نوشاد کی آپ بیتی کا تذکرہ چل رہا ہے، پچھلی نشست میں ذکر ہوا کہ فلم مغل اعظم کا بجٹ اتنا زیادہ اوور ہوگیا کہ فلمساز اور فنانسر شاہ پورجی نے فیصلہ کر لیا کہ ڈائریکٹر کے آصف کی جگہ کسی اور کو یہ ذمہ داری سونپی جائے تاکہ وہ فلم کم بجٹ میں مکمل کرکے ریلیز کرے، کچھ پیسہ تو واپس آئے۔ دراصل فلمساز کو لوگوں نے یہ کہہ کر بھڑکایا کہ کے آصف تمہارے لاکھوں روپے برباد کر رہا ہے اور اس نے شیش محل کا جو سیٹ لگایا ہے، اس میں اتنے شیشے لگ گئے ہیں کہ فوٹوگرافی ممکن ہی نہیں۔ اس سیٹ پر فلم کا گیت پکچرائز ہو ہی نہیں سکتا۔ شاپور جی اتنا تنگ آ گیا کہ اس نے مشہور ڈائریکٹر سہراب مودی کو ساتھ لیا اور اگلے روز مغل اعظم کے سیٹ پر پہنچ گیا۔
شاہ پور جی نے کے آصف کو نظرانداز کیا اور سہراب مودی کو سیٹ دکھاتا رہا۔ آخر کے آصف خود اٹھ کر پاس آئے تو فلمساز بولا، اب میری فلم یہ (سہراب مودی)بنائے گا، تیرے ساتھ میرا کوئی واسطہ نہیں۔ کے آصف بڑے پرعزم اور وژنری آدمی تھے، وہ مغل اعظم کی شکل میں ایک کلاسیک فلم بنانا چاہ رہے تھے، ایسی جو آنے والے عشروں تک یاد رکھی جائے۔ کے آصف نے فلمساز کی بات سن کر بھنا کر جواب دیا، "سیٹھ، تمہاری مرضی ہے، مگر یہ میرا سیٹ ہے، اس پر کام میں ہی مکمل کروں گا، باقی فلم جس سے مرضی بنوا لو، اس سیٹ پر کوئی اور ڈائریکٹر آیا تو میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا"۔
کے آصف کا کہنا تھا کہ پوری فلم انڈسٹری کہہ رہی ہے کہ شیش محل کا جوسیٹ میں نے بنوایا ہے، اس پر پکچرائزایشن نہیں ہوسکتی، تو یہ میرے وقار کا مسئلہ بن گیا ہے۔ خیر نوشاد کی مداخلت سے شاہ پورجی نے اس گانے کے لئے کے آصف کو مہلت دے دی۔ اگلے دن اس کے شاٹس لندن بھیجے گئے، ٹیکنی کلر والوں نے ٹیلی گرام دیا کہ بہترین رزلٹ آیا ہے۔ بعد میں فلمساز شاہ پورجی بھی شیش محل کے پوری سیٹ کی شوٹنگ کی فلم دیکھ کر خوش ہوگیا۔
فلم کے اس سیٹ پر پکچرائز ہونے والے گانے کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ گیت لکھنے کے لئے شاعر شکیل بدایونی اور نوشاد تمام رات کمرے میں بند ہو کر غور کرتے رہے، بہت سے مصرعے لکھے گئے، کاغذکی پرچیوں کے ڈھیر لگ گئے، مگر دل مطمئن نہیں ہوا۔ نوشاد کو ایک پراناپوربی بھاشا کے گیت کا مکھڑا یاد آیا، "پریم کیا کا چوری کری "، نوشاد نے وہ شکیل بدایونی سے شیئر کیا تو انہیں بھی بھا گیا۔ نوشاد نے ہارمونیم پر اس کی طرز بنی اور شکیل صاحب نے گیت لکھا، "پیار کیا تو ڈرنا کیا، پیار کیا کوئی چوری نہیں کی۔ "مکھڑا بن گیا، دو انترے بھی لکھے گئے، تیسرے پر بات الجھ گئی۔ اس گانے میں انارکلی اکبر بادشاہ کے سامنے رقص کررہی تھی، ملکہ جودھا بائی اور شہزادہ سلیم بھی موجود تھے۔ اس سے پہلے شہزادہ سلیم انارکلی پر ناراض ہوچکا تھا، اس کا خیال تھا کہ اکبر بادشاہ کے خوف سے رقاصہ انارکلی ڈر کر اس کی محبت سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اس گانے میں دراصل انارکلی نے اکبر بادشاہ کو جواب دیا اور بالواسطہ شہزادہ سلیم کو بتایا کہ وہ اپنی محبت میں ڈٹی ہوئی ہے۔ نوشاد کا خیال تھا کہ ایسے مصرعے ہوں جن سے اکبربادشاہ کو غصہ آئی، مگر بات شائستگی سے کہی جائے۔ آخر یہ مصرعے لکھے گئے۔:
آج کہیں گے دل کا فسانہ
جان بھی لے لے چاہے زمانہ
پردہ نہیں جب کوئی خدا سے
بندوں سے پردہ کیا کرنا
ایک روز ہدایتکار کے آصف نے نوشاد سے کہا کہ میں چاہتا ہوں اکبر کے گائیک تان سین اپنے برج میں بیٹھے کوئی راگ گا رہے ہیں۔ آپ کوئی راگ بنائیں۔ نوشاد نے جواب دیا، راگ تو بن جائے گا، مگر تان سین کا یہ سین آج کا تان سین (استاد بڑے غلام علی خان)گائے تب بات بنے گی۔ کے آصف نے کہا کہ میں انہیں منا لوں گا۔ نوشاد نے استاد بڑے غلام علی خان سے وقت لیا اور دونوں پہنچ گئے۔ استاد نے ان کی فرمائش سنی اور معذرت کر لی کہ میں فلموں کے لئے نہیں گاتا، وہاں پابندیاں بہت ہوتی ہیں۔ کے آصف نے اپنے مخصوص انداز میں چٹکی بجائی اور کہا، گانا تو آپ ہی گائیں گے؟ استاد بڑے غلام علی خان خفا ہوئے کہ یہ کون چغد ہے۔
کچھ دیر تکرار چلی پھر استاد نوشاد کو باہر لے گئے اور کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں، میں ایسی فرمائش رکھتا ہوں کہ یہ خود انکار کر دے۔ استاد بڑے غلام علی خان نے کے آصف سے کہا کہ میں اس شرط پر گائوں گا کہ مجھے پچیس ہزار روپے اس ایک گیت کے دئیے جائیں۔ یاد رہے کہ تب بڑے سے بڑے گائیک کو ایک گانے کا تین سو روپے سے ہزار روپے تک معاوضہ دیا جاتا تھا۔ کے آصف نے ترنت جواب دیا، صرف پچیس ہزار؟ ٹھیک ہے، میں دوں گا۔ استاد بڑے غلام علی خان کے پاس راضی ہونے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
نوشاد بتاتے ہیں کہ استاد نے پہلے دن شوٹنگ رکوا دی، کہا کہ پہلے مجھے فلم کا سین دکھایا جائے۔ دوسرے دن ریکارڈنگ رکھی گئی، فلم کے مناظر دکھائے گئے، استاد بڑے غلام علی خان اس میں گم ہوگئے۔ طبلے پر نظام الدین سنگت دے رہے تھے، خان صاحب بار بار اس سے کہتے، نظام الدین! کتنی خوبصورت لونڈیا ہے۔ ان کا اشارہ ہیروئن مدھوبالا کی طرف تھا۔ فلم میں ایک اور سیچوئشن ایسی نکلی کہ شہزادہ سلیم جنگ سے جیت کر واپس آ رہا ہے، محل میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ کے آصف نے سوچا کہ اس موقعہ پر بھی تان سین کی آواز میں پس منظر میں گانا ہو۔ استاد بڑے غلام علی خان سے پھر رابطہ کیا گیا، انہیں ایک بار پھر پچیس ہزار روپے معاوضہ دیا اور انہوں نے وہ گیت بھی گا دیا۔ فلم میں بعض ایسے گیت بھی ریکارڈاور پکچرائز کرائے گئے جنہیں بعد میں فلم کی طوالت کے پیش نظر ریلیز کے وقت شامل نہیں کیا گیا۔ دو گیت فلم ریلیز کرنے کے کچھ عرصہ بعد فلم میں شامل ہوئے اور بہت سے لوگ ان دو گیتوں کو دیکھنے پھر سے سینما آئے۔
مغل اعظم فلم ساوتھ انڈیا کی بڑی زبان تامل میں بھی بنی۔ تامل ڈائیلاگز کے لئے تامل رائٹر کا انتظام کیا گیا۔ مغل اعظم کے گیتوں کا تامل میں ترجمہ کیا، نعت سرکار مدینہ کے ترجمہ میں البتہ سرکار مدینہ کے الفاظ ویسے رکھے گئے۔ محمد رفیع کو نوشاد نے تامل گیتوں کے لئے کہا تو انہوں نے معذرت کر لی کہ تامل میں زیر زبر نہیں ہے تو معمولی سی غلطی لفظ کو کیا سے کیا بنا دے گی۔
نوشاد نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ دلیپ کمار فلم کے ہیرو تھے، مگر اکثر انہیں یہ شکوہ رہتا کہ ان کے ڈائیلاگ پرتھوی راج (اکبر اعظم کا کردار)کے مقابلے میں دبے ہوئے ہیں۔ آخر ایک دن کے آصف نے صاف کہہ دیا کہ میں مغل اعظم بنا رہا ہوں جو دراصل اکبر بادشاہ ہے، میں سلیم اعظم فلم نہیں بنا رہا۔
مغل اعظم فلم کا اختتام وہی بنا جو امتیاز علی تاج نے ڈرامے کے آخر میں کیا یعنی انارکلی کو دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا۔ کے آصف مگر مطمئن نہیں ہوئے، وہ سوچتے رہے۔ نوشاد سے کہا کہ اگر یہ اینڈ کریں تو پھر اکبر تو ظالم بادشاہ ہوا، وہ اکبراعظم تو نہ بنا۔ کے آصف نے اختتام بدلنے کا سوچا۔ نوشاد نے کہا کہ لوگوں کو دھچکا لگے گا۔ کے آصف کا خیال تھا کہ میں جھٹکا ہی تو دینا چاہتا ہوں۔ کے آصف کے مطابق امیتاز علی تاج نے تاریخ تو نہیں لکھی، ڈرامہ ہی لکھا تھا۔ تاریخ وہ بھی نہیں اور تاریخ مغل اعظم کی کہانی بھی نہیں۔ تب فلم کا اختتام وہی کیا گیا جو آج اس فلم کو دیکھنے والے جانتے ہیں۔
نوشاد کے مطابق مغل اعظم اس وقت تک بننے والی ہندوستان کی مہنگی ترین فلم تھی، مگر وہ آج تک بنی ہوئی سب سے کامیاب فلم بھی ثابت ہوئی۔ ڈسٹری بیوٹرز کے پاس پیسہ نہیں بلکہ سونا برسنے لگا۔ یہ اور بات کہ مغل اعظم کا خالق کے آصف بدستور کرایے کے مکان میں رہا اور ٹیکسیوں ہی میں گھومتا رہا۔ فلم کا فنانسر شاہ پور جی نے ایک بار نوشاد کے سامنے اعتراف کیا تھا، " کے آصف نے میرے لاکھوں کروڑوں لگوا دئیے مگر سب کچھ فلم پر لگایا، اپنے لئے کچھ نہیں کیا۔ یہ آدمی ایماندار ہے، چٹائی پر سوتا ہے، سگریٹ دوسروں سے مانگ کر پتیا ہے۔ آج بھی اسے معاوضہ دوں تو دوسروں میں بانٹ دیتا ہے۔ "نوشاد نے جواب دیا، اگر کے آصف تجارتی ذہن کا ہوتا تومغل اعظم جیسی شاہکار فلم نہ بنتی۔