قومی سیاست پے درپے ہچکولوں اور دھچکوں کے بعد لگتا ہے ایک خاص منزل کی طرف بتدریج سفر کرنا شروع ہوگئی ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں جلد الیکشن کرانے کے حوالے سے کیس کی سماعت میں جو ڈویلپمنٹ ہوئی، اس سے یہ تو طے ہوگیا کہ الیکشن اب اگلے سال کی ابتدا میں ہونے جا رہے ہیں اور ہم ان شااللہ فروری 2024 میں ایک نئی پارلیمنٹ دیکھیں گے۔
ان سطور کے لکھے جانے تک ایوان صدر اور الیکشن کمیشن کے مابین مشاورت چل رہی تھی بہرحال جنوری کا اینڈ یا فروری کا وسط، اس میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ الیکشن ہوجانے کی صورت میں فروری کے اینڈ یا مارچ میں سینیٹ کے انتخابات بھی ہوجائیں گے اور پھر صدارتی انتخاب ہوں گے۔ اللہ نے چاہا تو اگلے تین چارماہ میں ایک نیا سیٹ اپ مکمل طور پر سامنے آ جائے گا۔
ابھی کئی اگر، مگر باقی ہیں، انگریزی محاورے کے مطابق کئی If's & Butt's۔ تحریک انصاف کو الیکشن میں کس حد تک حصہ لینے کا موقعہ دیا جائے گا؟ سولہ ماہ حکومت کرنے والے پی ڈی ایم اتحاد کی مختلف جماعتیں آپس میں کہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہیں یا نہیں؟ ن لیگ کے اہداف کیا ہیں؟ پیپلزپارٹی اپنا شیئر بڑھا پاتی ہے یا نہیں؟ جے یوآئی ف کے ہاتھ کیا آئے گا؟ کے پی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی پوزیشن کیا ہے؟ ایم کیو ایم، باپ پارٹی، نوزائیدہ استحکام پاکستان پارٹی اور پرویزخٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کا مستقبل کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب آپشنز کا مختصر جائزہ لیتے ہیں، کون کہاں کھڑا ہے؟
آغاز پیپلزپارٹی ہی سے کر لیتے ہیں، ان کے لیڈر آصف زرداری آج کل پھر سے متحرک ہوئے ہیں۔ اگلے روز انہوں نے بڑے دبنگ انداز میں اعلان کیا کہ میں نواز شریف کو کسی بھی صورت میں وزیراعظم نہیں بننے دوں گا۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی فرمایا کہ میں نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا، مگر اس نے ڈیلیور نہیں کیا۔ آصف زرداری نے اس میں ایک دعویٰ کیا اوردوسری بات میں آدھا سچ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زرداری صاحب جوڑ توڑ کے ماہر ہیں، خاص کر سیاسی خریداری کے معاملہ میں وہ یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ حکومت گرانی ہو یا ہارس ٹریڈنگ کے زور پر نئی حکومت بنانا، اس میں یقینی طور پر جناب زرداری کو "کمال" حاصل ہے اور وہ اگر بھرپور حصہ نہ ڈالتے تو شائد عمران خان کی حکومت گرا کر پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت بنانا آسان نہ رہتا۔
یہ بات مگر زرداری صاحب بھی جانتے ہیں کہ صرف ان کی "مہارت" کام نہیں آئی۔ ایم کیو ایم، باپ وغیرہ صرف ان کے کہنے پر نہیں الگ ہوئے۔ یہ درست ہے کہ شہباز شریف نے بطور وزیراعظم بالکل ہی ڈیلیور نہیں کیا، مگر ان کی حکومت ختم ہونے تک پیپلزپارٹی ان کی کابینہ کا حصہ رہی اور یہ بات زرداری صاحب نے تب نہیں کی۔ جب حکومت ختم ہوگئی اور اب الیکشن ہونے والے ہیں تو یہ بات کہنا دراصل اپنے اوپر سے ناکارہ کارکردگی کا سیاہ داغ ہٹانے کی ایک ناکام کوشش ہے، جس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
جہاں تک یہ دعویٰ ہے کہ آصف زرداری نواز شریف کو وزیراعظم نہیں بننے دیں گے، تو یہ قدرے کمزور بات ہی لگی۔ میاں نواز کے معاملات جس سطح پر طے ہوئے ہیں، وہ آصف زرداری سے رینج سے باہر ہے۔ زرداری صاحب چاہیں بھی توآسانی سے نواز شریف کا معاملہ کھنڈا نہیں کر سکتے۔ میاں نواز شریف کا سیاسی میدان میں راستہ صرف پاکستان تحریک انصاف ہی روک سکتی ہے۔ پنجاب میں صرف یہی پارٹی ن لیگ کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کر سکتی ہے۔
آنے والے عام انتخابات میں دو سو چھیاسٹھ 266 نشستوں پر انتخاب ہوگا۔ یاد رہے 2018 کے الیکشن میں 272 نشستوں پر الیکشن ہوا تھا۔ فاٹا کی سیٹیں کے پی میں شامل ہوجانے کے باعث اب کل تعداد میں چھ نشستوں کی کمی ہوگئی ہے۔ ان دو سو چھیاسٹھ میں سے ایک سو اکتالیس 141 نشستیں پنجاب کی ہیں، یعنی نصف سے بھی زیادہ۔ اگر ن لیگ پنجاب میں سو کے لگ بھگ نشستیں لے لے تو پی پی پی اسے کیسے روک سکتی ہے؟
پیپلزپارٹی سرے سے پنجاب میں اہم فیکٹر ہی نہیں۔ پچھلی بار اس کی چھ نشستیں تھیں اور زیادہ سے زیادہ پانچ سات مزید سیٹوں پر اس نے کچھ مناسب مقابلہ کیا۔ رحیم یار خان میں دو سیٹیں مخدوم احمد محمود کے بیٹوں نے حاصل کی تھیں، جبکہ ایک سیٹ راولپنڈی سے راجہ پرویز اشرف اور اتفاق سے پچھلی بار تین سیٹیں مظفر گڑھ میں مل گئی تھیں۔ ملتان سے یوسف رضا گیلانی اور ان کے صاحبزادوں کو شکست ہوئی تھی، اس بار ممکن ہے ملتان سے ایک دو سیٹیں مل جائیں۔
زرداری صاحب کوا مید تھی کہ وہ جنوبی پنجاب سے چند ایک الیکٹ ایبلز کو اپنے ساتھ ملا لیں گے۔ حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ پی پی جنوبی پنجاب میں بھی غیر متعلق اور غیر اہم ہوگئی۔ وہاں سے الیکٹ ایبلز یا تو ن لیگ سے ٹکٹ لینے کی کوشش کررہے ہیں یا پھر یہ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کا رخ کر رہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے پنجاب میں درجن بھر قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتنا بھی اچھا خاصا مشکل ٹاسک بن چکا۔ اس لئے زرداری صاحب کا نواز شریف کو روکنے کا دعویٰ ان کی خواہش تو ہوسکتی ہے، زمینی حقائق اور سیاسی صورتحال اس کو سپورٹ نہیں کرتی۔
پیپلزپارٹی کے لئے زیادہ بڑا دھچکا بلوچستان کا ہاتھ سے نکل جانا ہے۔ زردار ی صاحب نے بلوچستان میں جوڑتوڑ اور سازباز کا ایک جال بچھا رکھا تھا، ان کی کوشش تھی کہ" باپ" کے اہم لیڈر پی پی میں شامل ہوجائیں۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجوکو وہ تقریباً اپنی پارٹی میں کھینچ لائے تھے، ان کے ساتھ دس بارہ تگڑے الیکٹ ایبلز بھی ہونے تھے۔ یہ سب دھرے کا دھرا رہ گیا۔ نواز شریف نے بلوچستان میں مداخلت کی اور مختلف حربوں کے ذریعے باپ پارٹی کو منقسم کر لیا اور اب جام کمال سمیت متعدد سابق ارکان اسمبلی ن لیگ میں جانے والے ہیں۔ آصف زرداری کو یقین تھا کہ اگلی بار وہ سندھ کے ساتھ بلوچستان میں بھی صوبائی حکومت بنا لیں گے۔ اس وقت تو اس کے امکانات نہایت کم ہوچکے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے لئے البتہ سندھ پہلے کی طرح محفوظ سیاسی میدان بن چکا ہے۔ وہاں انہیں کوئی بڑا سیاسی چیلنج درپیش نہیں۔ جی ڈی اے کی صورت میں مختلف سیاسی شخصیات کا اتحاد تھا، پیر پگاڑا، ان کی فنکشنل لیگ، بدین میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا گروپ، روہڑی میں مہر خاندان اور بعض دیگر شخصیات جی ڈی اے میں شریک تھیں۔ زرداری صاحب نے مہر خاندان کو پھر سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے، غوث بخش مہر پی پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ جی ڈی اے کے عمائدین ایم کیو ایم اور جے یوآئی ف کے ساتھ مل کر ایک اینٹی پیپلزپارٹی اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیہی سندھ کی دو چار پاکٹس میں یہ اتحاد کچھ اچھا پرفارم کر سکتا ہے، مگر تقریباً یقینی ہے کہ سندھ میں چوتھی بار بھی پیپلزپارٹی ہی حکومت بنائے گی۔
اصل سوال اب یہ ہے کہ کراچی میں پی پی کو کتنی سیٹیں ملیں گی؟ روایتی طور پر پی پی لیاری کی دو نشستوں اور ملیر کی دو نشستوں پر اپنا گہرا اثرورسوخ رکھتی ہے۔ پچھلے عام انتخابات میں پی پی پی لیاری سے ایک سیٹ ہار گئی تھی جبکہ ملیر میں بھی انہیں دھچکا لگا۔ پچھلے دو تین برسوں میں پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کراچی میں نئے ٹائون بنائے ہیں اور کچھ علاقوں خاص کر سندھی آبادی والے گوٹھ وغیرہ میں خاصے ترقیاتی کام کرائے ہیں۔
چند ماہ قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے کراچی میں خاصی بہتر کارکردگی دکھائی۔ میئر کراچی وہ اپنا بنوانے میں کامیاب رہے، مگر اس میں تحریک انصاف کے کچھ ارکان کو منحرف بنانے کا کردار تھا۔ یہ البتہ درست ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے اعتبار سے پیپلزپارٹی کا کراچی میں دائرہ اثر وسیع ہوا ہے۔ کراچی میں اگر تحریک انصاف کو پوری طرح الیکشن نہ لڑنے دیا گیا تب جو خلا پیدا ہوگا، اس کا فائدہ ایم کیو ایم کے ساتھ پیپلزپارٹی بھی اٹھائے گی۔ جماعت اسلامی نے بھی کراچی میں واپسی کی ہے اور اگلے انتخابات میں وہ بعض حلقوں میں سرپرائز کر سکتی ہے۔
ویسے مجھے یہ بھی لگ رہا ہے کہ روایتی طور پر پیپلزپارٹی کی قیادت ہر الیکشن میں ن لیگ اور شریف خاندان پر تنقید کرتی ہے اور انتخابی مہم میں ایسا جارحانہ بیانیہ بنانے کی کوشش کرتی ہے جس سے وہ پنجاب میں اینٹی نواز شریف ووٹ کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ یہ پیٹرن ہم نے دو ہزار تیرہ اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں دیکھا ہے۔ ممکن ہے زرداری صاحب کے حالیہ تنقیدی بیانات کا یہ پس منظر ہو۔
دو ہزاراٹھارہ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے ملک بھر سے قومی اسمبلی کی ترتالیس 43نشستیں حاصل کیں جبکہ خواتین اور اقلیتی ممبران کی مخصوص نشستیں ملانے کے بعدکل نشستیں چون 54 ہوگئیں۔ اس بار بھی کم وبیش وہی کہانی نظر آ رہی ہے، ممکن ہے اس بار کل نشستیں ساٹھ پینسٹھ ہوجائیں۔ اس سے بڑا کیک کا حصہ لینا پی پی پی کے لئے سردست مشکل لگ رہا ہے۔ البتہ الیکشن کے نزدیک جا کر ممکن ہے تھوڑی بہت تبدیلی آجائے۔