آج ایک کہانی سے آغاز کرتے ہیں۔ بہت سال پہلے بھی اس پر بات کی تھی۔ کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت بار ان کی تازگی اور اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
کہتے ہیں ایک ریاست چاروں طرف سے خطرات میں گھر گئی۔ اندرونی مسائل کے ساتھ ساتھ اسے طاقتور اور دشمن ہمسائیوں سے خطرہ درپیش تھا۔ اس بدقسمت ریاست کے حکمران ایک دوسرے سے بڑھ کر نااہل ثابت ہوئے تھے۔ کسی کے خیالات میں جدت تھی۔ وہ اپنی ریاست کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا تھا مگر اقرباء پروری سے نہ بچ سکا اور اس کی اولاد نے عوام کا جینا حرام کر دیا۔ کسی کی نگاہ دوررس اور ذہن تیز تھا، مگر وہ عوام کو اکٹھا نہ رکھ سکا۔ مزاج کے تلون اور انانیت نے بہت سوں کو اس کا شدید مخالف بنا دیا۔ کوئی حکومت میں آیا ہی عیش وعشرت کے لئے تھا۔ بعض کومرتے دم تک حکمران رہنے کی ہوس تھی، وہ اسی کے لئے کوشاں رہے۔ کئی ایسے بھی آئے جو گروہی تعصبات اور مفادات سے نہ اٹھ سکے۔
یوں آہستہ آہستہ ریاست کا نظم ونسق بگڑتا گیا۔ وزیر، مشیر، انتظامی افسران بے ایمان اور خائن ہو گئے۔ نچلا عملہ کام چوری کو اپنا معمول بنا چکا تھا۔ غیر تاجروں نے تجارت شروع کر دی تو تاجروں نے سٹہ بازی میں پناہ لی۔ حاکم وقت کو دوسری ریاستوں کی سیروسیاحت مرغوب تھی۔ حالات بہت ہی دگرگوں ہوئے، تو ایک دن کچھ دردمند شہری اکٹھے ہوئے اور مشاورت کی۔ انہیں خطرہ تھا کہ ریاست کی کمزوری بھانپتے ہوئے دشمن حملہ آور نہ ہو جائیں۔ کئی گھنٹے تک بحث ہوتی رہی۔ حالات کا رونا رونے کے بعد تجاویز مانگی گئیں مگر بیشتر قابل عمل نہ تھیں۔ پھر ایک شخص نے مشورہ دیا کہ فلاں پہاڑی کی گپھا میں ایک درویش رہتے ہیں۔ مدت ہوئی وہ خلق سے منہ موڑ چکے۔ لوگ وہاں بیٹھے رہتے ہیں، ان کا دل چاہا تو کسی سے کوئی بات کر لیتے ہیں، ورنہ نہیں۔ ان صاحب معرفت بزرگ کی فراست بے مثل ہے۔
شہریوں کا ایک وفد طے شدہ منصوبے کے مطابق اگلے دن خاموشی سے روانہ ہوگیا۔ ہفتوں کے سفر کے بعد وہ ان درویش کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جیسا بیان کیا گیا، انہیں ویسا ہی پایا۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد درویش نے اپنی تسبیح سے سر اٹھایااورنرمی سے آنے کی وجہ پوچھی۔ ان لوگوں نے بڑی د ل سوزی سے سارا ماجرا سنایا۔ بزرگ خاموشی سے آنکھیں موندے سنتے رہے۔ بات مکمل ہو چکی تو انہوں نے اپنی ڈھلکی ہوئی سفید بھنویں اٹھا کر چمکدار آنکھیں کھولیں۔ لمحہ بھر کے لئے وفد کے شرکاء کو غور سے دیکھا اور گویا ہوئے "میرے بارے میں آپ کو غلط بتایا گیا ہے، میں تو ایک معمولی شخص ہوں۔ آپ مشورے کے لئے آ ہی گئے ہیں تو اپنی مقدور کے مطابق رہنمائی کروں گا۔ پہلے یہ بتائیں کہ تمہاری ریاست کا عام آدمی کیا سوچتا ہے؟"
چند لمحے خاموشی چھائی رہی، پھر پھر وفد کے سب سے عمر رسیدہ فرد نے جواب دیا "حضرت! عام آدمی بہت پریشان ہے، شدید مہنگائی، بدامنی اور سرکاری اہلکاروں کے مظالم نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔ ہمارا درمیانہ طبقہ تیزی سے غریب اور نچلا طبقہ غریب تر ہو رہا ہے جبکہ امراء کی دولت اور قوت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ عام آدمی کا اپنی حالت زار پر خون کھولتا ہے۔ وہ اندر سے مضطرب، مشتعل اور جھنجھلائے ہوئے ہیں مگر منظم نہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اظہار کس طرح کیا جائے؟"
درویش کا اگلا سوال تھا "اپنی پریشانی اور تنگدستی نے انہیں کہیں ہمسایہ ممالک کی جانب دیکھنے پر تو مجبور نہیں کر دیا؟ ان میں غلامی کی خواہش تو پیدا نہیں ہوئی؟"
"نہیں حضور! ایسا ابھی نہیں ہوا۔ لوگ اپنے ہمسایوں کی غلامی اختیار کرنا تو دور کی بات ہے، ان کی برتری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے اسی جذبہ نے ہمارے کھیلوں کو جنگ کی شکل دے دی۔ ہمارے عوام دشمن ہمسائے کے ساتھ ہونے والے کھیلوں کے مقابلے بھی نہیں ہارنا چاہتے"۔
یہ سن کر درویش مسکرائے اور بولے "تم لوگوں کو مبارک ہو۔ میں یہ خبر سناتا ہوں کہ تمہاری ریاست غلام نہیں بن سکتی۔ یاد رکھو صرف وہی قومیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہیں جن کے اندر قومی تفاخراور خوئے آزادی دم توڑ چکی ہو۔ تم غلام تو نہیں بنو گے، مگر لگتا ہے تمہارے مصائب ابھی جاری رہیں گے۔
"جو بتایا اس سے یوں لگتا ہے کہ تمہاری قوم میں سچائی کے خریدار نہیں ہیں۔ یاد رکھو ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سچ موجود ہی نہیں رہے۔ ہمیشہ حق اور باطل دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ تمہارے لوگ پریشانی اور بدحالی کے باوجود ابھی تک فریب کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ اگر اپنی تقدیر بدلنا چاہتے ہو تو قوم کو جھنجھوڑ کر بیدار کرو اور ان میں سچ کا سامنا کرنے کی جرات پیدا کرو۔ خواب غفلت سے بیداری، غلطیوں کا اعتراف اور درست لائحہ عمل کا انتخاب تبدیلی کی واحد صورت ہے۔
"یہ یاد رکھنا کہ تم میں سے ایسے لوگ بھی اٹھیں گے جو مایوسی پھیلائیں گے۔ یہ ہمیشہ حالات اور قیادت کی نا اہلی کا رونا روتے رہیں گے۔ ریاست کو ناکام اور عوام کو نامراد کہیں گے۔ ان تاریکی پھیلانے والوں سے بچ کر رہنا۔ جو قوم مایوس ہو جائے، وہ تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود شکست کھا جاتی ہے، حوصلہ اور فتح کی امید ہی حقیقی ہتھیار ہیں"۔
اس ریاست کا کیا بنا، درویش کے مشورے پر اس قوم نے کان دھرے یا وہ مایوسی پھیلانے والوں کے بھرے میں آ گئے، یہ تو ایک الگ قصہ ہے۔ یہ حکایت مجھے گزشتہ روز دانش وروں کی ایک محفل میں بے طرح یاد آئی۔ ملکی حالات پر گفتگو جاری تھی۔ کسی نے سوال اٹھایا کہ اس وقت ملک کا نمبر ون مسئلہ کیا ہے؟ ہر کوئی اپنی رائے دیتا رہا۔
کسی کے خیال میں سیاسی بے یقینی زیادہ خطرناک ہے کہ اس سے افواہیں جنم لیتیں اور اندیشے پروان چڑھتے ہیں۔ بعض کے خیال میں لیڈر شپ کا فقدان اور اداروں کی مضبوطی کے بجائے شخصیات کو اہمیت دینا برائی کی اصل جڑ ہے۔ ایک صاحب مصر تھے کہ نمبر ون اور نمبر ٹو مسئلے کی بحث ہی فضول ہے کہ ہر کسی کی اپنی فہرست ہوتی ہے۔
ایک دانشور جو خاموشی سے گفتگو سن رہے تھے، ان سے پوچھا گیا تو بڑی سادگی سے بولے، "ہمارے عوام سچائی کے خریدار نہیں ہیں۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سچ کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔ لوگ برملا کہہ دیتے ہیں، فلاں سچا اور دیانت دار سیاستدان ہے مگر اس کے جیتنے کا کوئی چانس نہیں، اس لئے ہم اس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اس وقت سچ ایک کتابی بات بن چکا ہے۔ سچائی کو آئیڈیل ازم جبکہ ایسے دلائل کو اکیڈمک باتیں کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب تک قوم میں سچ کی قدر اور اس کی طلب نہیں جاگے گی، اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟ قوم کے سامنے سچا راستہ یا درست لائحہ عمل پیش کر بھی دیا جائے تو کوئی اس طرف آنے کو تیارنہیں ہوگا"۔
یہ گفتگو سن کر کچھ دیر تک محفل میں خاموشی چھائی رہی پھر ایک ستم ظریف نے مسکرا کر کہا "پروفیسر صاحب آپ باتیں تو خوب کرتے ہیں مگر ہوتی وہ کتابی (Academic) ہی ہیں۔ "مجھے انقلاب فرانس کے فکری معماروالٹیر کا قول یاد آیا "کسی قوم میں انقلاب کی روح پھونکنا مشکل نہیں، اصل محنت انہیں سچ اور جھوٹ کی تمیز سکھانے میں ہوتی ہے"۔