یہ لیجنڈری صحافی، ادیب شورش کاشمیری کی ایک کتاب کا نام ہے۔ شورش کو ایوب خان دور میں اپنی حق گوئی اور جرات کی بنا پر زنداں میں ڈالا گیا، وہ 232دن قیدوبند کی صعوبتیں اور تکالیف برداشت کرتے رہے۔ حکومتی سختیوں اور مظالم پر انہوں نے بھوک ہڑتال کردی، ان کی حالت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ خبر پھیل گئی دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ کئی گھنٹے کوما میں رہے۔ زندگی باقی تھی، رب نے کرم کیا۔ ڈاکٹر نے ان کی اہلیہ کو کہا کہ تمہارے خاوند کی موت سے واپسی ہوئی ہے۔ کتاب کانام اسی حوالے سے رکھا گیا۔
دو سو چالیس صفحات کی یہ کتاب ان کی اسیری کی داستان ہے۔ اس میں بہت کچھ نظر آتا ہے۔ حکومت اور حکمرانوں کی غلط تدبیر، الطاف گوہر جیسے ایوب حکومت کے نادان دوست، بیوروکریسی کے کئی نالائق لوگ اور سنگدل پولیس افسران۔ شورش کاشمیری کی جرات، دلیری اور عزیمت کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں، وہ ایک کوہ استقامت تھے۔ ان کی جرات اور مضبوطی مثال بن چکی ہے۔ اس نہایت دلچسپ کتاب میں یہ تمام شیڈز ملتے ہیں۔ علامہ عبدالستار عاصم نے قلم فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے یہ کتاب شائع کی ہے بلکہ یہ نوید بھی سنائی کہ وہ جناب شورش کی تمام تصانیف دوبارہ سے چھاپنے لگے ہیں۔ یہ کتاب گزشتہ روز مجھے جناب مسعود شورش کے دستخط کے ساتھ ملی۔ ایک ہی نشست میں اس دلچسپ کتاب کے بیشتر حصے پڑھ لئے۔
ایک باب میں شورش صاحب نے چٹان کے ایک اداریہ کا ذکر کیا، جو دس اپریل 1967کو شائع ہوا۔ اس کا عنوان تھا"چارہ کار"۔ اس اداریہ میں دلچسپ واقعہ بیان کیاجو پڑھنے اور غور کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شورش لکھتے ہیں: " یونان کا ایک نامور فلسفی جب عوام کی ناقدری سے عاجز آ گیا اور اس نے محسوس کیا کہ اس کے فکر ونظر اور علم وحکمت پر لوگ توجہ نہیں دیتے بلکہ مذاق اڑاتے ہیں، اس پر پتھرائو کرتے ہیں تو اس نے دشنام واتہام سے تنگ آ کر رقص وسرود کا ایک طائفہ بنایا۔ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر ڈھول گلے میں ڈالا، چہرے پر بھبھوت مل لی، ہاتھوں میں کنگن ڈال لئے، گانے بجانے کا سوانگ رچایا اور پاگلوں کی طرح بازاروں میں ناچنے لگا۔ وہ رقص وغنا کے ابجد سے بھی واقف نہ تھالیکن رسمی دانشوروں نے اسے سر پر اٹھا لیا۔ اس کے رقص پر محاکمہ ہونے لگا کہ اس فن میں اس نے نئی راہیں نکالیں ہیں۔ تب پاگل تھا، اب مجتہد ہے۔
"جب یونان میں اس کے نئے روپ کا شہرہ عام ہوگیا تو اس نے اعلان کیا کہ فلاں دن وہ اوپن ائیر تھیٹر میں اپنے طائفہ سمیت رقص وسرود کے نئے انداز پیش کرے گا۔ تمام ایتھنز ٹوٹ پڑا۔ اس نے وہاں رقص کا نیا انداز پیش کیا۔ سرتاپا دیوانہ ہوگیا۔ ناچ نہیں جانتا تھا، لیکن پاگلوں کی طرح ناچتا رہا۔ عوام وخواص اور امرا وشرفا لوٹ پوٹ گئے۔ جب وہ تھک گیا اور محسوس کیا کہ جولوگ اس کے سامنے بیٹھے ہیں، اس کی مٹھی میں ہیں تو یکایک سنجیدہ ہو کر کہا، "یونان کے بیٹو، میں تمہارے سامنے علم ودانائی کی باتیں کرتا رہا۔ میں نے تمہاری برتری کے لئے فکر ونظر کے موتی بکھیرے۔ تم نے میری باتیں سننے سے انکار کر دیا۔ میرا مذاق اڑایا۔ مجھے گالیوں سے نوازا۔ پتھرائو کیااور خوش ہوتے رہے۔ تم نے حق وصداقت کی ہر بات سننے سے انکار کر دیا۔ مجھے پاگل قرار دے کر خود پاگلوں کی سی حرکتیں کرتے رہے۔ تم نے اپنے دماغ حکمرانوں کے پاس رہن رکھ دئیے۔ تمہارے جسموں کی طرح تمہاری عقلیں بھی امرا وحکام کی جاگیر ہوگئی ہیں۔
"میں عاجز آگیا تو میں نے یہ روپ اختیار کیا۔ میں فلسفی کی جگہ بھانڈ ہوگیا۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ ناچ کیا ہوتا ہے اور گانا کسے کہتے ہیں، لیکن تم نے میرے اس بھانڈ پن پر تحسین وستائش کے ڈونگرے برسائے۔ پہلے تم میں سے چار آدمی بھی میرے گرد جمع نہیں ہوتے تھے، آج انسانوں کا جم غفیر میرے سامنے بیٹھا ہے۔ گویا تم نے مٹ جانے والی قوم اور ایک فنا ہوجانے والے معاشرے کی تمام نشانیاں قبول کر لی ہیں۔ تم ایک انحطاط پزیر ملک کی علیل روحوں کا انبوہ ہو۔ تم پر خدا کی پھٹکار ہو، تم نے دانائی کو ٹھکرایا اور رسوائی پسند کی۔ تم خدا کے غضب سے کیونکر بچ سکتے ہو کہ تمہارے نزدیک علم ذلیل ہوگیا ہے اور عیش شرف وآبرو۔ جائو میں تم پر تھوکتا ہوں۔ میں پہلے بھی پاگل تھا، آ ج بھی ہوں۔ "
"جب علم ونظر اور فکر ومعروف کو یہ مرحلہ جانکنی پیش آ جائے۔ خوشامد کا بول بالا ہواور حکمت ودانائی احمقوں کے گھرانے میں چلی جائے اور وہ اپنے دماغ کی علالت کو صحت کا نام دینے لگیں۔ علم کے مالک جاہل، ادب کے اجارہ دار گائودی، سیاست کے متولی کاسہ لیس اور دین کے مسند نشین بکائو ہوجائیں تو اس فضا میں یونان کے فلسفی کی طرح پاگل ہو کر ناچنا بھی عین عبادت ہے اور نہیں تو اس سے خدا کا غضب ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ وما علینا الاالبلاغ"۔
شورش کاشمیری کا یہ اداریہ ظاہر ہے حکمرانوں اور اشرافیہ کو کہاں پسند آنا تھا، مگر اس میں قانونی پکڑ کہیں نہ تھی۔ انہوں نے ایک اور واقعہ بھی لکھا، حجاج بن یوسف کے دور کا ہے۔ شورش لکھتے ہیں: "حجاج بن یوسف اپنے مصاحبوں کے ساتھ گھوم پھر رہا تھا۔ اس نے ایک راہ گیر سے پوچھا، "تمہارا حجاج کے بارے میں کیا خیال ہے۔ "راہ گیرنے کہا، "صاحب کچھ نہ پوچھئے، وہ پرلے درجے کا سفاک انسان ہے۔ " حجاج نے ساتھیوں سے کہا کہ اسے ساتھ لے لو۔ وہ ساتھ لے کر چلے تو راہ گیر نے پوچھا، یہ کون ہے؟ انہون نے بتایا، حجاج بن یوسف۔ وہ غریب یہ سن کر بھونچکا رہ گیا۔ اس نے فوراً ہی آگے بڑھ کر کہا، امیر! میں مہینے میں تین دن پاگل ہوجاتا ہوں۔ آج میرا پہلا دن ہے۔ حجاج بن یوسف مسکرایا اور مصاحبوں سے کہنے لگا، اسے چھوڑ دو۔ اس راہگیر کو چھوڑ دیا گیا، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا نودو گیارہ ہوگیا۔ (اس واقعے کے بعد شورش لکھتے ہیں) بالفاظ دیگر کلمہ حق یوں بھی کبھی ادا ہوجاتا اور انسان قہر وغضب کے مجسموں سے محفوظ بھی رہ جاتا ہے"۔
شورش کاشمیر ی کی اس کتاب میں صرف ایسی دلچسپ حکایات اور واقعات ہی نہیں ملتے، ان کی اسیری کے واقعات، اس پر آنے والا عوامی ردعمل، بیوروکریسی اور پولیس کا طرزعمل اور اس زمانے کی پوری سیاسی تاریخ بھی سامنے آ جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر شورش کی سحرانگیزنثر ملتی ہے جو اپنی جگہ کسی سوغات سے کم نہیں۔ قلم فائونڈیشن، لاہور سے یہ کتاب لی جا سکتی ہے۔