اس سیریز کے پچھلے کالم میں پیپلزپارٹی کے بلند وبانگ دعوئوں اور زمینی حقائق کے مطابق ان کی اصل سیاسی پوزیشن کا جائزہ لیا تھا۔ آج مسلم لیگ ن کے امکانات، موجودہ پوزیشن کا تجزیہ کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت سب سے بہترسیاسی پوزیشن مسلم لیگ ن کی ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے سٹیج سج چکا ہے اوربغیر کوئی میچ کھیلے کسی کھلاڑی کو ایوارڈ وصول کرنے کے لئے بلایا جائے۔ ن لیگ کو ایسی واضح سیاسی برتری کم ہی ملی ہوگی۔ پچھلے تینوں انتخابات میں تو قطعی طور پر ایسا نہیں تھا۔ دو ہزار آٹھ میں تو خیر ن لیگ مرکز میں جیت بھی نہیں سکی تھی، 2013میں ن لیگ جیتی اور نواز شریف وزیراعظم بنے۔ اس الیکشن سے پہلے عمران خان کا بڑا زور تھا، انہوں نے بہت بڑے بڑے جلسے کئے اور ن لیگ کی جیت یقینی نہیں لگ رہی تھی، کلوز مقابلے کی توقع تھی، اگرچہ نشستوں میں خاصا فرق رہا، مگر تحریک انصاف نے ٹھیک ٹھاک ووٹ لئے بھی تھے۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں تو لگ رہا تھا کہ ن لیگ نہیں جیتے گی یا اسے جیتنے نہیں دیا جائے گا۔ ویسا ہی ہوا۔
میرے خیال میں ن لیگ کو ایسی واضح قسم کی پری الیکشن (Pre Election)برتری غالباً1990 اور 1997میں تھی، جب ان کی سیاسی حریف جماعت کو اقتدار سے نکالا جا چکا تھا اور تمام سیاسی قرائن اس طرف اشارہ کر رہے تھے کہ نکالے جانے والوں کو کسی بھی صورت واپس اقتدار میں نہیں لایا جائے گا۔
آٹھ فروری 2024ء کے الیکشن میں نجانے کیا نتائج آئیں، یہ بہرحال اندازہ ہو رہا ہے کہ ان میں مسلم لیگ ن کو برتری حاصل ہوگی۔ آگے کا خداجانے، آج ایسے لگ رہا ہے کہ پہلے نمبر پر یہی جماعت آئے گی۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ن لیگ کی اصل اور سخت حریف تحریک انصاف کی حالت ابتر ہوچکی۔ پارٹی کی قیادت اور صف اول کے بیشتر رہنما یا تو جیل میں ہیں یا پھر روپوش۔ ضلعی اور تحصیل سطح کے بھی رہنمااور کارکن مقدمات کا سامنا کرتے پھر رہے ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے لئے ٹکٹ جاری کئے تھے، ان میں سے بیشتر اب پارٹی چھوڑ چکے یا پھر سیاسی ایکٹو نہیں۔
ن لیگ کا اصل میدان اور حلقہ اثر پنجاب ہے۔ پنجاب کی قومی اسمبلی میں 141نشستیں ہیں، ان میں سے چالیس پنتالیس سیٹیں جنوبی پنجاب سے ہیں جبکہ سنٹرل پنجاب کی ستر، اسی کے قریب، بقیہ اپر پنجاب کی ہیں۔ اگر تحریک انصاف پنجاب میں اپنی پوری قوت سے ن لیگ کے مقابلے میں موجود نہیں ہوگی تو پھر ن لیگ کے لئے معاملہ بہت آسان ہوجائے گا۔ ن لیگ کے لئے برتری کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کی تیسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی نے پنجاب میں اپنا دائرہ اثر وسیع نہیں کیا اور ان کی جو حالت پانچ سال پہلے تھی، کم وبیش وہ اسی جگہ پر کھڑے ہیں۔
دراصل آصف زرداری ہر جگہ اپنی سیاست کو دیہی سندھ کے حساب سے چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہاں وہ اپنی پسند کی انتظامیہ، الیکٹ ایبلز پر انحصار اور کھلا پیسہ خرچ کرکے برتری حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں بھی یہی کرنے کی کوشش کی۔ جنوبی پنجاب سے الیکٹ ایبلز کو ملانے کی کوشش کی، کہا جاتا ہے کہ لاہور اور بعض دیگر جگہوں سے بعض تگڑے امیدواروں کو ملانے کے لئے مالی ترغیب بھی دی گئی۔ زرداری صاحب یہ نہیں جانتے کہ پنجاب میں بہرحال سیاسی بیانیہ کی ضرورت پڑتی ہے اور یہاں چند ایک حلقوں کے علاوہ کہیں پر بھی الیکٹ ایبلز کی سیٹیں محفوظ نہیں ہیں۔ یہاں مقامی سطح پر تگڑے امیدواروں کو اپنی برادری، جاگیروں یا کسی گدی نشینی کی وجہ سے کسی حد تک برتری تو حاصل ہوتی ہے، مگر انہیں الیکشن جیتنے کے لئے پارٹی ووٹوں کی ضرورت پڑتی ہے اور سیاسی بیانیہ بھی اہم ہوتا ہے۔ پنجاب کے بیشتر حلقوں میں چند فی صد سوئنگ ووٹ بھی ہے جو الیکشن کے عین وقت پر فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں جانا ہے۔ پیپلزپارٹی نے پنجاب میں نہ اپنی تنظیم میں نوجوان خون شامل کیا اور نہ ہی ان کے پاس جاندار سیاسی بیانیہ یا صوبائی سطح پر متحرک پارٹی قیادت۔ اس نااہلی کا فائدہ ن لیگ ہی کو ملاہے۔
اگر تحریک انصاف میدان سے باہر ہوئی یا جزوی طور پر حصہ لیا تو ا سکا تمام تر فائدہ ن لیگ کو ملے گا۔ اس لئے کہ پنجاب میں ووٹ بینک دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے۔ نواز شریف ووٹ بینک اور اینٹی نواز یا پرو عمران خان ووٹ بینک۔ ن لیگی ووٹ بینک کم یا زیادہ جتنا بھی ہے، وہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ملے گا۔ اگر مقابلے میں عمران خان کے امیدوار نہ ہوئے تو اینٹی ن لیگ ووٹرکا بڑا حصہ مایوس اور فرسٹریٹ ہو کر الیکشن ڈے سے لاتعلق ہوجائے گا۔ اس کے امکانات کم ہیں کہ ان کا ایک حصہ پیپلزپارٹی کی طرف چلا جائے۔
اس وقت ایسے لگ رہا ہے کہ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کو پنجاب میں ایک آپشن کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔ جہانگیر ترین کا جنوبی پنجاب میں اچھا نام ہے اور ان کے تعلقات بھی موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے کچھ الیکٹ ایبلز اور مضبوط امیدوار استحکام پاکستان پارٹی کی طرف جا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ممکن ہے یہ کام زیادہ ہو جائے۔ استحکام پاکستان پارٹی نے جنوبی پنجاب میں اپنی سیاسی سرگرمی بھی شروع کی ہے، خانیوال وغیرہ میں اس کے جلسے برے نہیں تھے۔ اس پارٹی سے شائد یہ توقعات ہیں کہ وہ پنجاب، خاص کر جنوبی پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا ایک معقول حصہ لے لے گی۔ ویسے یہ آسان ٹاسک نہیں ہے کیونکہ مضبوط سیاسی بیانیے کے بغیر جہانگیر ترین کی پارٹی کے لئے تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو توڑ کر ن لیگی امیدواروں کو ہرانا بڑا چیلنج ہے۔ بہرحال الیکشن میں بہت کچھ ہوتا ہے، کچھ چیزیں نیچے جاتی ہیں، کچھ اوپر۔
ن لیگ اپنا زیادہ انحصار پنجاب پر کرے گی، البتہ اس بار وہ بلوچستان سے بھی کچھ نشستیں جیتنا چاہتے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)کا بڑا دھڑا اس میں شامل ہونے کو ہے، اس سے انہیں وہاں فائدہ ہوگا۔ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کراچی کا دورہ بھی کریں گے اور وہاں پر وہ اس بار ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر سکتے ہیں۔ ادھر اندرون سندھ میں جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور جے یوآئی ف بھی کچھ جگہوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے لڑنا چاہتی ہے۔ ن لیگی قیادت کو ان کے بعض رہنما مشورہ دے رہے ہیں کہ انہیں بھی ان کے ساتھ مل جانا چاہیے تاکہ اندرون سندھ بھی کوئی سیٹ مل سکے۔ دیکھیں کراچی اور سندھ کے حوالے سے ن لیگ کس حکمت عملی کا اعلان کرتی ہے۔ ان کی سرگرمی سے اندازہ ہوپائے گا کہ کتنا شیئر لے سکیں گے؟
کے پی میں ن لیگ کا روایتی دائرہ اثر ہزارہ ڈویژن خاص کر ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ ہیں۔ اس بار ن لیگ کے صوبائی سربراہ امیر مقام کوشش کر رہے ہیں کہ وہ صوبے کی بعض دیگر نشستوں پر بھی مختلف جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے بریک تھرو کرنے کی کوشش کریں۔ امیر مقام کا اپنا علاقہ شانگلہ، سوات ہے۔ وہاں پر انہیں پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ن لیگ کو کئی اعتبار سے فی الوقت سیاسی برتری حاصل ہے، البتہ ان کے لئے اصل اور بڑا چیلنج تحریک انصاف اور اس کا تگڑا ووٹ بینک ہے۔ اگر انصافین امیدواروں کو پوری قوت کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے کا موقعہ ملا، تب معاملات مختلف ہوسکتے ہیں۔ ایسا نہ ہوا تو اس کا تمام تر فائدہ ن لیگ کوملے گا۔ ویسے ابھی الیکشن شیڈول کا بھی اعلان نہیں ہوا۔ انتخابی مہم بہت سی چیزیں صاف کر دیتی ہے۔ ن لیگی تھنک ٹینک اپنا بیانیہ بنانے میں لگے ہوں گے۔ ان کے اعلانات، نعروں کو عوام کتنی پزیرائی بخشتے ہیں، یہ جاننا اب زیادہ دور نہیں رہا۔