنے کے رس (رو)اور گڑ کی درمیان کی کوئی چیز ہے۔ بہت میٹھی اور کمال ذائقہ دار۔ ہم بچپن میں گھی والی روٹی یا پراٹھے کے ساتھ ککو کھایا کرتے تھے، بعض لوگ اس کے ساتھ دودھ سے اتری ملائی بھی شامل کر لیتے۔ بڑے سالوں کے بعد اس بار پھر سے ککو ہاتھ آئی تو چنی گوٹھ، احمد پورشرقیہ سے لاہور لے آئے۔ خود بھی دو چار بار کھائی اور بچوں کو بھی استعمال کرائی۔
ہم لوگ تو سادہ چائے پینے والے تھے، لاہور میں چائے کے بھی کئی فلیورز سے تعارف ہوا۔ کشمیری چائے بھی یہیں پر پی۔ اس کا جواب نہیں۔ چٹکی نمک والی کشمیری چائے، ساتھ باقر خانی بھی مل جائے تو کیا ہی بات ہے۔ چند دن پہلے کہیں پر ریسرچ پڑھی کہ عام چائے میں بھی نمک ملانے سے اس کا ذائقہ بڑھ جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ امریکی اور برطانوی ماہرین میں یہ بحث چل نکلی ہے۔ امریکی نمک والی چائے کے حامی جبکہ برطانوی اپنی چائے کو خالص رکھنا چاہتے ہیں۔
آپ جانتے ہوں گے کہ جو دودھ والی چائے ہمارے ہاں چلتی ہے، وہ برطانوی تحفہ ہے۔ انگریز دودھ کی چائے پینا پسند کرتے تھے۔ سیپریٹ چائے یعنی پتی کے قہوے میں الگ سے دودھ ملاکر چائے پینابھی انگریزوں کا طریقہ ہے۔ امریکہ اور یورپ بھر میں کافی پسند کی جاتی ہے۔ بہت جگہوں پر تو دودھ اور شکرکے بغیر کالی سیاہ کڑوی کافی۔ اس میں کئی قسم کی وارئٹیز ہیں، ایکسپریسو بہت سٹرانگ کافی ہوتی ہے۔ میں نے ترکی اور مصر میں نہایت کالی، گاڑھی اور بلا کی کڑوی کافی دیکھی۔ اسے بہت چھوٹے سے کپ میں پیا کرتے ہیں، دو تین گھونٹ ہی کافی رہتے ہیں۔
معروف مصنف، پبلشر فرخ سہیل گوئندی نے ایک بار بتایا کہ ان کے گھر میں لبنانی کافی بنتی ہے۔ اس کی خوشبو سے پورا گھر مہک رہا ہوتا ہے، زہر کی طرح کڑوی مگر جب ذائقہ کی عادت بن جائے تو آدمی روز پیتا ہے کہ تھکن اتار کر چاک چوبند کر دیتی ہے۔ اسے غالباً تازہ کافی بینز پیس کر بنایا جاتا ہے۔ فرخ گوئندی کی اہلیہ ریماعبداللہ گوئندی کا تعلق بیروت، لبنان سے ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد سبز چائے کے بڑے شائق تھے۔ اپنی کتاب غبارخاطر میں انہوں نے بڑے مزے لے لے کر اس کے قصے رقم کئے۔ وہ پڑھ کر آدمی کا جی چاہتا ہے کہ سنہرے رنگ والی سبز چائے پی جائے جس میں نہ چینی کی ملاوٹ ہو اور نہ ہی دودھ۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں کسی نے چین سے لائی گئی یاسمین سبز چائے کا ڈبہ تحفے میں دیا۔ اس ڈبے پر چینی زبان میں کچھ لکھا تھا، چینی انداز کی پینٹنگز بھی تھیں۔ ہمارے گھر سبز چائے بنا کرتی تھی۔ والدہ اس ڈبے میں سبز چائے کی پتیوں کے اوپر چنبیلی کی چندکلیاں ڈال دیتیں۔
چند سال قبل مصر گیا تو وہاں ہر جگہ دودھ کے بغیر چائے یا مصری کافی کا رواج دیکھا۔ ہم قاہرہ سے بذریعہ ٹرین سکندریہ (الیگزینڈریہ)گئے۔ دو گھنٹوں کا سفر تھا، ایسا آرام دہ کہ جی خوش ہوگیا۔ صاف ستھری ٹرین، آرام دہ سیٹیں۔ کچھ دیر کے بعد ریل کے عملے کا ایک شخص مشروبات سے لدی ٹرالی لے کر گزرا۔ اس پر چائے کی چینک، بسکٹ، بن کیک اور کروساں وغیرہ رکھے تھے۔ آرام سے وہ آواز لگاتا گیا، "شائے بدون حلیب " یعنی دودھ کے بغیر چائے۔ ہم نے بھی خرید کر پی۔ پتہ چلا کہ اس میں لپٹن چائے کا ٹی بیگ ڈالا ہوا تھا، مگر وہ ہمارے ہاں کی لپٹن جیسی نہیں تھی۔ دراصل وہ کالی چائے کے قہوے اور گرین ٹی کے درمیان کی کوئی چیز تھی۔ اگر ہم اپنے ہاں ملنے والے چائے کے ٹی بیگ کو گرم پانی میں ڈال کر پی لیں تو اس قہوے میں تلخی محسوس ہوگی۔ مصر یا مڈل ایسٹ میں ملنے والی اس لپٹن ٹی بیگ میں ایسا نہیں تھا۔ شائد وہاں کے ذوق اور مزاج کے مطابق بنائی گئی ہوگی۔
اس باردو تین باتیں ہوئی ہیں۔ ایک تو سردی کا موسم کچھ زیادہ طویل ہوگیا۔ لاہور میں اپنے ستائیس اٹھائیس سالہ قیام میں ایسی شدت والی سردی نہیں دیکھی۔ چند دن سردی پڑتی پھر سب نارمل ہوجاتا۔ اس بار تو تین چار ہفتے مسلسل شدید اور خشک سردی رہی، جس سے لوگ پریشان ہوئے۔ لوگوں کا گھر سے باہر نکلنا بھی کم ہوا۔ دوسرا مہنگائی اور کم قوت خرید کے باعث زیادہ تر لوگ پریشان ہی رہے۔ ڈرائی فروٹ کی فروخت بھی کم ہوئی اور کینو، مالٹے بھی بہت کم بکے۔ اس سال سٹرس فروٹ کے باغات والے گھاٹے میں رہے ہیں، پیداوار زیادہ رہی، مگر پھل کی کوالٹی میں کمی آئی۔
تیسرا فیکٹر سیاسی بے چینی، اضطراب، مایوسی وغیرہ کے جذبات کا ہے۔۔ الیکشن سر پر آن پہنچامگر ابھی تک گہماگہمی نہیں ہوسکی۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر اکثرلوگ بیزار اور چڑچڑے نظر آتے ہیں۔ کل یعنی یکم فروری سے پانچ فروری تک لاہور میں سالانہ روایتی کتاب میلہ بھی شروع ہورہا ہے۔ ایکسپو سنٹر لاہور میں ہر سال یہ میلہ سجتا ہے۔ اس بار بہت سی اچھی نئی کتابیں بھی چھپ رہی ہیں۔
شکر ہے کہ سردی کی شدت میں کمی آ گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اپنی بیزاری اور کوفت دور کرنے کے لئے کتابوں کی دنیا کا رخ کیا جائے۔ اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کے ساتھ کتاب میلہ کے دنوں میں وہاں کا وزٹ کریں، کچھ ونڈو شاپنگ کریں، دل کو بھا جائے تو کتاب خرید بھی لیں۔ کتاب میلہ میں تیس چالیس سے پچاس فیصد تک رعایت پر بھی کتابیں مل جاتی ہیں۔ سردیوں کا یہ موسم کھانے پینے اور مطالعہ کرنے کا ہے۔ اس سے جتنا فائدہ اٹھان ہو، اٹھا لیں۔ صرف دو تین بعد پھر سے وہی پسینہ بہنے، آگ برسانے والا موسم شروع ہوگا جو کئی ماہ تک جاری رہے گا۔ جو ہاتھ میں ہے، اس سے لطف اٹھا نا چاہیے۔ یہی زندگی ہے۔