قرارداد مقاصد ہماری قومی اور جمہوری، پارلیمانی تاریخ کا بہت اہم باب ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرارداد مقاصد اس پارلیمنٹ نے منظور کی جس میں قائدین تحریک پاکستان تھے، جو پاکستان کے بعد کام کرنے والی پہلی پارلیمنٹ تھی۔ اسے پیش کرنے اور منظور کرنے میں قائد ملت وزیراعظم لیاقت علی خان کا بہت اہم کردار ہے۔ ابتدا میں اس کی حیثیت آئین کے دیباچے کی سی تھی، پھر اسے آئین کا باقاعدہ حصہ بنا لیا گیا۔
قرارداد مقاصد کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس پر ہمارے رائٹ اور لیفٹ کے تمام سیاستدانوں کا ایک طرح سے اتفاق رائے رہا۔ 1973 کے آئین کا یہ حصہ رہی تو بعدمیں ڈکٹیٹروں اور سویلین حکمرانوں کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ خواہ وہ جنرل ضیا جیسا مذہبی مزاج آمر تھا یا جنرل پرویز مشرف جیسا لبرل، سیکولر آمر، کسی نے اسے نہیں چھیڑا۔ حتیٰ کہ ہماری جدید تاریخ میں جو سب سے بڑی اور متفقہ آئینی ترمیم یعنی اٹھارویں ترمیم لائی گئی، اس میں پی پی پی کے سیکولر جبکہ سینٹرسٹ مسلم لیگ ن اور مذہبی جماعتوں سے لے کر اے این پی، ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کے اراکین نے بھی اسے نہیں چھیڑا اور سپورٹ کیا۔
ہمارے ہاں قرارداد مقاصد کے خلاف ایک حلقہ فکر کچھ ایسے تسلسل سے لکھتا رہا کہ کبھی تو اس پر منظم مہم کا گماں ہونے لگتا ہے۔ لبرل، سیکولر دوست قرارداد مقاصد کو سخت ناپسند کرتے اور اس پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کی جو لہر پچھلے چند برسوں سے چل رہی ہے، اس کی ذمہ داری بھی قرارداد مقاصد پر تھوپ دی جاتی ہے۔ یہ سوچ کر بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ آخر اس میں ایسا کیا پوشیدہ ہے کہ یاردوست اس کے درپے رہتے ہیں؟
قرارداد مقاصد 12 مارچ 1949ء کو منظور کی گئی تھی۔ قرارداد مقاصد میں نے متعدد بار پڑھی۔ مجھے تو کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اس سے مذہبی انتہاپسندی کیسے پروان چڑھی؟ یہ کیسی انتہاپسندی تھی، جو چالیس، پینتالیس سال بعد اچانک نمودار ہوگئی۔ سب جانتے ہیں کہ پچاس کی دہائی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں ایک خاص قسم کا الٹرا لبرل اور کھلا ماحول تھا۔ پرانے صحافی لاہور کے مال روڈ پرواقع ان ہوٹلوں کا قصہ سناتے ہیں جہاں رقص دیکھنے کے ساتھ ہر قسم کے "مشروبات" میسر تھے، ان کا تصور کرکے آج بھی بعض (لبرل)لکھنے والوں کے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔
ساٹھ کا عشرہ ایوب خان کا تھا، جو ہماری قومی تاریخ کے لبرل ادوار میں شمار ہوتا ہے۔ اسی دور میں عائلی قوانین کی وہ قانون سازی ہوئی، جسے ہمارا مذہبی طبقہ کبھی مان نہیں سکا۔ ایوب خان تو ملک کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان سے صرف جمہوریہ پاکستان کرنا چاہتے تھے۔ اس پورے عمل میں قرارداد مقاصد بے چاری آئین کے دیباچے میں لیٹی خاموش، مسکین نظروں سے یہ سب دیکھتی رہی۔ 50ء کی دہائی کا الٹرا لبرل شہری سماجی ماحول اس کے آنے سے تبدیل ہوا اور نہ ہی یہ ایوب خان کے ماڈرن ازم کا کچھ بگاڑ سکی۔
ستر کی دہائی کا تین چوتھائی حصہ بھٹو صاحب کے نام جاتا ہے، جن کی لبرل اور سیکولرفکرکے بارے میں کسی کو شبہ نہیں۔ بھٹو صاحب نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا، شراب پر پابندی لگائی، جمعہ کی چھٹی وغیرہ، مگر مجموعی ملکی فضا معتدل ہی رہی، ایسا نہیں کہ مذہبی عناصر چھا گئے ہوں۔ مذہبی شدت پسندی کا عنصر 80ء کے عشرے میں بڑھا، فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی باقاعدہ طور پر وجود میں ٓئیں۔ ان کی وجوہ سب کے سامنے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں مذہبی انقلاب اور پھر افغانستان میں روسی قبضے کے خلاف دس سال تک جاری رہنے والی تحریک مزاحمت۔ غیر ریاستی عسکری تنظیمیں اس ملک میں پہلی باربنائی گئیں۔ نوے کی دہائی میں ان تمام تنظیموں کا رخ مغرب کے بجائے مشرق کی جانب ہوگیا۔ پوسٹ نائن الیون منظرنامہ ایک اور طرح سے قیامت خیز ہوا، جب ان جہادی تنظیموں میں سپلنٹر گروپ پیدا ہوئے جو خود پاکستانی اداروں اور ریاست پر حملہ آور ہوگئے۔
سوال یہ ہے کہ مذہبی انتہاپسندی کی ان مختلف مگر جانی پہچانی صورتوں میں قرارداد مقاصد کیا کیا قصور؟ کیا الیاس کشمیری، بیت اللہ محسود، قاری حسین، ملا فضل اللہ وغیرہ نے قرارداد مقاصد پڑھ کر ہتھیار اٹھائے اور ہزاروں افراد کے قتل کا باعث بنے؟ ظاہرہے ایسا نہیں ہے۔ ان میں سے تو کسی نے قرارداد مقاصد کا ایک لفظ تک نہیں پڑھا ہوگا۔ یہ شدت پسند تو سرے سے جمہوریت اور آئین تک کو کفریہ نظام قرار دیتے ہیں۔ اس شدت پسندی، عسکریت پسندی کی جانی مانی واضح وجوہات تھیں، جن پر اب بڑی حد تک اتفاق ہوچکا ہے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کی بعض پالیسیاں غلط تھیں، کچھ کے نفاذ میں غلطیاں ہوئیں اور ہر غلطی کی طرح ان کے نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پھر قرارداد مقاصد سے بعض حلقوں کی ناراضی کیوں؟ چودہ اگست 2024کے اس روشن دن اس سوال کا جواب پانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اس کے لئے ہمیں اس کا متن پڑھنا ہوگا۔
قرارداد مقاصد کا متن "اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیر حاکمِ مْطلَق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ مجلس دستور ساز نے جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خودمختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
٭ جس کی رْو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
٭ جس کی رْو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
٭ جس کی رْو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
٭ جس کی رْو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
٭ جس کی رْو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہوگی۔
٭ جس کی رْو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت سازی کی آزادی شامل ہوگی۔
٭ جس کی رْو سے اقلیتوں اور پسماندہ، پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔ ٭ جس کی رْو سے نظامِ عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔
٭ جس کی رْو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ تاکہ اہل پاکستان فلاح و بہبود کی منزل پا سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امنِ عالم اور بنی نوعِ انسان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ "
قرارداد مقاصد پڑھ کر اندازہ لگا لیا جائے کہ اس نے آخر کس طرح مذہبی شدت پسندی کو ہوا دی یا پھر اس میں پاکستانی اقلیتیوں کے خلاف آخر کیا پوشیدہ ہے؟ اس میں اسلام کے جمہوریت، حریت، رواداری، مساوات اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کے اتباع کی بات کی گئی۔ دو تین جگہوں پر یہ واضح کیا گیا کہ اقلیتوں کے اپنے مذہب پر عمل، عقیدے کے تحفظ اور ثقافت کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اعتراض آخر کس بات پر ہے؟
کیا صرف اس جملے پر اعتراض ہے۔۔ "اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیر حاکمِ مْطلَق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ " اگر ایسا ہے تو صرف اسی پر بات کی جائے۔ کھل کر کہا جائے کہ ہم قرارداد مقاصد کے اس لئے مخالف ہیں کہ اس میں خدا کا نام لیا گیا، اسے کائنات کا حاکم مْطلَق مانا گیا ہے۔