اپنے کالم نگاری کے تجربات کے حوالے سے چند ایک بنیادی باتیں قارئین سے شیئر کررہا ہوں، اس کی دو اقساط گزشتہ دو دنوں میں شائع ہوچکی ہیں، یہ تیسرا اور آخری حصہ ہے، اگر ممکن ہوا تو سوشل میڈیا رائٹنگ کے تجربے کے حوالے سے بھی الگ سے لکھ دوں گا۔ ایک سوال جو بہت سے دوست پوچھتے ہیں کہ اگر ہم سیاست پر کالم نہ لکھنا چاہیں تو پھر کیا ہوگا، اس کا جواب نیچے عرض کیا ہے:
آپ سیاست سے گریز نہیں کر سکتے سیاست ہمارے ہاں بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ سوسائٹی بھی پولیٹکلائز ہوچکی اور ٹی وی چینلز پر بھی ہر جگہ کرنٹ افیئرز ہی ڈسکس ہوتے ہیں۔ سیاست کی اس افراط نے ایک خاص قسم کی بیزاری بھی پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کے ردعمل میں بہت سے لوگوں نے غیر سیاسی موضوعات پر لکھنے کو اپنا شیوہ بنایا۔ خواتین کی اکثریت سیاست اور سیاسی بحثوں سے فاصلہ رکھتی ہے۔ ان کی پوسٹوں اور بلاگزمیں بھی یہی غیر سیاسی رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ بہت بار غیر سیاسی، ہلکے پھلکے کالموں کی عوامی پزیرائی زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے اکثر دیکھا کہ جب کتابوں، فلموں، موٹی ویشنل موضوع پر لکھا تو بہت زیادہ ریسپانس آیا۔ اس کے باوجود میرا مشورہ ہے کہ سیاست کو اپنے لئے شجر ممنوعہ نہ بنائیں۔ بے شک غیر سیاسی، سماجی موضوعات پرلکھیں، اگرصلاحیت ہے تو فکاہیہ بھی لکھیں۔ سیاست پر مگر لکھتے ضرور رہیں۔ سیاسی حرکیات کو سمجھنے کی کوشش کریں، سنجیدگی، باریک بینی سے سیاسی منظرنامے کو پڑھنے، سمجھنے کی کوشش کریں۔ سیاست پر لکھتے بغیر آپ کا بھرپور تاثر (Impact)نہیں بن سکتا۔
اخبار عام قاری بھی خریدتا ہے، مگر معاشرے کے فعال طبقات (ڈاکٹر، انجینئر، آرکیٹیکٹ، بزنس مین، سافٹ ویئر ڈویلپر، ٹیچر، سرکاری ملازم، فورسز کے لوگ وغیرہ)میں اثر ونفوذ حاصل کئے بغیر کوئی اہم، نمایاں کالم نگار نہیں بن سکتا۔ اگر آپ متانت، سنجیدگی، مہارت کے ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں تو آپ کی رائے ان لوگوں کے لئے اہم تصور ہوگی۔ اس کے بغیر آپ صرف سوشل میڈیائی رائٹر ہی رہیں گے۔ آپ کو مین سٹریم میڈیا پر اہمیت نہیں ملے گی، تحریر کے ذریعے آپ مالی کفالت بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔
فکاہیہ کالم نگار بھی اگر سیاست کو اپنے طنز ومزاح کا ہدف نہ بنائے تو بہت جلد غیر متعلق ہوجاتے ہیں۔ صرف وہی شگفتہ نگار ہی کامیاب ہوئے، جنہوں نے اپنی تحریر میں مزاح اور سیاست کا امتزاج بنایا۔ یاد رہے کہ یہ سب باتیں صرف پرنٹ میڈیا کے بارے میں لکھی ہیں۔ ڈیجٹیل میڈیا خاص کر یوٹیوب، فیس بک کی اپنی ڈائنامکس ہیں، وہاں سماجی موضوعات پر چونکا دینے والی بات رش لے جاتی ہے۔ یہ اصول وہاں کے لئے موزوں نہیں۔
سوشل میڈیائی تحریر نثری نظم کی مانند ہے نثری نظم اردو ادب کی ایک متنازع صنف ہے۔ ایک زمانے میں تو اسے شاعری تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ آج اسے شاعری تومان لیا گیا ہے، مگر صرف اردو نثری نظم لکھ کر آپ اپنے آپ کو بڑا تخلیق کار تسلیم نہیں کرا سکتے۔ البتہ اس شاعر، تخلیق کار کے لئے رائے مختلف ہوجاتی ہے جو غزل یا اچھی نظم کہہ سکتا ہو۔ بعض بڑے نقاد کہتے ہیں کہ جو شخص اچھا شعر کہہ سکتے ہے، وہ نثری نظم ضرور کہے کہ اس کا فن اورمہارت مسلمہ ہے۔ کم وبیش یہی بات سوشل میڈیا کے بارے میں ہے۔
سوشل میڈیا پر لکھی تحریر فوری ریسپانس دیتی ہے، لائکس، شیئر اور کمنٹس کی صورت میں آپ کے سامنے چند گھنٹوں میں ردعمل آجاتا ہے۔ اخبار میں لکھے کالم کا فیڈ بیک رفتہ رفتہ آتا ہے، بہت بار اندازہ بھی نہیں ہوپاتا کہ کالم کس قدر مقبول ہوا یا کتنی دور تک سرائیت کر گیا۔ بعض اوقات مگرکسی کالم کا فیڈ بیک برسوں بعد بھی موصول ہوجاتا ہے جب کسی دور دراز کے شہر کا کوئی شخص ملے اور کہے کہ مجھے آپ کافلاں کالم آج تک یاد ہے۔ سوشل میڈیا کے بعض ممتاز نام جن کے ہزاروں فالورز ہیں اور جن کی تحریر سینکڑوں شیئر لیتی ہے، و ہ موقعہ ملنے پر اخبار میں سکہ نہ جما سکے۔
اخبارایک لحاظ سے سلو رسکرین یعنی فلم کی مانند ہیں۔ بے شمار ایسے اداکار ہیں جنہوں نے ٹی وی پر نام کمایا، مگر فلم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ انہیں حسرت ہی رہی کہ وہ کامیاب فلم سٹار بنیں، مگر کامیابی نہ قدم نہ چوما۔ یہی معاملہ پرنٹ میڈیا، خاص کر بڑے اخبارات کا ہے۔ ضروری نہیں کہ سوشل میڈیا کامقبول رائٹر بھی وہاں پر کامیاب ہو۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو اخبار کے لئے مختلف اندازمیں لکھنا پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر آپ جو جی چاہے لکھ ڈالیں، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔
اخبارات کا معاملہ مختلف ہے، اس گئے گزرے وقت میں بھی ایڈیٹر کا عہدہ موجود ہے اورایک اچھا لائق صحافی بطور ایڈیٹر خاصا طاقتور اور بااختیار ہوتا ہے۔ اخبارات میں بہت سے سنسر ہیں۔ حکومتی پابندیاں، اداروں کی جانب سے عائدنادیدہ پابندی، میڈیا ہائوس کے اپنے مسائل اور پھر کارپوریٹ پریشر۔ آپ اشتہاری پارٹیوں کے خلاف کچھ نہیں لکھ سکتے، یہ ان لکھا اصول ہے۔ آپ کے سامنے، دائیں بائیں کئی سرخ لکیریں ہیں، ان میں رہ کر ہی لکھنا ہے۔ کسی لکیر پر پائوں آ گیا تو خوفناک آواز میں بزر بج جائے گا، آپ کاسین وہیں ختم بھی ہوسکتا ہے، یعنی وہ آخری کالم بن جائے۔
اخبارات میں رہ کر آپ احتیاط سے لکھنا سیکھتے ہیں۔ بات کہنی بھی ہے اور گرفت میں بھی نہیں آنا۔ بغیر ثبوت کے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ جھوٹا الزام لگا دیا تو اگلے روز دبائو آئے گا۔ سوشل میڈیا پر ابھی قوانین موجود نہیں، ممکن ہے مستقبل میں ایسا ہوجائے، تب تک لکھنے والوں کے عیش ہیں۔ جو کچھ جی میں آیا لکھ ڈالا۔ مین سٹریم میڈیا میں ایسا نہیں۔ ٹی وی پر پھر بھی بہت کچھ چل رہا ہے، مگر وہاں بھی مسائل آ رہے ہیں۔ وہاں بھی کچھ بڑھ چڑھ کر بولنے سے پہلے کسی طاقت کی سپورٹ حاصل کرنا پڑتی ہے۔ آپ کی بیک پر کوئی بڑی توپ چیز ہو ورنہ وہاں بھی آگے نہیں چل سکتے۔ اخبارات میں زیادہ پابندیاں اور سنسر ہیں۔
ایک اور پہلو ہے کہ اخبار کے لئے زیادہ متانت اور وقارکے ساتھ لکھنا پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا تو آپ کی اپنی بیٹھک ہے، جومرضی آئے لکھ ڈالیں۔ جی میں آئے تو گاجر کے حلوہ بنانے کی ترکیب لکھ دیں۔ بہت سے لائیکس، کمنٹس مل جائیں گے، کئی لوگ شیئر بھی کر دیں گے۔ اپنے نجی معاملات پر بلاگ لکھا جا سکتا ہے۔ اخبار کا کالم مگر یوں نہیں لکھا جاتا۔ اس کا اپنا پیرامیٹر ہے، اس سے زیادہ تجاوز کرنا ممکن نہیں۔
آپ نے گاجر کے حلوے پر لکھنا ہے تو اس کے لئے باقاعدہ فضا بنانی پڑتی ہے، حلوہ جات پر پورا کالم لکھا جائے تب کہیں جا کر اس گاجر کے حلوے کا جواز بن پاتا ہے، وہ بھی کبھی کبھار۔ اس لئے جناب اگر آپ سوشل میڈیا پر کامیاب ہیں تو ضروری نہیں کہ اخبار میں بھی فاتح ٹھیریں، ا س کے لئے الگ انداز سے محنت کرنا پڑے گی۔ جب تک آپ اخبار میں اپنے آپ کو نہیں منوا لیتے، تب تک آپ رائٹر کے طور پر اسٹیبلش نہیں ہوسکتے، چاہے فیس بک پر جتنا مرضی کامیابیاں بٹور لیں، خواہ آپ کے فالورز لاکھوں میں ہوجائیں۔ یہ بات ممکن ہے بہت سوں کو پسند نہ آئے، مگر یہ تلخ حقیقت ہے۔