سوشل میڈیا پر آئے روز کوئی نہ کوئی بحث چلتی رہتی ہے، آج کل فیس بک پر ایک بحث چل رہی ہے جس میں بعض متشکک (Agnostic) افراد مختلف بنیادی مذہبی عقائد اور افکار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ قرآن پاک پر بھی بعض اعتراضات وارد ہوئے، جن کے معقول وشافی جواب دے دئیے گئے۔ دراصل ایسے فتنے بعض مغربی مستشرق سکالرز نے پیدا کئے ہیں۔ ان مستشرقین نے کچھ اچھے علمی کام بھی کئے مگر اپنے مخصوص مائنڈ سیٹ کے پیش نظر یا پھر کسی شعوری ایجنڈے کے تحت مختلف شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مسلم دینی سکالرز ان کے جواب دیتے رہے ہیں۔ بعض اعتراضات اور سوالات تو صدیوں قبل اٹھائے گئے تھے اور تب بھی ان کا مدلل جواب دیا گیا۔
خیر اس سب کچھ کو دیکھتے، پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کا اپنا تجربہ بھی شیئر کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر کچھ باتیں لکھیں اور پھر لگا کہ اپنے قارئین کے ساتھ بھی یہ شیئر ہوں۔
سب سے پہلے ایک حقیقت کا اعتراف کہ مجھے عربی نہیں آتی، میں نے قرآن پاک کا مطالعہ بھی بہت تفصیل اور گہرائی سے نہیں کیا۔ یہ ایک کمزوری اور نالائقی ہے، مگر چونکہ امر واقعہ ہے اس لئے بیان کر دیا۔ اس کالم میں اپنا حوالہ زیادہ ہے، میں کا لفظ کئی بار آئے گا، مگر مجبوری ہے چونکہ اپنے ذاتی تجربے کو بیان کرنا تھا، ا س لئے ایسا کرنا پڑا۔ اللہ معاف فرمائے۔
میں ایک اوسط درجے کا سہی، مگر خاصا پرجوش قاری ہوں، کتابیں پڑھنے سے بہت دلچسپی رکھنے والا۔ اردو کے علاوہ انگریزی کی وساطت سے بہت سی اچھی کتب پڑھیں، بڑے اعلیٰ نثرنگاروں کو بھی پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اردو کے سحرانگیز مصنفین کو پڑھا۔ خطبات، تقاریر پڑھنے سے بھی دلچسپی رہی ہے، دنیا کے بہت سے نامور خطیبوں کی گفتگو پڑھی ہے۔ تراجم کے ذریعے عرب خاص کر جاہلی عرب کے نامور خطبیوں، مقررین اور اہل دانش کی گفتگو پڑھی۔ ان میں سے بعض خطبے مسحور کن تھے۔
عربی خطبوں کے حوالے سے ایک حیران کن اور ممتاز نام سیدنا علی کرم اللہ وجہ کا ہے۔ نہج البلاغہ کا میں نے اردو ترجمہ پڑھا، مفتی جعفر حسین نجفی نے کیا تھا۔ وہ ہمارے ایک بہت محترم سینئرصحافی دوست ملک فیض بخش کے سسر تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، کیسے خزانے سے اردو قارئین کو انہوں نے متعارف کرایا۔ سیدنا علیؓ کے خطبات کی روانی، فصاحت وبلاغت کے کیا کہنے۔ آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔
خطبات اور فرمودات کے حوالے سے سب سے بڑا اور عظیم ترین نام تو جناب رسالت مابﷺ کا ہے۔ آپ ﷺ کے خطبات بھی پڑھے۔ اردو ڈائجسٹ نے ایک زمانے میں رحمتہ العالمین نمبر چھاپا جس میں جواہر نبویﷺ کے عنوان سے بہت دلچسپ اور بھرپور انتخاب دیا گیا۔ اہل سنت احادیث کی جن کتابوں کو معتبر سمجھتے ہیں انہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے، اس میں حدیث کی چھ کتب شامل ہیں، صیح بخاری، صیح مسلم، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابودائود، سنن ابن ماجہ۔ ان میں سے کچھ احادیث ایسی ہیں جو صحاح ستہ کی ایک سے زائد کتب میں ہیں۔ ایک صاحب نے ان تمام کو اکھٹا کر تین ضخیم جلدوں میں اکھٹا کر دیا ہے۔ اس میں صحاح ستہ کی یہ تمام احادیث آ گئی ہیں۔ اس کتاب کو بھی پڑھنے کی کسی قدر کوشش کی۔
مجھے بعض اہل تشیع دوستوں کی مہربانی سے آئمہ اطہار کے اقوال مبارک بھی پڑھنے کو ملے، بعض اہم کتب بھی دیکھیں۔ حضرت امام زین العابدینؒ کی دعائوں نے ہمیشہ مسحور کیا۔ جناب امام باقرؒ اور سیدنا امام جعفر صادقؒ کے کلام اور دیگر آئمہ کے اقوال بھی پڑھے اور حظ اٹھایا۔
عربی ادب کی تاریخ میں خاص کر بنو عباس کے دور کے بعض اہم نثرنگاروں کی منتخب تحریروں کے تراجم پڑھے۔ جاحظ اور عبدالحمید الکاتب وغیرہ۔ ایک جگہ میں نے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور اور حضرت نفس زکیہ شہید کے باہمی خطوط پڑھے۔ کمال استدلال کے نمونے دیکھنے کو ملے۔ کاش عربی جانتا ہوتا تو بہت کچھ مزید پڑھنے کو ملتا۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بطور قاری انسانی کلام کو جانچنے، پرکھنے، سمجھنے میں کسی حد تک درک حاصل ہے۔ جب میں نے پہلی بار قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھا تو حقیقی معنوں میں ہوش اڑ گئے۔ اندازہ ہوا کہ الہامی کلام کیا ہوسکتا ہے۔ ایسی قوت، ہیبت اور ٹھاٹھیں مارتے سمندرکی سی روانی، جلال اور دبدبہ کسی انسان کے کلام میں آ ہی نہیں سکتا۔ یہ یقین ہوگیا کہ یہ کلام کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔
اسے باریک بینی سے پڑھنے کی کوشش کی اور اس وقت کے ایک اشکال کے مطابق خاص زاویے سے دیکھا تو یہ بات بالکل کلیئر ہوگئی کہ اس کے مصنف رسول اللہ ہو ہی نہیں سکتے، کیونکہ اگر (خدانخواستہ) وہ اس کے مصنف ہوتے تو بہت سی جگہوں پر وہ سب کچھ بیان نہ ہوپاتا۔
یہ حقیقت ہے کہ قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھنے والا ہر شخص فوراً جان جاتا ہے کہ رسول اللہ کا یہ کلام نہیں۔ بلکہ یہ کسی بھی انسان کا کلام نہیں۔ یہ کتاب پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ اس کائنات کا خالق ہی اس کا متکلم یامصنف ہے اور وہ بار بار کسی لحاظ کے بغیر یہ بات بتا رہا ہے۔ اپنے قارئین کو یہ بات سمجھا رہا ہے کہ یاد رکھو، سمجھ لو کہ میں ہی سب کچھ ہوں، میں ہی اصل طاقت ہوں، سب کچھ میرے ہی ہاتھ میں ہے اور کوئی نہیں جو میری ہمسری کر سکے۔ اگر کوئی انسان اس عظیم ترین کتاب کا مصنف ہوتا تو وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا، وہ کہیں نہ کہیں ڈنڈی مارتا۔ اگر کوئی بہت ہی چالاک شخص ہوتا پھر بھی اس سے کہیں نہ کہیں غلطی ہو ہی جانی تھی۔ قرآن پاک میں جتنا زور دے کر اور جس قوت کے ساتھ شرک کی ممانعت کی گئی، اس موضوع پر بات کی گئی، وہی یہ سمجھانے کو کافی ہے کہ کتاب کا خالق کوئی انسان نہیں بلکہ اللہ رب العزت ہی ہے۔
میں ایک نالائق اور اوسط سے کم درجے کا قرآن شناس ہوں، کاش اس طرف زیادہ توجہ دے پاتا، مگر پھر بھی میرے خیال میں قرآن پاک غیر جانبداری سے، کھلے ذہن سے پڑھنے والاہر شخص چند نکات فوری سمجھ لے گا:
اول: یہ انسانی کلام نہیں۔ اس کا خالق کوئی بہت ہی طاقتور، بے پناہ قوت، عظمت اور غلبہ رکھنے والا ہے۔ ایسا جس کے ہاتھ میں سب زمینیں، آسمان اور بے شمار گلیکسیز ہیں۔
دوم: یہ لب ولہجہ اور انداز ابتدا سے آخر تک چلتا ہے۔ کہیں پر بھی یہ نہیں لگتا کہ انداز بدل گیا یا مصنف اور ہے۔ اگر کسی مستشرق نے یہ بات کہی ہے تو حقیقی معنوں میں اس نے جھک ہی ماری ہے۔
سوم: کوئی پرلے درجے کا متعصب شخص ہی یہ تصور کر سکتا ہے کہ اس کے ایک حصے کا مصنف کوئی اور ہے اور بقیہ کسی اور نے لکھا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ آپ چاہے مسلمان ہوں یا نہ ہوں، صرف دیانت دار قاری ہوں، یہ بات آپ پر واضح ہوجائے گی کہ قرآن کسی انسان کا کلام ہو ہی نہیں سکتا۔
چہارم: اس کی ہر سورت میں ربط موجود ہے۔ مجھے بعض متشککین اور ملحدین کے اس بے سروپا دعوے پر حیرت ہے کہ طویل قرآنی سورتوں میں ربط نہیں ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ ایسا بالکل نہیں لگتا۔ اگر آپ کو قرآنی سورتوں کا پس منظر معلوم ہے تو پھر یہ سب کچھ واضح ہوجائے گا۔ قرآن میں کوئی خامی نہیں، البتہ پڑھنے والے کے فہم میں ہوسکتی ہے۔
پنجم: مجھے یہ لگا کہ ہمارے بیشتر مسلکی باتیں اور چھوٹے موٹے مسئلے مسائل فوری چھٹ جاتے ہیں، اگر ہم قرآن پاک توجہ سے پڑھیں۔ قرآن ان تمام مسائل کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔
ششم: اگر آپ ایک حساس قاری ہیں تو بہت جگہوں پرپڑھتے ہوئے خاص تاثیر محسوس ہوگی۔ آنکھیں نم ہوجائیں گی، کئی مقامات پر دل میں ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے تو کہیں آدمی کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہفتم: ہم سب جانتے ہیں کہ ترجمہ میں اصل متن کی قوت کا خاصا کم حصہ ہی منتقل ہوپاتا ہے۔ جو لوگ عربی جانتے ہیں اور قرآن فہمی کا ہنر ان کے پاس ہے، وہ یقینی طور پر زیادہ لطف اٹھا سکتے ہوں گے۔
ہشتم: جس کسی کو بھی قرآن کے حوالے سے کسی بھی قسم کا شک ہے، اسے چاہیے کہ وہ قرآن پاک پہلے ترجمے سے پڑھے اور پھر کوئی سی بھی اچھی تفسیر پڑھ لے تو اس کے مسائل ان شااللہ ختم ہوجائیں گے۔
قرآن کو صرف اخلاقیات یا تذکیہ اخلاق کی کتاب کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ اخلاقیات تو ظاہر ہے اس کا ایک موضوع ہے، مگر اس کا بنیادی نکتہ خالق کائنات کا تعارف کرانا ہے، اللہ اور اس کے انبیا اور اس کی شریعت اور اس کے آخری رسول محمد ﷺ کی شخصیت کا بھرپور تعارف قرآن کے بنیادی نکات میں سے ہیں۔
آپ ان تمام چیزوں کا براہ راست تجربہ اور مشاہدہ چاہتے ہیں تو آج ہی ترجمے سے پڑھنا شروع کر دیں۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی رائے خود قائم کریں۔ آج کل قرآن کے اچھے تراجم تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں۔ نیٹ پر مختلف تفاسیر، تراجم مل جاتی ہیں، کئی ایپ بھی موجود ہیں۔ کتابی صورت میں بھی لئے جا سکتے ہیں۔ قرآن سے اپنا رشتہ تو جوڑیں، باقی کام وہ خود کر لے گا۔