خواجہ سعد رفیق ن لیگ کے معروف لیڈر اور موجودہ پی ڈی ایم حکومت میں وزیرہوابازی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کو ن لیگ کے پچھلے دور میں ریلوے کی وزارت ملی تھی۔ یہ بات مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالفین بھی تسلیم کرتے رہے کہ ریلوے کی کارکردگی میں غیر معمولی بہتری آئی تھی، جسے اس سے پچھلے دور (زرداری حکومت)میں اے این پی کے غلام بلور صاحب کی مدت وزارت میں بہت زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بلور صاحب نے تو جیسے ہتھوڑے رسید کرکے ریلوے کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ عمران خان دور میں یہ وزارت پہلے شیخ رشید کے ہاتھ آئی۔ انہوں نے سستی شہرت لینے کے لئے نئی ٹرینیں تو شروع کرا دیں مگر انجن منگوائے گئے نہ کچھ اور بہتری آئی۔ اس کے نتیجے میں ریکارڈ حادثات ہوئے اور جگہ جگہ انجن خراب ہونے سے ٹرینیں رک جاتیں۔
ن لیگ کے دوسرے لیڈروں کی نسبت میری رائے خواجہ سعد رفیق کے بارے میں نرم اور بہتر ہے۔ ایک وجہ ان کی بطور وزیرکارکردگی ہے تو دوسری یہ کہ وہ اپنی پارٹی کے اکثر دریدہ دہن لیڈروں سے مختلف رویہ اپناتے ہیں۔ دشنام کے کلچر سے گریز کرتے اور سیاسی وضع داری کو کسی نہ کسی حد تک نبھاتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کاذکر اس لئے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کی رواں سیشن میں جو الوداعی اجلاس ہے، اس میں تقریر کرتے ہوئے کئی قابل فکر اور اہم باتیں کہی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے واضح الفاظ میں یہ بتایا کہ پی آئی اے کے حوالے سے اگر سخت فیصلے نہ کئے گئے تو ڈیڈھ دو سالوں میں یہ بند ہوجائے گی۔ یہ بہت ہی خطرناک اور تشویشناک بات ہے، جسے کسی وفاقی وزیر تو بغیر لگی لپٹی بیان کر دیا۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا: " ہم ڈوب رہے ہیں، ہمارے ادارے ڈوب رہے ہیں، اس کی وجہ گندی سیاست ہے، ہر وقت کی سیاست بازی۔ اپنے لوگوں کو اداروں میں بھرنا۔ جہاں دس لوگوں کی ضرورت ہے، وہاں 50 لوگوں کو بھردیا گیا ہے۔ اس ملک کو برباد کرنے کی دردناک داستان ہے، جس میں مارشل لا اور سیاسی دونوں طرح کی حکومتیں شامل رہی ہیں۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، اس کا وقت نہیں ہے۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے کھانچے چلتے رہیں۔ اگر کھانچے چلتے رہے تو پھر ملک نہیں چلنا۔ وقت آچکا کہ سچے، درست اور تلخ فیصلے کیے جائیں۔ میں ذاتی طور پر اداروں کی نجکاری کرنے کا حامی شخص نہیں ہوں لیکن مجھ جیسے آدمی کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ اگر پی آئی اے اسی طرح چلتی رہی، اگر یہ جس طرح اس وقت چل رہی ہے تو 2030 میں اس کا خسارہ 259 ارب کا خسارہ ہوگا جس کا اس سال خسارہ 80 ارب ہے، کیا پاکستان یہ سب برداشت کرسکتا ہے؟
خواجہ سعد رفیق کے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ " ہمیں وہی کرنا ہوگا جو ساؤتھ افریقین ایئرلائن اور ایئر انڈیا (بھارتی سرکاری ائیرلائن)نے کیا ہے۔ ٹاٹا نے ایئر انڈیا کے لیے 450 نئے جہازوں کا آرڈر دیا ہے۔ ریاست نہیں چلاسکتی، ریاست صرف اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی شخص بیروزگار نہ ہو، کسی کو نکالا نہ جائے۔ پی آئی اے کی ایک ہولڈنگ کمپنی بنے گی۔ اس کا قرضہ 740 ارب روپے ہے، وہ جائے گا، اس کی تمام پراپرٹی جائیں گی، اس کی تمام اسٹرینتھ اس میں جائیں گی، پھر اس کے کچھ شیئرز کو آف لوڈ کیا جائے گا، اس میں کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری چاہیے،۔ اس کے صرف 27، 28 جہاز آپریشنل ہیں۔ آپ گلف کی طاقتور ایئرلائنز کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر آپ نے پی آئی اے کو ری اسٹرکچر نہیں کیا تو یہ ایک، ڈیڑھ سال کے اندر بند ہوسکتی ہے، میں یہ بیان ذمے داری کے ساتھ دے رہا ہوں"۔
سعد رفیق کے مطابق، " آپ ان اداروں کو منافع بخش بنا سکتے ہیں بشرطیکہ ہے کہ نجی سرمایہ کار شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر آئے۔ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ آئے۔ پی آئی اے کے روٹس قیمتی ہیں، ان روٹس کا استعمال ہی نہیں ہے، ہم جا ہی نہیں رہے۔ آپ کو وہ آپریٹر لانے پڑیں گے جو پوری دنیا میں ایئر پورٹس کو آپریٹ کرتے ہیں۔ آپ کو 35، 40 یا 50 فیصد جو بھی آنے والی حکومت فیصلہ کرے گی، اتنا نجی شعبے کو لانا پڑے گا۔ اسی طرح ریلوے کے بھی پروڈکشن یونٹ سب خسارے میں ہیں، ان میں بھی آپ کو صنعت کاروں کو لانا پڑے گا"۔
خواجہ سعد رفیق کا تفصیلی بیان نقل کرنے کی معذرت مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر ایسا کیا۔ نہیں معلوم کہ اس پریکٹیکل سوچ کے پیچھے کیا ہے، نجکاری کرنے کا مقصد کیا ہے، کوئی مخفی ایجنڈا کارفرما ہے یا ویسے ہی ہمارے سیاستدانوں کو عقل آ گئی ہے؟ اس حوالے سے کوئی اطلاع نہیں۔ حسن ظن کے طور پر ان الفاظ کو ظاہری صورت ہی میں لے رہا ہوں۔
میرے جیسے لوگوں نے عمران خان کو وزیراعظم بننے کے بعد بہت سے مشورے دینے کی کوشش کی تھی۔ ہمارے پاس قلم ہے اور اخبار کے صفحات، جہاں کالم لکھ کر ایشو ہائی لائیٹ کر سکتے ہیں، وہی کرتے رہے۔ یہ اور بات کہ خان صاحب اور ان کی ٹیم نے ان مشوروں پر کان دھرنے کی زحمت نہیں فرمائی۔ اسے ان کی ناتجربہ کاری کہا جائے یا ویژن کی کمی یا ہوم ورک نہ ہونا۔ اپنے ابتدائی دنوں میں بڑے فیصلے کر لینے چاہئیے تھے۔ پی آئی اے، سٹیل ملز وغیرہ سے وہ پہلے سو دنوں میں جان چھڑا لیتے تو شائد بہت کچھ سیٹل ہوجاتا۔
عمران خان نے ایسا نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اوریا صاحب نے ایک پوری سیریز لکھی جس میں سول سروس کا امتحان اردو میں لینے جیسے انقلابی مشورے بھی شامل تھے۔ ہم جیسے تو اسی میں خوش ہوجاتے کہ ہر قسم کے مقابلے کا امتحان بے شک روٹین کے مطابق لیتے رہیں، پرچے انگریزی میں ہوں مگر یہ پابندی لگا دی جائے کہ انٹرویو اردو زبان میں ہوگا۔ پاکستان میں کسی بھی قسم کی سرکاری، نیم سرکاری ملازمت کے لئے انٹرویو انگریزی میں آخر کیوں لیا جائے؟ اس میں حکومت کا کچھ بھی نہیں جاتا تھا، صرف ایک حکم دینا پڑتا، زیادہ سے زیادہ ایک آرڈی ننس جاری ہوجاتا۔ یہی کام ان مفلوج، نیم مردہ اداروں سے جان چھڑا نے کا کرنا چاہیے تھا۔
سوال یہ ہے کہ پی آئی اے کے نہ چلنے اور اس کی ناکامی کی سزا ہم لوگ کیوں بھگتیں؟ عوام کا سرکاری ائیرلائن سے کیا لینا دینا؟ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے زندگی بھر جہاز کا سفر نہیں کیا اور شائد کبھی نہ کر پائیں۔ کرنا بھی ہو تو اگر سرکاری کے بجائے نجی ائیرلائن سے چلے جائیں تو کیا ہوجائے گا؟
خواجہ سعد رفیق نے ایک اور بات درست کہی، مگر آدھی بتائی۔ وہ ان اداروں میں ضرورت سے کئی گنا زیادہ سٹاف بھر دینا ہے۔ کسی ذاتی کاروبار یا دکان وغیرہ میں کوئی بھی شخص ملازم رکھتا ہے تو سب سے پہلے اس کی لیاقت کو اچھی طرح جانچتا ہے، پھر کوشش ہوتی ہے کہ دو بندوں کا کام ایک سے لیا جائے۔ جب سرکاری اداروں میں ملازمت دی جائے تب نہایت بے رحمی اور بے شرمی سے سراسر سفارش اور رشوت سے نالائق لوگ بھرتی کر دئیے جاتے ہیں۔ دس بندوں کی ضرورت ہو تو بیس پچیس ٹھونس دئیے جاتے ہیں۔
اس کام میں سب سے پیش پیش پیپلزپارٹی ہے۔ قومی اداروں کی تباہی میں سب سے زیادہ حصہ پیپلزپارٹی اور خاص طور سے جناب زرداری کا ہے۔ وہ دو ہزار آٹھ میں حکومت میں آئے تو سٹیل ملز نے اس سال کئی ارب کا منافع دیا تھا۔ زرداری حکومت کی" برکت "سے دو تین برسوں میں سٹیل ملز اجڑ گئی، برباد ہوگئی۔ یہی پیپلزپارٹی نے مختلف ادوار میں پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان، پی آئی اے اور دیگر سرکاری اداروں سے کیا۔ مزیدظلم یہ کیا جاتا ہے کہ اگلی حکومت ان نالائق اور غلط طریقے سے بھرتی لوگوں کو نکال دے تو جب پی پی حکومت پھربرسراقتدار آئے تو ان سب برطرف لوگوں کو بحال کرکے ان پچھلے برسوں کی تنخواہیں تک دلاتی ہے۔ افسوسناک۔
عمران خان دور میں سٹیل ملز کے آٹھ ہزار ملازمین کو برطرف کرنے کی بات ہوئی تو پیپلزپارٹی نے طوفان اٹھا دیا۔ ایک عجیب وغریب دلیل یہ دی گئی کہ یہ آٹھ ہزار خاندانوں کے روزگار کا معاملہ ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ اپنے بلاول ہائوس یا درجنوں ذاتی شوگرملوں میں بھی کبھی ایسا کیا کہ پانچ سات سو ملازمیں کو کام کے بغیر رکھ لیا جائے؟ مفت میں تنخواہ دی جائے؟ نہیں ایسا کرنے کا یہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے۔ سٹیل مل اگردس پندرہ سال سے بند ہے تو یہ آٹھ ہزار لوگ مفت کی تنخواہیں کیسے توڑ سکتے ہیں؟ انہیں فارغ کرنا ہی پڑے گا، زیادہ سے زیادہ گولڈن شیک ہینڈ دے دیں۔
خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں جو باتیں کہیں، ان میں وزن ہے۔ حکومت کا کام ائیرلائن یا دیگرکمرشل کام کرنا نہیں۔ اصلاحات کے نام پر پہلے ہی بیسیوں ارب روپے ڈبوئے جا چکے ہیں۔ ان مفلوج اداروں سے قوم کی جان چھڑائیں۔ پرائیویٹ شعبے کو لے آئیں، پرفارمنس بہتر کریں اور نئی ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کرائیں۔ اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکے گا۔ ان قومی اداروں کو ذاتی سمجھ کر ڈیل کریں تو چند برسوں میں سب کچھ بدل جائے گا۔