نامور ادیب، صحافی شوکت صدیقی کے مشہور ناول جانگلوس کا بڑا حصہ سرائیکی لینڈ سکیپ کے گرد گھومتا ہے، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، بکھر، لیہ وغیرہ۔ اسی ناول میں بکھر کے "تِکھے پیر" کے مزار کا تذکرہ بھی ہے، سرائیکی میں تِکھے سے مراد تیز ہے، غالبا اس مزار کی شہرت یہ ہوگی کہ یہاں مانگی گئی دعا اور مانی گئی منت جلد پوری ہوتی ہے۔ لاہور کے باغ جناح میں ایسا ہی ایک مزار حضرت ترت مراد کا بھی ہے، ترت مراد کا مطلب بھی یہ کہ مقصد فوری حاصل ہوگیا۔ آپا بانو قدسیہ کے مشہور ناول راجہ گدھ میں اس مزار کا خاصا تذکرہ ہے۔ ایک زمانے میں وہاں جانا ہوتا رہا۔ فیصل آباد کے ایک بزرگ شیخ صاحب جمعہ کی شب ختم خواجگان کراتے تھے۔
خیرآج جانگلوس کا تذکرہ ایک اور حوالے سے مقصود ہے۔ جانگلوس میں ایک واقعہ بیان کیا گیا کہ قیام پاکستان سے خاصا پہلے ڈیرہ غازی کے مقامی بلوچ سرداروں نے اپنی رعایا پرایک ٹکہ کا ٹیکس لگا دیا تھا۔ نوجوان قارئین کے لئے بتاتا چلوں کہ ٹکہ تب سکہ تھا، چھوٹا سکہ۔ اردو کے کئی پرانے محاورے اسی ٹکہ کے حوالے سے ہیں، جیسے ٹکہ ٹوکری ہونا کا مطلب ہی یہی ہے کہ چیزوں کی قیمت اتنی گر گئی کہ سبزی یا پھلوں سے بھری ٹوکری ایک ٹکے میں فروخت ہونے لگی۔
جنوبی پنجاب کے ان علاقوں میں بلوچ سرداروں نے کئی قسم کے ٹیکس پہلے ہی عائد کر رکھے تھے، تاہم اس ٹکہ ٹیکس نے عوام کی برداشت ختم کر دی۔ لوگ سڑکوں پر آگئے، مظاہرے ہوئے اور عام لوگ گولیوں سے بھی نہ ڈرے۔ کئی جگہوں پر ہنگامے ہوئے، گولیاں چلیں، لوگ بھی مرے، مگر احتجاج ختم نہ ہوا۔ ایک ہی نعرہ ہر طرف گونج رہا تھا: "مَرسوں مَرسوں ٹکہ ٹیکس کینا ں ڈیسوں" ہم مرجائیں گے مگر یہ ٹکہ ٹیکس کبھی نہیں دیں گے۔
شوکت صدیقی نے ناول میں بڑی خوبصورتی سے دکھایا کہ ایک مزاری سردار کو اس کے پنجابی مہمان نے مشورہ دیا کہ آپ لوگ اتنے غصے اور ضد میں کیوں آگئے ہیں، ایک ٹکہ کی حیثیت ہی کیا ہے، چھوڑ دیں دفع کریں، ٹیکس واپس لے لیں۔ سردار نے غصے سے اسے دیکھا اور کہا کہ تم بات کو سمجھ نہیں رہے۔ یہ لوگ اگر آج ٹکہ ٹیکس کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں تو پھر کل کو دوسری چیزوں کے لئے بھی احتجاج کریں گے اور یوں ہماری گرفت سے ہمیشہ کے لئے نکل جائیں گے۔ آج کل بجلی کے بلوں پر جو ملک گیر احتجاج جاری ہے، اسے دیکھ کر مجھے جانگلوس میں بیان کیا گیا وہی واقعہ یاد آگیا۔ یہ احتجاج عجیب وغریب ہے، اسے کوئی سیاسی جماعت لیڈ نہیں کر رہی، کوئی لیڈر نہیں۔ ، عام آدمی ہیں جو مشتعل، مضطرب اور دل شکستہ ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں؟ مہنگائی کی خوفناک لہر نے زندگیاں مشکل بنا دی ہیں۔ ایسے میں تنخواہ یا ماہانہ آمدنی کے برابر یا اس کا بڑا حصہ ہڑپ کر جانے والے بجلی کے بل کو کیسے بھرا جائے؟ لوگ باہر سڑکوں پر آ کر بجلی کے بل جلا رہے ہیں اور حکمرانوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم بجلی کے بل نہیں دیں گے، ہمارے اوپر یہ ظلم ختم کیا جائے۔
مجھے نہیں معلوم کہ ہماری اشرافیہ اور مقتدر طبقہ میں اس عوامی احتجاج پر کوئی پریشانی پائی جا رہی ہے یا نہیں، سو سال پہلے جنوبی پنجاب کے بلوچ سرداروں کی طرح انہیں بھی یہ خدشہ لاحق تو نہیں کہ اگر عوام کا یہ ایک مطالبہ مان لیا گیا تو وہ مستقبل میں دیگر باتیں بھی منوائیں گے؟ ہمارے مقتدر طبقات کو پریشان ہونا چاہیے۔ عوام اس بار واقعی جارحانہ موڈ میں ہیں۔ لوگوں میں ایسا غصہ عرصے بعد نظر آیا۔ عام آدمی مشتعل ہو کر باہر نکل آیا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق اس کی بس ہوگئی ہے۔ کمرٹوٹ گئی اور اب وہ مزید تنکے کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا۔
نگران وزیراعظم اور کابینہ کل سے اس پر غور کر رہی ہے، ماہرین، مشیر وغیرہ حساب کتاب لگا کر مشورے دے رہے ہوں گے۔ ہمارے ہاں ایوان اقتدار میں بڑے بڑے کاریگر اور چالاک معاملہ فہم موجود ہیں، یقینی طور پر ایسے مشورے دئیے جا رہے ہوں گے جن سے اشرافیہ کے اللے تللوں پر بھی فرق نہ پڑے اور عوام بھی کچھ دیر کے لئے مزید بے وقوف بن جائیں۔ مفت مشورہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ معاملات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اب اسپرین سے کینسر کے مریض کا علاج نہیں ہوسکتا۔ بڑی سرجری ضروری ہے۔
نگران حکومت کا مینڈیٹ صرف روزمرہ کے معاملات نمٹانا ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کرائے گا، آئین کے مطابق نگران حکومتیں صرف سہولت کار ہوں گی۔ اس اعتبار سے وہ کوئی بڑا قدم اٹھانے کے مجاز نہیں ہیں، مگر جو غیر معمولی حالات ہیں، ان میں یہ وفاقی نگران حکومت اگر کچھ اچھا کر جائے گی تو تاریخ میں اس کا نام درج ہوجائے گا۔
سب سے اہم کام جو یہ کر سکتے ہیں، وہ مفت بجلی کے یونٹ اور مفت پٹرول کی سہولت کا خاتمہ ہے۔ ایک اصول بنا لینا چاہیے کہ کسی بھی عہدے یا گریڈ کے افسر کو ایک یونٹ بھی مفت بجلی نہیں ملے گی، ایک لیٹر بھی فری پٹرول نہیں ملے گا۔ وہ جج ہوں، سول ملٹری کے اہلکار، افسر ہوں یا پارلیمنٹرین وغیرہ۔ کسی کو کوئی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ عام آدمی کو پتہ چلے کہ اگر ملک میں بحران ہے، پٹرول کی قلت ہے، بجلی کے مسائل ہیں تو ان کے بڑے، طاقتور لوگ بھی ان کے ساتھ ایک ہی جگہ پر کھڑے ہیں۔
ہم اپنی عادت کے مطابق واپڈا کا نام ہر جگہ لے لیتے ہیں، حالانکہ اب پچھلے پندرہ برسوں سے واپڈا صرف دریائوں، پہاڑی ندی نالوں سے بجلی ہی بنا رہا ہے۔ باقی بجلی سے اس کا کوئی تعلق نہیں، میٹر ریڈنگ کے مسائل ہیں یا پھر کنڈا لگا کر بجلی چوری کرنا یا کچھ اور یہ سب واپڈا کے دائرہ کار سے باہر کی باتیں ہیں۔ ان سب کے لئے ڈسکوز (لیسکو، میپکو، پیسکو وغیرہ)ہیں یا کراچی میں کے الیکٹرک۔ کہا جاتا ہے کہ واپڈ ااپنے افسروں، اہلکاروں کو جو فری یونٹ دیتا ہے، اس کے عوض وہ ان ڈسکوز کو ادائیگی کرتا ہے۔ ایسا اگر واقعی ہے تو پھر یہ مختلف صورتحال ہے۔ بہرحال اصل بات یہ ہے کہ طے ہوجائے کہ کسی کو مفت بجلی ملے گی نہ مفت پٹرول۔ وہ صدر ہو، وزیراعظم یا کسی بھی عہدے پر فائز افسر، اہلکار۔ اگر نگران حکومت یہ کر جائے تو پھر آنے والی حکومت کے لئے اس کی پیروی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہے گا۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی اپنے ایک تہلکہ خیز ٹی وی انٹرویو میں بہت سے انکشافات کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ جب جنوبی پنجاب کے ایک زمیندار کو نوٹس دیا تو پینتالیس ارکان اسمبلی احتجاج کے لئے آ گئے، ان میں تمام جماعتوں کے لوگ تھے، مجبور ہو کر انہیں نوٹس واپس لینا پڑا۔ اسی طرح صوابی وغیرہ میں تمباکو کی فیکٹریوں پر ٹیکس کا معاملہ تھا۔ جمرود میں کام کرنے والی سٹیل رولنگ ملز کی بھی یہی صورتحال تھی، پراپرٹی کے حوالے سے ٹیکس لگانے کی بات کی گئی تو اعلیٰ ترین سطح پر شکایت کی گئی۔ موجودہ نگران حکومت پر ایسا کوئی سیاسی دبائو نہیں، ان کی حکومت گرنے کا بھی اندیشہ نہیں۔ کیوں نہ یہ سب اقدامات نگران کر جائیں؟ آگے بڑھنے کے لئے کم از کم ایک بنیاد، پہلا پتھر تو رکھا جائے۔
بجلی کے بلوں کو جس طرح حکومتیں ٹیکس جمع کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں، وہ بھی ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ اگر صارفین سے بجلی کی حقیقی قیمت وصول کی جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اب تو یہ ہور ہاہے کہ پندرہ ہزار بجلی کی حقیقی قیمت ہے تو آٹھ دس ہزار ٹیکس ہوجاتے ہیں۔ اس میں کمی آنی چاہیے۔ اگر یونٹ کی قیمت کم نہیں ہوتی تو کم از کم جی ایس ٹی اور ظالمانہ فنانشنل کاسٹنگ سرچارج (FC-SUR)تو ختم یا کم ہونے چاہئیں۔ اگر یہ ظالمانہ ٹیکس کم ہوجائیں تو بل کا بوجھ کچھ تو کم ہوجائے گا۔
آئی پی پیز سے کیپیسٹی چارجز کے حوالے سے بھی مذاکرات ہونے چاہئیں، جو آئی پی پیز 1994میں بنی تھیں، ان کے معاہدے چار سال بعد ختم ہوجائیں گے، ان سے تو کچھ رعایت لی جاسکتی ہے، پچھلے تیس برسوں سے وہ خون چوس رہی ہیں، آخری تین چار برسوں ہی میں کچھ رعایت دے دیں۔