لاہور میں صوبے بھر کے سرکاری ملازمین سراپا احتجا ج ہیں۔ گرم دنوں میں سینکڑوں، ہزاروں لوگ سول سیکریٹریٹ کے باہر کئی دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں، مگر ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ان کی بات سنی جا رہی ہے اور نہ ہی نگران حکومت اپنی زیادتی کا ازالہ کر رہی ہے۔ اس پر بات کرتے ہیں۔
آج کل پنجاب اور خیبر پختون خوا پر جو نگران حکومتیں مسلط ہیں، انہیں دیکھ کرایک تجزیہ کار دوست کی بات یاد آ جاتی ہے جو ہمیشہ نگران حکومتوں کے خلاف رائے رکھتے ہیں۔ ہمارے یہ دوست جینوئن دانشور ہیں، قدرے لوپروفائل رکھتے ہیں، مگران کی فکر میں کمال درجہ گہرائی اور گیرائی ہے۔ ان سے مختلف ایشوز پر گفتگو چلتی رہتی ہے، بعض امور پر بحث مباحثہ بھی۔ ان کی ایک رائے سے ہمیشہ اختلاف رہتا تھا، مگر اب کچھ عرصے سے قائل ہوچکا ہوں۔
ہمارے یہ دوست ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن کے لئے نگران حکومت بنانے کا تصور اور اس حوالے سے کی گئی قانون سازی بالکل غلط ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ پڑوسی ملک بھارت اور دنیا بھر کے بے شمار دیگر ممالک کی طرح روٹین ہی میں الیکشن ہونے چاہئیں، الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہو، وہ نظر رکھے کہ جس حکومت کی مدت ختم ہو رہی ہے، وہ دھاندلی نہ کرنے اور نہ ہی پری پول رگنگ وغیرہ کرے۔ اسکی وجہ یہ کہ نگران حکومت عوام کو جواب دہ نہیں۔ انہیں عوام سے کوئی سروکار نہیں، اسی وجہ سے اکثر بہت مشکل اور تکلیف دہ معاشی فیصلے نگران دور میں عوام پر مسلط کر دئیے جاتے ہیں۔ پھر بہت سے نگران وزرا وغیرہ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ایک ہی بار زندگی میں یہ موقعہ ملے گا، ان کے ترغیب وتحریص میں مبتلا ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ ہیں۔
برسوں سے اس رائے سے اختلاف کرتے رہے۔ لگتا تھا کہ ہماری سیاسی حکومتیں اتنی پختہ اور سمجھدار نہیں کہ وہ شفاف اور قابل اعتماد الیکشن کرا سکیں۔ ہماری بدقسمتی سے اب نگران حکومتیں بھی ایسی بننی لگی ہیں اور ان کی کارکردگی اتنی غیر تسلی بخش اور مایوس کن ہے کہ اس نگران حکومت والے پورے تصور پر سوالیہ نشان آ گیا ہے۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا کی موجودہ نگران حکومتوں کو لگتا ہے کسی نے بتایا نہیں کہ وہ صرف الیکشن کے لئے بنی ہیں۔ ان کا اصل مینڈیٹ الیکشن ہے اور نام نہاد اصلاحات لانا یا مختلف علمی، ادبی، سرکاری، نیم سرکاری اداروں میں تقرر کرنا کام نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ الیکشن کے سوا یہ ہر کام کرنے کو آئی ہیں۔ اگلے روز سینئر صحافی، اینکر حامد میر نے بھی یہی بات کہہ دی کہ نگران صوبائی حکومتیں لگتا ہے الیکشن کے سوا دیگرتمام کام کرنے آئی ہیں۔
پنجاب کی نگران حکومت چونکہ عوام کو جواب دہ نہیں، عوام تو ویسے ہی ان سے شدید نالاں اور بیزارہیں۔ عوامی ناپسندیدگی کا انہیں بخوبی اندازہ ہے، اس لئے یہ عوامی احساسات اور جذبات کو سمجھنے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش ہی سرے سے نہیں کرتے۔ البتہ اپنی امیج بلڈنگ کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیا جاتا۔ آج کل روزانہ میڈیا میں خبریں آتی ہیں کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کسی نہ کسی ہسپتال کا دورہ کرکے وہاں مسائل کا نوٹس لیتے اور مختلف افسروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ پنجاب کے بدنصیب عوام اس طرح کے ڈرامے شہباز شریف صاحب کے دور وزارت اعلیٰ میں بے شمار بار دیکھ چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کسی ہسپتال پر چھاپہ کیوں مارے؟ یہ اس کا کام ہی نہیں۔ محکمہ صحت پنجاب میں ہزاروں ملازمین اور سینکڑوں افسران موجود ہیں۔ ایسے افسران بھی جن کی ڈیوٹی ہی یہی ہے کہ وہ ہسپتالوں کو چیک کریں اور وہاں خرابیاں دور کریں۔ وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ وہ مسیحا یا نجات دہندہ بن کر ہسپتال پر چھاپہ مارنے کے بجائے ایساسسٹم بنائے جس سے آٹو میٹک بنیادوں میں ان تحصیل، ڈسٹرکٹ اور ٹیچنگ ہسپتالوں کے مسائل ختم ہوں۔ لوگوں کو ریلیف ملے اور دوائیاں نہ ملنے، سٹاف کی عدم موجودگی اور دیگر ایشوز کا خاتمہ ہو۔ وزیراعلیٰ کا کام ایسا سسٹم بنانا اور پھر اسے فول پروف طریقے سے چلائے رکھنے کا انتظام کرنا ہے۔
صوبے میں پہلے چھتیس اضلاع تھے، چودھری پرویز الٰہی نے پانچ نئے بنا دئیے تھے، اب معلوم نہیں آفیشل سٹیٹس کیا ہے، چالیس، اکتالیس یا ابھی چھتیس ہی ہیں؟ ہر ضلع میں ایک ڈسٹرکٹ ہسپتال ہے جبکہ کم از کم تین تحصیلیں ہر ضلع میں ہوتی ہیں، ان کے تحصیل ہسپتال جبکہ ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں ایک عدد ٹیچنگ ہسپتال ہے، لاہور میں تو یہ ٹیچنگ ہسپتال بھی پانچ سات ہیں۔ اس لحاظ سے صوبے کے ڈیڈھ سو کے لگ بھگ سرکاری ہسپتال بنتے ہیں، سینکڑوں ڈسپنسریاں اور بی ایچ یوز الگ ہیں۔ وزیراعلیٰ ہر روز ایک ہسپتال پر چھاپہ مارے تو اسے سات آٹھ ماہ لگ جائیں گے، اس دوران پہلے والے ہسپتالوں میں پھر سے خرابیاں آچکی ہوں گی۔
یہ تو صرف محکمہ صحت ہے۔ اگر یونیورسٹیوں، کالجوں کو دیکھا جائے تو وہ بھی سینکڑوں، ہزاروں میں آئیں گی۔ کتنے شعبے اور ہیں۔ کیا وزیراعلیٰ ہر جگہ خود جائے گا؟ یہ سب بچکانہ نوعیت کی چیزیں ہیں، جن سے باہر نکلنا چاہیے۔ یہ کام تو منتخب وزیراعلیٰ کو بھی نہیں کرنا چاہیے، کجا یہ کہ نگران وزیراعلیٰ یہ کرتا پھرے۔ کاش نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو یہ بنیادی باتیں کوئی سمجھائے اور انہیں ان کے اصل فرائض کی طرف متوجہ کرے۔
آج کل پنجاب کے سرکاری ملازمین شدید احتجاج کر رہے ہیں اور اس کی وجوہات واضح، فطری اور منطقی ہیں۔ جو تفصیلات مجھ تک پہنچی ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے یہ سمجھ نہیں آئی کہ آخر پنجاب کے سرکاری ملازمین کے ساتھ یہ صریحاً زیادتی کیوں ہو رہی ہے؟ ہوا یہ ہے کہ موجودہ بجٹ میں وفاق، سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سب میں گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک پینتیس فیصد (35 %)جبکہ گریڈ سترہ سے گریڈ بائیس تک تیس فیصد (30%)اضافہ ہوا۔ پنشن میں وفاق اور ان تینوں صوبوں میں ساڑھے سترہ فیصد (17.5%) اضافہ کیا گیا۔
اس کے برعکس پنجاب میں گریڈ ایک سے گریڈ بائیس تک تیس فیصد اضافہ ہوا یعنی ایک سے سولہ گریڈ والوں کو پانچ فیصد کم اضافہ دیا گیا۔ جبکہ پنشن میں ہونے والا اضافہ صرف پانچ فیصد تھا۔ یہ بات عجیب وغریب اور ناقابل فہم ہے۔ کیا وفاق اور تینوں چھوٹے صوبوں کے پنشن لینے والے حضرات کے لئے زندگی زیادہ مشکل ہے اور پنجاب کے پنشنرز مزے کر رہے ہیں، یہاں چیزیں سستی ہیں اور خرچے کم ہیں؟ آخر یہاں پنشن میں اضافہ پانچ فیصد کیو ں؟ جب ملک بھر میں پنشن ساڑھے سترہ فیصد بڑھائی گئی تو پنجاب میں یہ پانچ فیصد کس لئے؟
سب سے خطرناک اور پریشان کن بات یہ ہوئی کہ تنخواہوں میں یہ اضافہ موجودہ بنیادی تنخواہ یعنی Running Basic کے بجائے ملازمت کے پہلے دن والی ابتدائی بنیادی تنخواہ Initial Basicپر کیا گیا۔ یہ ہر اعتبار سے غلط ہے۔ وفاق اور باقی تینوں صوبوں میں اضافہ موجودہ بنیادی تنخواہ پر کیا گیا۔ یہ بات یوں سمجھ لیجئے کہ ملازمت کے پہلے دن ہر ملازم کی ایک بنیادی تنخواہ مقرر ہوتی ہے، بعد میں کام کرتے کرتے وہ بڑھتی جاتی ہے۔ موجودہ نگران حکومت کے اس فیصلے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ جس ملازم نے تیس سال کسی گریڈ میں سروس کی، اس کا اضافہ بھی اتنا ہوا، جتنا اس سال بھرتی ہونے والے کسی نئے ملازم کا۔ یہ ناانصافی ہے۔
پنجاب کے سرکاری ملازم اس زیادتی پر احتجاج کر رہے ہیں، مگر نگران وزیراعلیٰ نے ان کی بات سننے کی زحمت ہی نہیں فرمائی۔ ایک کلپ دیکھا جس میں رپورٹر نے محسن نقوی سے پوچھا کہ یہ ملازمین صوبے بھر سے احتجاج کے لئے اکھٹے ہیں تو ان کی دادرسی کے لئے آپ ان سے ملیں گے۔ ایک عجب شان بے نیازی سے صاحب نے فرمایا، یہ سرکاری ملازم ہیں، جا کر اپنے محکموں میں بات کریں، میں کیوں ملوں۔ کلب دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ بندہ خدا، ان کے ساتھ زیادتی آپ نے کی ہے، تو دادرسی بھی آپ کو کرنا ہوگی۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ درست طریقے سے نہیں کیا گیا، پنشن نہیں بڑھائی گئی تو ان کے محکمہ کے اعلیٰ افسران اس میں کیا کر سکتے ہیں؟ یہ تو وزیراعلیٰ کے کرنے کے کام ہیں۔
ایک اور غلط کام یہ ہورہا کہ نگران حکومت پنشن اصلاحات کرنے کے درپے ہے۔ یہ ان کا مینڈیٹ ہی نہیں، ادھر پنگا کیوں لے رہے ہیں؟ بتایا گیا کہ ریٹائرمنٹ کے موقعہ پر ایل پی آر (LPR)جو رننگ بیسک کے حساب سے ملتے ہیں، اسے بھی ابتدائی بنیادی تنخواہ کے مطابق دینے کی بات کی جا رہی ہے، جس سے بیٹھے بٹھائے پنشن لینے والے کو اچھا خاصا نقصان ہوجائے گا۔
یہ بھی سنا ہے کہ پنشن کو بھی رننگ بیسک کے بجائے اِنیشیل بیسک کے حساب سے دینے کی سفاکانہ تجویز ہے، یعنی جس کی پنشن تیس ہزار بنتی ہو، مختلف حیلوں بہانوں سے اس کے منہ پر صرف آٹھ دس ہزار روپے مار دئیے جائیں۔ آخر کیوں؟
سوال یہی ہے کہ نگران حکومت وہ کام کیوں کر رہی ہے جس کے لئے وہ آئی نہیں؟ وہ سرکاری ملازمین کے لئے مشکلات کیوں پیدا کر رہی ہے؟ ان کے جینوئن مسائل سننے اور حل کرنے سے کیوں گریز کر رہی ہے؟