میر ہزار خان مری ممتاز بلوچ جنگجو تھے، انہوں نے بھٹو دور میں بلوچستان کے فوجی آپریشن کے بعد مسلح جدوجہد کاراستہ اپنایا اور مری قبیلے کے سردار نواب خیر بخش مری کے ساتھ افغانستان چلے گئے تھے۔ ستر اور اسی کے عشرے کے چند سال وہ پاکستانی فورسز سے نبرد آزما رہے۔ اس دوران انہوں نے افغانستان میں تب کی کمیونسٹ افغان حکومت اور ان کے سرپرست کمیونسٹ روس کے ایما پر پاکستان مخالف بے شمار عسکری کارروائیاں کیں۔ سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد بھی یہ لوگ جنرل نجیب حکومت کی مدد سے افغانستان مقیم رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹوجب وزیراعظم تھیں تو انہوں نے ان ناراض بلوچوں کو واپس بلانے کی کوشش کی، ان سے مذاکرات کئے، عام معافی کا اعلان کیا اور نواب خیر بخش مری اور دیگر مری کمانڈروں سمیت ہزاروں جنگجوؤں کی واپسی کی راہ ہموار کی۔ ہزار خان مری نے واپسی پریوں ہتھیار رکھے کہ بعد میں تمام تر ترغیب کے باوجود وہ ریاست کے خلاف کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہوئے۔
میر ہزار خان سمجھ چکے تھے کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا عقلمندی نہیں اور مسائل حل کرانے کا یہ طریقہ نہیں۔ حتیٰ کہ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد جب نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے بالاچ مری مسلح مزاحمت کی طرف گئے اور بگٹی، مری جنگجووں نے شورش کا راستہ اختیار کیا، تب بھی ہزار خان مری نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ انہوں نے بہت سوں کو ریاست سے بغاوت کرنے سے روکا۔
"میرہزار خان مری، مزاحمت سے مفاہمت تک"دراصل اس پورے عہد کی قلمی تصویر ہے۔ دو سو باسٹھ صفحات پر مشتمل یہ اہم اوردلچسپ کتاب ایک طرف مری قبیلے کے ایک بڑے جنگجو کی زندگی کی کہانی سامنے لاتی ہے، دوسری طرف اس سے پتہ چلتا ہے کہ ستر اور اسی کے عشرے میں کمیونسٹ افغانستان اور تب کی روسی خفیہ تنظیم کے جی بی اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں کس طرح پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچ قبائلی نظام، اس کی داخلی دنیا، پیچیدگیاں اور بلوچ سرداروں کے معاملات، مقامی کلچر، رسم ورواج وغیرہ بھی سمجھ آتے ہیں۔
قاری کو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کئی بار سرداری نظام ختم ہونے کے باوجود بلوچ معاشرے اور قبائل سے سردار ختم یا غیر اہم نہیں کئے جا سکے۔ یہ کتاب ان تمام پہلوؤں کو عمدگی سے بیان کرتی ہے۔ معروف صحافی، مصنف اورایڈیٹرعمار مسعود اس کے مصنف ہیں، جبکہ تحقیق خالد فرید کی ہے۔ خالد فرید فورسز کاحصہ رہے، بہت عرصہ انہیں بلوچستان میں تعینات رہنے کا موقع ملا، وہ علاقے اور وہاں کے لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ میر ہزار خان مری مرحوم سے بھی خالد فرید کا قریبی تعلق رہا، ان کے ساتھ بہت سی نشستیں رہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ میر ہزار خان (جو اپنے چاہنے والوں میں وڈّو کے نام سے مشہور تھے)سے بہت قریب رہے۔
میر ہزار خان کے ایک پوتے بیورغ مری کا اس کتاب کو لکھوانے میں اہم کردار رہا ہے، ان کے بقول خالد فرید ان سب سے زیادہ ان کے دادا میر ہزار مری کو جانتے ہیں۔ مری قبیلہ بلوچستان کا معروف اور اہم قبیلہ ہے، مری جوان اپنی دلیری، سخت کوشی اور لڑائی کی صلاحیت میں مشہور ہیں۔ انگریز دور میں بھی مری بلوچ مزاحمت کرتے رہے، پاکستان کے بعد جتنے آپریشن ہوئے، ان سب میں مری جنگجو نمایاں رہے۔ مری قبیلے کی تین بڑی شاخیں ہیں، گزینی، بجارانی، لورانی۔ یہ تین شاخیں آگے مزید ذیلی قبائلی شاخوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ مری قبیلے کا نواب ایک عرصے سے گزینی شاخ سے چنا جاتا ہے، نواب خیر بخش مری گزینی مری تھے، آج کل نواب ان کے صاحبزادے جنگیز مری ہیں۔
میر ہزار خان کا تعلق بجارانی قبیلے سے تھا یعنی وہ میرہزار خان بجارانی مری تھے، درحقیقت وہ بجارانی قبیلے کی ذیلی شاخ رامکانی کے سربراہ تھے۔ میر ہزار خان کے والد میر گلا خان مری بھی ایک بڑی شخصیت تھے۔ وہ مری قبیلے کے مخدم تھے، قبائلی سیٹ آپ میں یہ ایک طرح سے سیکنڈ ان کمانڈ ہوتا ہے اور تمام ترجنگی معاملات اسی نے دیکھنے ہوتے ہیں۔ میر گلا خان نیک آدمی تھے اور قبیلے میں ان سے کرامات کے کئی واقعات منسوب کئے جاتے ہیں۔
میر ہزار خان مری نے اپنے والد کی لیگیسی آگے بڑھائی۔ ہزار خان روایت کے آدمی تھے، ہمیشہ روایتی بلوچ لباس زیب تن کیا، روایتی پگڑی، چھلا داڑھی اور تمام تر بلوچ رسم ورواج کی پابندی۔ وہ نواب خیر بخش مری کے مخدم تھے اور ہر مشکل اور کٹھن مرحلے میں نواب خیر بخش کے ساتھ رہے۔ مری قبیلے کے تین لوگ اس زمانے میں مشہور ہوئے، نواب خیر بخش، میر ہزار خان اور میر شیر محمد مری عرف جنرل شیروف۔ افغانستان میں یہ تینوں طویل عرصہ مقیم رہے۔ وہاں پر بعض معاملات ایسے ہوئے جن کے باعث نواب خیر بخش اور میر ہزار خان میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ ایسی دوری آئی جو آخر تک قائم رہی۔
شیرمحمدمری بھی علیل ہوگئے اور آخری برسوں میں غیر فعال رہے۔ میر ہزار خان نے اپنی زندگی کے آخری بیس برس ریاست کے ساتھ وفاداری نبھائی، اپنے لوگوں کے مسائل کے لئے بات ضرور کی، مگر پرامن طریقے سے۔ میر ہزار خان مری کو کامیابی ہوئی، انہوں نے اپنے علاقے کے لئے بہت سے کام کرائے، ایک ہزار مری جوان لیویز میں بھرتی ہوئے، ترقیاتی کام ہوئے، کیڈٹ کالج منظور کرائے اور بھی بہت کچھ علاقے میں ہوا۔
اس کتاب کی خاص بات مصنف عمار مسعود کی قلمی دیانت اور غیر جذباتی معروضی انداز میں حقائق بیان کرنا ہے۔ اس کتاب کو بعض حلقوں نے متنازع بنانے کی کوشش کی۔ میرا خیال ہے کہ پڑھے بغیر ایسا کیا گیا۔ یہ کتاب میر ہزار خان کی وفات کے کئی برس بعد لکھی گئی، مگر اس مقصد کے لئے ان کے اہل خانہ، بھائی، بھیتجے، پوتوں، باڈی گارڈز اور قریبی ساتھیوں کے انٹرویوز کئے گئے۔ کڑی سے کڑی جوڑی گئی اور دیانت داری کے ساتھ۔
ہزار خان مری کے نواب خیر بخش سے اختلافات رہے تھے، نواب خیر بخش مری اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک ناپسندیدہ شخصیت تھے، مگر اس کتاب میں خیر بخش مری کو ولن نہیں بنایا گیا۔ ان کے مثبت پہلو بھرپور انداز میں موجود ہیں، کسی بات کو چھپایا یا دبایا نہیں گیا۔ ہزار خان مری کے ساتھ نواب خیر بخش مری کی مضبوط شخصیت کی جھلک بھرپور انداز میں سامنے آتی ہے۔ صرف یہی اس کتاب کے قابل اعتبار ہونے کے لئے کافی ہے۔ مجھے بلوچ قبائل، سرداروں کا طرز، خاص کر ہزار خان مری کی مہمان نوازی، دریادلی اور اپنے جوانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی ادا اچھی لگی۔ وہ یقینا ایک بڑے آدمی تھے۔
افغانستان کی سرزمین جس طرح کمیونسٹ افغانستان دور میں پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی، جیسے شدومد کے ساتھ بھارتی ایجنسی را ان بلوچ جنگجوؤں کو پاکستان دشمن پالیسی پر اکساتی اور ترغیب دیتی رہی، اسے پڑھ کر آج کل کے حالات کو سمجھنا مشکل نہیں لگتا۔ اندازہ ہوجاتا ہے کہ آج کل بھی بلوچستان میں کس طرح معاملات پیچیدہ اور خراب کئے جا رہے اور غیر ملکی ہاتھ کیسے اس سب میں شامل ہوں گے؟
اس کے ساتھ یہ بھی خیال آتا ہے کہ میر ہزار خان مری جیسے محبت وطن بلوچ سرداروں سے کماحقہ فائدہ اٹھانا چاہیے اوروہ غلطیاں نہ کی جائیں جو ماضی میں ہوئیں۔ یہ خوبصورت کتاب سنگ میل پبلشرز لاہور نے شائع کی ہے۔ مصنف عمار مسعودنے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ یہ اہم اور وقیع علمی کام کیا ہے۔ اسے سراہنا چاہیے۔