ضمنی انتخابات کے حوالے سے دو تین سوالات ہر ایک کے ذہن میں موجود ہیں۔ جس حلقے کے کسی سیاسی کارکن یا مقامی صحافی سے بات ہو، اس سے وہاں ضمنی الیکشن کی صورتحال پوچھی جائے تو دیگر باتوں کے ساتھ ایک بات ضرور کی جاتی ہے کہ اگر الیکشن منصفانہ ہوا تب۔ اب معلوم نہیں ہمارے ہاں لوگوں کے ذہنوں میں ماضی کے واقعات کے سبب اس قدر شکوک موجود ہیں یا پھر ویسے ہی محتاط پسندی کہہ لیں، مگر بہرحال ہر کوئی الیکشن پر اس حوالے سے نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس لئے اگر پولیٹیکل انجینئرنگ کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تو وہ چھپی نہیں رہ سکے گی اور شائد عوامی ردعمل بھی اس پر آئے۔ اب یہ الیکشن کمیشن، انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسا نہ ہونے دے اورقابل اعتماد، شفاف انتخابات یقینی بنائے۔
دوسرا سوال انتظامیہ کی مداخلت کے حوالے سے ہے۔ جواب یہ ہے کہ جوہمیشہ ہوتا رہا، وہ اس بار بھی ہور ہا ہے۔ کئی حلقوں میں مقامی صحافیوں اور غیر جانبدار سیاسی کارکنوں سے بات ہوئی۔ ان سب کا کہنا تھا کہ سرکار جس حد تک مداخلت کرتی ہے اور انتظامیہ اپنے امیدوار کے حق میں فضا کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ سب کچھ اس بار بھی ہو رہا ہے۔ بہاولنگر کے حلقے میں ن لیگ کے امیدوار کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے، وہ تین بار جیت چکے ہیں اور ایک لحاظ سے الیکٹ ایبل کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے باوجود سرکاری سطح پر بہت سے کام اور ریلیف ان کے حامیوں کو دئیے جار ہے ہیں۔
بہاولنگر کے ایک سیاسی کارکن دوست سے بات ہوئی جو تحریک انصاف کا حصہ نہیں اور کئی حوالوں سے عمران خان کے ناقد ہیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی مشاہدے سے بتایا کہ درجنوں ٹرانسفارمرز مختلف دیہات میں بجلی کی فراہمی کے لئے بھجوائے گئے، جبکہ کھمبوں کی تعداد تو ان گنت ہے۔ یہی بات لیہ (چوک اعظم، چوبارہ)کے حلقہ میں مقامی صحافی دوست نے بتائی۔ ان سے اجازت نہیں لی، ورنہ نام لکھ دیتا۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرانسفارمر اپ گریڈ ہو رہے ہیں جس کسی نے بجلی کنکشن کی کبھی درخواست دی تھی، انہیں میٹر فوری جاری ہو رہا ہے۔ اسی طرح مقامی سکولوں کے لئے گرانٹ ہو، سولنگ سڑک یا کچھ اور کام، وہ منٹوں، گھنٹوں میں شروع ہوجاتا ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق الیکشن کمیشن کی پابندی کے باوجود وفاقی وزرا خاموشی سے بغیر پبلسٹی حلقے میں موجود ہیں اور بھرپور کمپین کر رہے۔
شیخوپورہ میں مقامی اخبارنویس بھی ایسی ہی خبریں سنا رہے ہیں۔ ایک دوست کے بقول ان کا پورا خاندان ن لیگی ہے، پچھلی بار ان کا ووٹ ساتھ والے حلقہ 139میں تھا، اس بار ان کے پورے خاندان کا ووٹ ضمنی الیکشن والے حلقہ 140میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کی باتیں اور بھی جگہوں سے سنی جا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ پاکستانی سیاست کا ایک سیاہ باب ہے، ہر بار ضمنی الیکشن یا کسی کانٹے دار مقابلے میں یہی سب کچھ کیا جاتا ہے، اس بار بھی ہو رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے بقول ہماری ان تما م چیزوں پر کڑی نظر ہے، احتجاج بھی کر رہے ہیں اور اپنی بھرپور کمپین کے ذریعے کوشش ہے کہ ووٹوں کا باہمی فرق اتنا زیادہ ہو جائے کہ انتظامیہ پولیٹیکل انجینئرنگ نہ کر سکے۔ عمران خان نجی محافل میں یہ بات کہتے ہیں کہ اگر فرق بیس پچیس ہزار ووٹوں کا ہوا، تب دھاندلی ممکن نہیں رہے گی۔ اتنے فرق کے لئے مگر بہت اچھا ٹرن آئوٹ (پچاس فیصد سے زائد)درکار ہے۔ دیکھنا اب یہی ہے کہ الیکشن ڈے پر تحریک انصاف کے نوجوان کیا کرشمہ دکھاتے ہیں؟
ایک دلچسپ بات جہانگیر ترین کے حوالے سے ہے۔ منحرف اراکین اسمبلی بنیادی طور پر جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھتے تھے، عمران خان کو سب سے زیادہ نقصان اسی گروپ نے پہنچایا۔ ان تمام کو اب ن لیگ سے ٹکٹ مل گئے، ان میں سے جو جیت گیا، یقینی طور پر اگلے عام انتخابات میں وہی ن لیگ کا امیدوار ہوگا۔ تب یہ اندازہ ہوگا کہ وہ جہانگیر ترین گروپ کا بدستورحصہ ہیں یا ن لیگ کی نمک کی کان میں شامل ہو کر نمک کا ایک ڈلا بن چکے۔ جہانگیر ترین آج کل لوپروفائل میں ہیں، وہ بیانات دے رہے ہیں نہ ہی الیکشن کمپین میں حصہ لے رہے، تاہم وہ خاموشی سے اپنے حامیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
جہانگیر ترین کے لئے پریشانی کا باعث لودھراں کے دونوں حلقے ہیں، جہاں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے۔ وہاں پر ایک حلقے (pp224)میں پی ٹی آئی کا امیدوار عامر اقبال شاہ بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔ اس کی وجہ ان کے والد پیر اقبال شاہ کی نیک نامی، پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی شفیق ارائیں کی حمایت اور مبینہ طور پر ن لیگی ارکان اسمبلی کی درپردہ سپورٹ ہے۔ عبدالرحمن کانجو لودھراں میں ن لیگ کے نامور رہنما اور رکن قومی اسمبلی ہیں۔ عبدالرحمن کانجو مقامی سیاست میں جہانگیر ترین کے سخت مخالف ہیں۔ پانچ چھ سال قبل جب جہانگیر ترین نااہل ہوئے تھے تو ان کی جگہ ان کا بیٹا علی ترین الیکشن لڑا تھا، تب عبدالرحمن کانجو ہی نے صدیق بلوچ، پیر رفیع الدین شاہ سمیت مختلف دھڑوں کو متحد کر کے پیر اقبال شاہ کو علی ترین کے مقابلے میں کھڑا کیا اور جہانگیر ترین کا بیٹا ہار گیا تھا۔ صورتحال اب بھی کم وبیش وہی ہے، مگر پوزیشنز بدل گئی ہیں۔ اب جہانگیر ترین ن لیگ کی طرف ہیں اور پیر اقبال شاہ کا بیٹا عامر اقبال شاہ پی ٹی آئی سے لڑ رہا ہے، مگر صدیق بلوچ اور عبدالرحمن کانجو کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے امیدواروں کی فتح نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ لودھراں کے ایک حلقے سے پی ٹی آئی کا امیدوار عامر اقبال شاہ مضبوط ہے جبکہ دوسرے حلقے (228)سے آزاد امیدوار پیر رفیع الدین شاہ مضبوط پوزیشن میں ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جہانگیر ترین کے خلاف مقامی سطح پر پی ٹی آئی اور ن لیگ ایک ہوچکی ہے۔ دیکھیں ترین صاحب کے امیدواروں پر کیا گزرتی ہے؟
ضمنی الیکشن میں لاہور کے چاروں حلقے بہت اہم ہیں، یہاں محتاط اندازے کے مطابق دو نشستیں پی ٹی آئی جیت لے سکتی ہے، ایک سیٹ پر ن لیگ بہت مضبوط ہے جبکہ چوتھی سیٹ(علیم خان کی خالی کردہ) پر مقابلہ سخت ہے مگر وہ شائد ن لیگ کے حصے میں جائے۔ بھکر سے سعید نوانی الیکٹ ایبل ہیں، ان کے مقابلے میں عمران خان کے کزن اور حفیظ اللہ نیازی، انعام اللہ نیازی کے چھوٹے بھائی عرفان اللہ نیازی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ نوانیوں کو ہرانا آسان نہیں، مگر پہلی دفعہ انہیں بھرپور کمپین کرنا پڑ رہی ہے۔ ایک خالص دیہی علاقے میں ایسا عمران خان نے ہی کر دکھایا ہے۔
اس بار دو نشستوں (خوشاب، لودھراں کے ایک حلقہ)سے آزاد امیدوار جیت سکتے ہیں، خوشاب سے آصف بھا جبکہ لودھراں سے پیر رفیع الدین شاہ مضبوط امیدوار ہیں۔ ویسے امکان یہی ہے کہ جیتنے کے بعد دونوں ن لیگ میں چلے جائیں۔
پی ٹی آئی جھنگ سے ایک نشست پر برتری رکھتی ہے، وہاں ان کے امیدوار نواز بھروانہ کو دربار حضرت سلطان باہو کے سجادہ نشینوں کے علاوہ سیال شریف کے گدی کے قاسم سیالوی بھرپور سپورٹ کر رہے ہیں۔ فیصل آباد چک جھمرہ سے بھی پی ٹی آئی کو معمولی سی برتری حاصل ہے، وہاں ان کا امیدوار علی افضل ساہی ہے، دلچسپ بات ہے کہ مریم نواز نے ہر جگہ جلسے کئے، مگر اس حلقے میں بوجوہ جلسہ نہیں کیا، جس کا ن لیگی امیدوار اجمل چیمہ کو شکوہ ہے۔ مظفر گڑھ (علی پور، جتوئی)کے دونوں حلقوں میں پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر ہے، ایک سے وہ نشست نکال سکتی ہے، خاص کر اگر آزاد امیدوار ہارون سلطان بخاری آخر تک کھڑے رہے اور اپنی بھاوج کے ووٹوں کو نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے۔ پی ٹی آئی کو لیہ (چوک اعظم، چوبارہ)میں بھی معمولی برتری حاصل ہے، اگرچہ ن لیگ سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ اسے گھٹایا جائے۔ وہاں مریم نواز شریف نے بہت اچھا اور بڑا جلسہ کیا جس سے ن لیگی امیدوار کو کچھ فائدہ پہنچا ہے۔
اس وقت تک کم از کم سات سے آٹھ حلقے ایسے ہیں جہاں مقابلہ بہت سخت ہے اورکلوز رزلٹ آنے کی توقع ہے۔ ان میں پنڈی کہوٹہ کا حلقہ، ڈی جی خان میں سیف کھوسہ اور عبدالقادر کھوسہ کا معرکہ، ملتان میں زین قریشی اور سلمان نعیم کی جنگ، شیخوپورہ میں خالد محمود ارائیں اور خرم شہزاد ورک کا مقابلہ جبکہ مظفر گڑھ میں یاسر جتوئی اور سبطین رضا کا معرکہ سرفہرست ہے۔ بہاولنگر میں ن لیگ کو واضح برتری حاصل ہے۔ ساہی وال، بھکر، لاہور کے اسد کھوکھر والے حلقہ میں ن لیگ کو کسی حد تک سبقت حاصل ہے۔
ن لیگ کو ایڈوانٹیج یہ ہے کہ اسے دس سیٹوں کا ہدف حاصل کرنا ہے جبکہ پی ٹی آئی کو تیرہ سیٹیں جیتنا لازمی ہے۔ ن لیگ کو یہ بھی فائدہ ہے کہ جہاں کہیں آزاد امیدوار جیتا، وہ ان کی طرف ہی آئے گا، ایک تو حکومت، انتظامیہ کی کشش دوسرا وہ پوٹینشل آزاد امیدوار تھے ہی ن لیگی۔ عمران خان نے اچھی کمپین چلا کر مقابلہ بلکہ سخت مقابلہ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ حکومت کے لئے مطلوبہ اکثریت لینا دانتوں پسینہ آنے والا کام بن چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے لئے مگراچھا ٹرن آئوٹ بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ بازی نہیں جیت سکتے۔