پاکستانی سیاست کی طرح پاکستانی کرکٹ بھی دائرے کے سفر میں ہے۔ ہر کچھ عرصے کے بعد گاڑی گھوم کر واپسی اسی جگہ پہنچ جاتی ہے۔ وہی مسافر جوتین چار سال پہلے اتر ے تھے یا جنہیں زبردستی اتار دیا گیا تھا، انہیں پھر سے پورے اہتمام کے ساتھ گاڑی میں سوار کرایا اور بہترین نشستیں دی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ اگلے دو تین برسوں میں پھر وہی کچھ دہرا نہ لیا جائے۔
خیر ایک بار پھر قومی کرکٹ میں یہی ہوا۔ کرکٹ بورڈ کے سربراہ اب زکا اشرف بن چکے ہیں۔ وہ پہلے بھی یہ ذمہ داری سنبھال چکے تھے۔ یہ ذمہ داری سنبھالتے ہی قومی ٹیم کے سابق کپتان، کوچ مصباح الحق کو کرکٹ ٹیکنکل کمیٹی میں شامل کیا اور اب مصباح کرکٹ بورڈ کے اہم فیصلے کر رہے ہیں۔ سلیکشن کمیٹی کا سربراہ پاکستان کے لیجنڈ بلے باز اور سابق کپتان انضمام الحق کو بنایا گیا ہے۔
کرکٹ ٹیکنیکل کمیٹی میں سابق آل رائونڈر کرکٹر محمد حفیظ بھی شامل ہیں۔ راشد لطیف سے بھی مشاورت کی گئی، انہیں شائد پیش کش بھی ہوئی مگر وہ کرکٹ بورڈ کے سیٹ اپ میں کوئی ذمہ داری سنبھالنے پر رضامند نہیں ہوئے۔ راشد لطیف کا ویسے بھی خاص مزاج ہے۔ اگر انہیں بہت اختیارات کے ساتھ کوئی طاقتور عہدہ ملے تو شائد رضامند ہوجائیں مگر وہ مکمل آزادی اور اختیار لینا چاہیں گے، معمولی سی مداخلت پران کی برہمی یقینی ہے۔ موجودہ سیٹ اپ میں مرکزی حیثیت مصباح الحق کو مل چکی ہے، راشد کو باقی ماندہ جگہ میں ایڈجسٹ ہونا پڑتا۔ ایسا کرنے کے لئے وہ شائد تیار نہیں۔
یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ صرف چند سال کے عرصے میں مصباح الحق اور انضمام الحق دونوں کو مختلف اوقات میں کرکٹ بورڈ لا اور پھرنجات پا چکا ہے۔ انضمام الحق مکی آرتھر کے ساتھ ہی ٹیم سے رخصت ہوئے تھے۔ دونوں کا عرصہ مناسب ہی رہا، اس دوران پاکستان نے چیمپینز ٹرافی جیتی، جس کی بڑی ہائپ بنی۔ البتہ 2019ورلڈ کپ میں پاکستان سیمی فائنل میں کوالیفائی نہ کر پایا۔ اس کے بعد ہیڈ کوچ مکی آرتھر بھی گئے اور انضمام الحق بھی اپنی مدت مکمل ہونے پر مستعفی ہوگئے۔ مکی آرتھر تو دوبارہ کوچ بننا چاہتے تھے اور نہ بنائے جانے پر خاصے خفا ہوئے۔ انضمام الحق نے برہمی کا مظاہرہ نہیں کیا، مگر انہیں بھی دوبارہ چیف سلیکٹر بنایا جاتا تو ظاہر ہے خوش ہی ہوتے۔
انضمام الحق کے بعد مصباح کو موقعہ ملا۔ پاکستانی تاریخ کے وہ طاقتور ترین ہیڈ کوچ تھے جنہیں ابتدائی چند ماہ چیف سلیکٹر کے اختیارات بھی حاصل تھے۔ یہ مصباح کا اپنا آئیڈیا تھا، نیوزی لینڈ کرکٹ کی طرز پر انہوں نے ایسا سوچا۔ پاکستان مگر نیوزی لینڈ نہیں۔ کرکٹ یہاں لوگوں کو جنون ہے اور ہر ایک کو صرف جیت چاہیے۔ مصباح اگر کوئی ایک عہدہ منتخب کرتے تو آسانی رہتی۔ ناکامی کی صورت میں بوجھ مساوی تقسیم ہوجاتا۔ مصباح کوآخر چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑنا پڑا، جس پر محمد وسیم فائز ہوئے۔
جب عمران خان نے رمیز راجہ کو چیئرمین کرکٹ بورڈ بنایا تو انہوں نے آتے ہی ایسی تھرتھلی مچائی کہ تب کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بائولنگ کوچ وقار یونس کو استعفا دینے میں عافیت نظر آئی، حالانکہ تب ورلڈ کپ صرف چند ہفتے دور تھا۔ رمیز بظاہر ان کوچز کے جانے پر خوش ہی ہوئے۔ ورلڈ کپ کے لئے قومی کرکٹ اکیڈمی سے ثقلین مشتاق کو بلا کر عبوری کوچ بنایا اور نامور آسٹریلوی کھلاڑی میتھو ہیڈن کو بیٹنگ کوچ بنا دیا۔ وہ ورلڈ کپ اور اس سے اگلے سال ہونے والے دوسرے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی ہیڈن ٹیم کے ساتھ رہے۔
وقت کی تیز رفتار ٹرین نے ایک اور موڑ کاٹا۔ عمران خان کی حکومت ختم ہوئی، چند ماہ بعد رمیز راجہ کو بھی جانا پڑا۔ نجم سیٹھی چیئرمین کرکٹ بورڈ بنے اور انہوں نے آتے ہی ایسی تیزی اور عجلت دکھائی کہ سابق چیئرمین اپنے دفتر سے اپنا ذاتی سامان بھی نہ لے جا سکے۔ رمیز راجہ ناراض ہو کر کرکٹ کمنٹری سے بھی منہ موڑ کر بیٹھ گئے۔ نجم سیٹھی نے ایک ناتجربہ کار، نالائق، نااہل بلے باز کی طرح بیٹنگ شروع کی، بے تکے ٹلے بازی۔ نت نئے تجربے کئے۔ محمد وسیم کواچانک فارغ کردیا۔ شاہد آفریدی کو چیف سلیکٹر بنایاا ور پھر شان مسعود کو زبردستی نائب کپتان بناکر کھلانے پر زور دیا۔ شاہد آفریدی نے یہ تیور دیکھے تو چند دنوں بعد معذرت کر لی۔ پھر پیرانہ سالی کے باوجود ہارون الرشید کویہ ذمہ داری دی۔
نجم سیٹھی نے ثقلین مشتاق کو بھی اپنی مدت مکمل کرنے سے پہلے ہی تنگ کیا۔ ہیڈ کوچ کے لئے وہ بڑے دعوے کرتے رہے مگر کوئی معروف غیر ملکی کوچ دستیاب ہی نہ ہوسکا۔ سیٹھی صاحب نے پھر عجیب وغریب فیصلہ کیا، مکی آرتھر کو پھر سے ہیڈ کوچ بنایا بلکہ ان کے لئے ایک اورڈائریکٹر ٹائپ عہدہ تخلیق کیا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ مکی آرتھر انگلش کائونٹی ڈربی شائر سے کئی سال کا بطور کوچ معاہدہ کر چکے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ پاکستانی کرکٹ کا کیا اعتبار، کس وقت کس کا سٹیشن آ جائے اور چھٹی کرا دیں۔
مکی نے کہا کہ میں ڈربی شائر سے معاہدہ تو نہیں ختم کر سکتا، البتہ کائونٹی سیزن ختم ہونے (اپریل سے ستمبر)کے بعد ٹیم کو جوائن کر لوں گا، تب تک آن لائن کوچنگ جاری رہے گی اورمیری جگہ پر فلاں فلاں کوچز ہوں گے۔ یہ بھی کہ ہر سال گرمیوں میں انگلینڈ رہ کر کائونٹی ٹیم کی کوچنگ ہوگی اور پاکستانی ٹیم کو آن لائن خدمات ملے گی۔ مکی آرتھر نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی(ہائی پرفارمنس سنٹر) میں کام کرنے والے ایک سابق کوچ بریڈبرن کو ہیڈ کوچ بنایا۔ جنوبی افریقی سابق بائولر مورکل کو بائولنگ کوچ جبکہ بیٹنگ کوچ کے لئے اسے چنا جس نے خود زندگی بھر میں ایک آدھ میچ ہی کھیلا اور اسے کوئی جانتا ہی نہیں۔
وقت کی ٹرین نے ایک بار پھر پٹری بدلی، تبدیلی بھی آئی اور اب نجم سیٹھی رخصت ہوگئے۔ زکا اشرف چیئرمین کرکٹ بورڈ ہیں، اوپر بتایا کہ انہوں نے مصباح الحق کو پھر سے اِن کرکے اپنا مرکزی مشیر بنا لیا ہے، انضمام الحق چیف سلیکٹر بن گئے۔ مزید تبدیلیاں بھی آتیں کیونکہ مصباح غیر ملکی کوچز کے مخالف ہیں، مگر چونکہ دو ہفتوں بعد ایشیا کپ ہے اور دو ماہ بعد ورلڈ کپ، اس لئے اس موقعہ پر تبدیلی لانا مناسب نہیں۔ اوپر سے پاکستان نے حالیہ ٹیسٹ سیریز میں سری لنکا کو وائٹ واش کر دیا اور انہی کوچز کی ٹیم کے ساتھ۔ مکی آرتھر اس ایشیا کپ میں بھی لگتا ہے آن لائن کوچنگ ہی کریں گے، البتہ وہ ورلڈ کپ سے پہلے قومی ٹیم کو جوائن کر لیں گے۔ ورلڈ کپ میں کارکردگی ہی ان کے اور باقی تینوں کوچز کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
چیف سلیکٹر انضمام نے گزشتہ روز افغانستان اور ایشیا کپ کے لئے قومی ٹیم کا اعلان کر دیا ہے۔ نوے فیصد کھلاڑی توقع کے عین مطابق ہیں۔ فخرزمان، امام الحق، عبداللہ شفیق (اوپننگ)جبکہ بابر اعظم، افتخار احمد، رضوان، سلمان آغا (مڈل آرڈر)اور بائولنگ میں شاہین شاہ، نسیم شاہ، حارث رئوف، وسیم جونئیر، سپن آپشنز میں شاداب خان، محمد نواز اور اسامہ میر ہیں۔ البتہ آل رائونڈر کے طور پر فہیم اشرف کو لیا گیا ہے، وہ دو سال پہلے آخری میچ کھیلے تھے۔ چیف سلیکٹر نے افغانستان کے خلاف سیریز کے لئے سعود شکیل کو بھی شامل کیا ہے، مگر ایشیا کپ کی ٹیم میں وہ نہیں۔ محمد حارث بھی متبادل وکٹ کیپر کے طور پر ساتھ ہیں۔
ان میں سے بیشتر کھلاڑی تو توقع کے مطابق ہیں، البتہ آل رائونڈ فہیم اشرف پر اعتراض یہ ہے کہ وہ دوسال پہلے کھیلے تھے تو اب کون سی ایسی غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہے کہ اچانک شامل کر لیا۔ اس کے بجائے عامر جمال کو موقعہ ملنا چاہیے تھا۔ اسی طرح بعض لوگوں کا وسیم جونئیر پر اعتراض ہے کہ ان کی جگہ پر زمان خان کو کھلایا جاتا یا احسان اللہ کو ڈالنے کابولڈ فیصلہ کرتے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ سپن آپشن میں ہمیں مسٹری سپنر ابرار احمد کو لے کر جانا چاہیے تھے۔ بہرحال مجموعی طور پر ٹیم سلیکشن بری نہیں۔ ورلڈ کپ میں بھی کم وبیش یہی ٹیم ہوگی، وہاں چونکہ ایک دو کھلاڑی کم لے کر جانے ہوں گے تو اسی حساب سے نسبتاً کمزور کھیلنے والا ڈراپ ہوجائے گا۔
دائرے کے سفر کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لانگ ٹرم پلاننگ نہیں ہوسکتی۔ جیسے پاکستان کے پاس غیر معمولی یا مسٹری سپنر نہیں۔ اس کے لئے دو سال پہلے سے تیاری کرنی چاہیے تھی۔ ہر ایک کو معلوم تھا کہ ورلڈ کپ بھارت میں ہے جہاں سپنرز کو مدد ملے گی۔ ابرار ایک اچھی آپشن ہوسکتی تھی، اگر اسے پچھلے ایک سال میں متواتر وائٹ بال کھلائی جاتی۔ آل رائونڈر کے طور پر اگر فہیم اشرف ہی کو لے کرجانا ہے تو اسے پچھلے چند ماہ میں ٹیم کے ساتھ رکھنا چاہیے تھا، نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز بھی کھلاتے۔
اس طرح کی طویل المدت منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے جو کمی اور خامیاں رہ جاتی ہیں، وہ ہمیں نمبر ون ٹیم نہ بنا سکنے کی بنیادی وجہ ہے۔ ہمارے پاس بے پناہ ٹیلنٹ ہے، مگر پلاننگ کی کمی ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کھلاڑی تیار نہیں کئے جاتے۔ اس بار بھی اگر سیکھ لیا جائے اور حکومتیں بدلنے سے کرکٹ مینجمنٹ پر فرق نہ پڑے، انہیں کم از کم چار برس ملیں اور طویل المدت حکمت عملی بنانے کی پوری آزادی ہو۔ ایسا اگر ہوسکے تو اس کے نتائج غیر معمولی نکل سکتے ہیں۔