تین چار دن پہلے سرائیکی کے نامور شاعر مولوی لطف علی بہاولپور ی کے منظوم قصہ" سیفل نامہ" کا ذکر آیا۔ مولوی صاحب نے لگ بھگ ڈھائی سو سال قبل یہ قصہ لکھا تھا۔ سرائیکی زبان کا یہ کلاسیک قصہ مختلف صورتوں میں شائع ہوتا رہا، مگر اس میں بہت سی اغلاط تھیں، کئی الحاقی مصرعے بھی تھے، چھپائی بھی ناقص۔ معروف سرائیکی قوم پرست دانشور، مصنف، محقق مجاہد جتوئی نے سالہا سال کی محنت شاقہ کے بعد "سیفل نامہ بالتحقیق " شائع کیا ہے۔ عکس پبلی کیشنز لاہور نے بڑے سائز میں یہ اہم کتاب حسین انداز میں شائع کی ہے۔ اپنے پچھلے کالم میں تفصیل سے اس حوالے سے بات ہوئی۔ مجاہد جتوئی نے جس غیر معمولی محنت سے یہ شاندار ادبی، علمی کام کیا ہے، اس کا تعارف بھی کرایا تھا۔ آج یہ بتاتے ہیں کہ قصہ سیفل ملوک یا سیف الملوک ہے کیا؟
یہ دراصل ایک دیومالائی یا اساطیری داستان ہے جسے دنیا کی کئی زبانوں میں لکھا اورکہا جاتا رہا ہے۔ سیفل نامہ کے مطابق حضرت سلیمانؑ کے دور میں مصر کا شاہ عاصم متعدد شادیاں کرنے کے باوجودبے اولادتھا۔ آخر اس نے ستر سال کی عمر میں ایک یمنی شہزادی سے شادی کی اور اس سے اس کا بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام سیفل ملوک رکھا گیا(بعض جگہوں پر اسے سیف الملوک بھی کہا گیا)۔ اسی روز بادشاہ کے وفادار اور عقل مند وزیر صالح کے گھر بھی بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام سعد رکھا گیا۔ شہزادے سیفل کے بارے میں شاہی نجومیوں نے بتایا کہ چودہ برس کی عمر تک اس بچے کی حفاظت کی جائے، اس کے بعد اسے ایک مہم درپیش ہوگی، اگر وہ بچ کر واپس آگیا تو بہت بڑا بادشاہ بنے گا۔ متفکر باپ شاہ عاصم نے سیفل کی حفاظت کے لئے اسے ایک زیرزمین تہہ خانہ میں رکھا، اس کے ساتھ کے لئے وزیر کے بیٹے سعد کو بھی رکھا گیا۔ وہیں پر ان کی تعلیم، تربیت وغیرہ کا انتظام ہوا۔
جب شہزادہ چودہ سال کا ہوا تو بادشاہ کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا۔ شاہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر خوش ہوااور بہت سے تحائف عطا کئے۔ ان میں ایک بہت ہی بیش قیمت خاص نگینہ اور ایک ریشمی کپڑے پر بنی ہوئی حسین تصویر تھی۔ نوجوان شہزادہ تصویر دیکھ کر ایسا لٹو ہوا کہ اس نے عہد کر لیا کہ شادی کرنی ہے تو اسی حسینہ سے، ورنہ نہیں۔ پہلے تو سیفل نے بات دل میں رکھنے کی کوشش کی اورمنہ لٹکائے (گواچی گاں کی طرح)اداس پھرتا رہا۔ بادشاہ نے پوچھا تب بھی نہ بتایا۔ آخرکار وزیر کے مشورے سے شہزادے کے دوست سعد کے ذریعے سیفل سے اگلوایا گیا۔ بادشاہ کو ماجرا پتہ چلا تو پریشان ہوا۔ اسے یاد آیا کہ یہ تحائف تو حضرت سلیمانؑ نے اسے بھیجے تھے، انہیں ملک ارم کے رہنے والے پریوں کے بادشاہ شہپال نے بطور نذرانہ پیش کیا تھا۔ کپڑے پر تصویر دراصل پریوں کے شہپال کی حسین وجمیل بیٹی بدیع الجمال کی تھی۔ شہزادہ اپنی ضد پر اڑا رہا تو بادشاہ نے مختلف ممالک میں اپنے قاصد بھیجے کہ پتہ کرو یہ ملک ارم کہاں ہے؟ پریوں کا ملک مگر انہیں کیسے ملنا تھا، سال بعد مایوس لوٹے۔
شہزادے سیفل کو پتہ چلا تو اس نے خود تلاش میں نکلنے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ نے بڑا روکا، مگر سیفل پر عشق کا بھوت سوار تھا، وہ اڑا رہا اور آخر کئی سو کشتیوں کا بیڑا لے کر نکل کھڑا ہوا، اس کا دوست وزیر زادہ سعد بھی ساتھ تھا۔ راستے میں بہت سی مشکلات آئیں۔ آخر کسی طرح یہ بیڑا چین پہنچا۔ وہاں کچھ وقت گزار کر پھر نکل کھڑے ہوئے، راستے میں ایک خوفناک طوفان نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ چند افراد بچے تو بحری قذاقوں کے ہتھے چڑھ گئے، قزاقوں کے سردار نے شہزادہ سیفل کو اپنی بد صورت اور بد کردار بیٹی کے حوالے کر دیا، شہزادے نے مگر اپنی عزت اور کردار کی حفاظت کی یعنی لنگوٹ کا پکا نکلا۔ پھر وہ کسی نہ کسی طرح بھاگ نکلا۔
ایک اور سمندری طوفان کا نشانہ بنے اور پھر شہزادہ سیفل اپنے سات ساتھیوں سمیت ایک جزیرے پر جا پہنچا، وزیرزادہ سعداس دوران اس سے بچھڑ چکا تھا۔ یہاں پر ایک دیو ہیکل آدم خور پرندے گورن یا گورنڑ پکھی نے حملہ کرکے ساتوں ساتھیوں کو ہلاک کر دیا اور پھر سیفل کو بھی اٹھا کرپہاڑی پر بنے اپنے گھونسلے پر لے گیا۔ وہاں اس کے چار خونخوار بچے موجود تھے، مگر خوش قسمتی سے ان کے پیٹ بھرے تھے۔ سیفل پریشان بیٹھا تھا کہ کیا کروں، موت سر پرمنڈلا رہی ہے۔ اچانک کہیں سے ایک بہت بڑا اژدھا آ گیا، چونکہ گورن پکھی گھونسلے سے باہر گیا تھا، اژدھا نے حملہ کرکے چاروں بچوں کو کھالیا، سیفل وہاں سے کھسک کر نکل گیا اور کسی طرح نیچے اتر آیا۔
نرم نازک نفیس شہزادہ برے حال میں جنگل سے گزررہا تھا، وہاں پر طرح طرح کے خوفناک جانور تھے۔ اس کیفیت کو مولوی لطف علی نے کمال انداز میں بیان کیا۔ یہ سرائیکی اشعار پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں بتایا کہ جنگل میں بے شمار چیکاٹ، شور، آوازیں، ہائوہو، ہل ہنگامہ، ہنگاریں، غلغل، غرراٹے، غوغے، فریادیں، پکاریں، دہکوں، دہکاروں کی آوازیں تھیں۔ پرندوں کا چل چلکار، ہنگامہ، رن جھن، چنگھاڑیں، بھیڑیوں کی غراہٹیں، گینڈوں کی گراہٹ، نتھنوں سے نکالی گئی پرجوش گرم ہوائیں جبکہ بندروں، پہاڑی بکروں کی روڑیں، راڑاں کرتے ریچھ، گوریلے، چیتے، شیر وغیرہ موجود تھے۔
شہزادہ سیفل ہزار مشکلات سہتا اگے بڑھتا گیا۔ ایک جنگل میں اسے کتوں کے سائز کے خوفناک مکوڑے نظر آئے۔ پھر وہ ایک ایسے شہر پہنچا جہاں بندر ہی بندر تھے اور ایک انسان ان کا سردار تھا۔ اس بندروں کے سردار نے سیفل کا خیال رکھا۔ سیفل آگے بڑھتا گیا۔ آخر ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں ایک شاندار محل تھا۔ اندر گیا تو ایک تخت پر نہایت حسین وجمیل شہزادی سو رہی تھی، اٹھانے پر بھی نہیں اٹھی۔ آخر سیفل نے دیکھا کہ دیوار کے پاس ایک تختہ سیاہ تھا جس پر کچھ منتر لکھے تھے، اس نے وہ پڑھے تو شہزادی اٹھ بیٹھی۔ وہ سیفل کو دیکھ کر حیران ہوئی اور پھر بتایا کہ یہ ایک دیو کا محل ہے اور وہ اس شہزادی کو ہوا کا بگولہ بن کر اٹھا آیا تھا اب اسے قید کر رکھا ہے۔
ممکن ہے بعض قارئین یہ سمجھیں کہ سیفل اس شہزادی پر لٹو ہوگیا۔ نہیں بھئی۔ کیاانہوں نے سیفل کو ہمارے ایک کرکٹر کی طرح سمجھ لیا جس نے اپنی شہزادیوں جیسی بیوی اور بیٹے کی ماں کو طلاق دے کر ایک اداکارہ سے شادی کر لی۔ شہزادہ سیفل کردار کا بڑا پختہ اور سچا عاشق تھا۔ اس نے جھٹ سے شہزادی کو اپنی بہن بنا لیا اور اپنے عشق کی داستان سنائی۔ تب شہزادی نے اسے بتایا کہ وہ اس حسین پری بدیعل بانو سے واقف ہے، وہ پریوں کے بادشاہ شہپال کی بیٹی ہے اور بچپن میں کچھ عرصہ کے لئے ان کے گھر میں رہی اور اب بھی سال چھ ماہ بعد چکر لگا لیتی ہے۔ شہزادی نے اسے کہا کہ دیو سے جان چھڑائو تب ہی ہم جا سکتے ہیں۔ پتہ چلا کہ دیو کی جان ایک کبوتر میں ہے۔ وہ پنجرہ زیرآب رہتا ہے، مگر ایک خاص نگینہ دکھایا جائے تو پنجرہ باہر آ جاتا ہے۔
اب ہم اپنے پڑھنے والوں کو یاد دلائیں گے کہ شہزادہ سیفل کے باپ نے تصویر کے ساتھ ایک حسین نگینہ بھی تحفہ دیا تھا۔ وہی طلسماتی نگینہ سیفل کے ساتھ تھا۔ خیر اس نگینے کی مدد سے سیفل نے دیو کا خاتمہ کیا اور پھر شہزادہ اس شہزادی کو لے کر اس کے وطن واپس پہنچا۔ ان کی مدد سے اس حسین وجمیل بدیعل بانو سے شادی ہوئی۔ وزیرزادہ سعد بھی انہیں راستے میں مل گیا تھا۔ شہزادی کی بہن سے سعد کی شادی بھی ہوگئی۔ اب یہ چاروں یعنی دونوں نئے جوڑے ملک مصر واپس آتے ہیں۔ شاہ عاصم خوشی سے استقبال کرتا ہے اور پھر بادشاہت سیفل کو سونپ کر ریٹائر ہوجاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد وہ فوت ہوجاتا ہے۔ سیفل نے بطور بادشاہ بہت اچھی حکومت کی، اس کے بچے بھی ہوئے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ آخر میں کہانی کا انجام یعنی" کل نفس زائقہ الموت۔ "
یہ بتانا بھول گیا کہ مولوی لطف علی صاحب نے بیچ بیچ میں مناسب مواقع پر ریاست بہاولپور کے تب نواب رکن الدولہ بہاول خان عباسی کی شان میں توصیفی اشعار بھی ٹانکے ہیں۔ ایک غریب بے نوا شاعر اور کیا کرتا؟ نواب کا قصیدہ لکھنا ان کی مجبوری تھی اور قصیدے میں مبالغہ آمیز الفاظ تو خیر ہوں گے ہی۔ اختتامی اشعار میں بھی نواب بہاول خان کی ستائش کی اور ساتھ ہی ملتان کے نواب مظفر خان کی تعریف بھی کی۔ یہ غالباً ملتان کے آخری نواب مظفر خان سدوزئی کا تذکرہ ہے جو بعد میں رنجیت سنگھ کی فوج سے لڑتے ہوئے اپنے دس بیٹوں سمیت شہید ہوگئے تھے۔
سیفل نامہ ایک داستان تو ہے ہی، اس کا اصل کمال اور خوبصورتی اس کی ادائیگی اورمترنم اشعار میں ہے۔ اسے بے تہاشا گایا گیا ہے۔ لاکھوں لوگوں نے سیفل نامہ زبانی یاد کیا تھا اور وہ اپنے ہجر، وصال اور دیگر کیفیات میں سیفل کے اشعار سے لطف لیتے تھے۔ روحانیت سے تعلق رکھنے والے اس عشق مجاذ میں عشق حقیقی کے نکات نکالتے اورروحانی حظ اٹھاتے۔
سرائیکی زبان بولنے والے اور اس کے ادب سے دلچسپی رکھنے والے اب مجاہد جتوئی کے ترتیب شدہ "سیفل نامہ بالتحقیق "سے زیادہ لطف اٹھا سکتے ہیں کہ اس میں مشکل الفاظ کے معنی کے ساتھ آسان لفظی ترجمہ اورعمدہ تحقیقی نکات بھی بیان کئے گئے ہیں۔