بلوچستان میں چھبیس اگست کوہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں نے پورے ملک کو ہلا دیا ہے۔ یہ بڑا سانحہ اور نہایت دل دکھا دینے والی خونی روداد ہے۔ دہشت گردی کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے، اس بار مگر اس کا سکیل زیادہ بڑا اور وسیع تھے۔ کئی طرح کے حملے ہوئے۔ مسافروں کو بس سے اتار کر گولیاں ماری گئیں، ٹرک ڈرائیوروں کو بھی نشانہ بنایا گیا حالانکہ پہلے انہیں ہدف نہیں بنایا جاتا تھا کیونکہ بلوچستان سے پھل اور دیگر سامان یہی لوگ لے کر جاتے ہیں۔ پولیس تھانوں اور چیک پوسٹوں پر بھی حملے ہوئے۔ کئی مختلف مقامات اور جگہوں پرنہایت درجے کی درندگی کے ساتھ نہتے عوام کو نشانہ بنایا گیا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک کس قدر مضبوط اور وسیع ہوچکا ہے۔
یہ بات مگر واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ یہ لوگ پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے کی وجہ سے ہلاک کئے گئے، مگر ایسا نہیں کہ بلوچوں نے پنجاب کو لاشیں بھیجیں۔ نہیں بلکہ دہشت گردوں نے ایسا کیا۔ ہر دہشت گرد کی کوئی زبان، نسل یا قوم ہوتی ہے، مگر وہ اس کا نمائندہ نہیں ہوتا۔ شدت پسند بلوچ دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان کے عوام یا بلوچوں کی نمائندہ نہیں ہیں۔ جس طرح ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کے لوگ یا دیگر دہشت گرد گروہ پختون ہونے کے باوجود پختونوں کے نمائندہ نہیں تھے۔ ان کی قتل وغارت کو دہشت گردی سمجھنا چاہیے۔ یہ دہشت گرد ہیں جو بلوچ ہیں یا بلوچی زبان بولتے ہیں، مگر یہ بلوچوں کے نمائندہ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں اور ان کے ہینڈلر باہرکہیں بیٹھے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں کلیئر اور یکسو ہو جانا چاہیے۔
گزشتہ روز دیکھا کہ فیس بک پر کئی پنجابیوں نے بلوچوں کے خلاف پوسٹیں لگائیں اور یوں تاثر دیا کہ ان کا جواب یہاں سے دیا جانا چاہیے۔ یہ نہایت غلط، جاہلانہ اور شرمناک حد تک بے وقوفانہ بات ہے۔ پنجاب میں جو بلوچ آباد ہیں یا جن کے نام کے ساتھ بلوچ لگتا ہے، ان میں سے بیشتر بلوچی زبان نہیں جانتے اور نہ ہی ان کا بلوچستان سے اب تعلق ہے۔ جس طرح پاکستان میں رہنے والے سادات کا اب عربوں سے کوئی زبانی یا قبائلی رشتہ نہیں رہا۔ ویسے اگر بلوچستان کا ڈومیسائل رکھنے والے بلوچ یا پشتون بھی پنجاب آ کر کاروبار کرتے یا یہاں پر سیٹل ہوچکے ہیں تو ان کا اس قسم کی دہشت گردی سے کیا تعلق؟ عام آدمی یا عام کاروباری، دکاندار وغیرہ کا دہشت گردوں پر کوئی کنٹرول ہے نہ اثر۔ وہ تو خود بے بس ہے۔
بلوچستان حکومت کے بعض وزراان سنگین وارداتوں کے حوالے سے اپنی حکومت کی صفائی پیش کرتے رہے، یہ بھی کہا کہ سکیورٹی کی غفلت نہیں تھی او رصوبے میں ہزاروں میل طویل سڑکیں ہیں، کیسے تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ کمزور باتیں ہیں، عذر لنگ۔ صوبے میں بیک وقت اتنے واقعات ہوجائیں، درجنوں قیمتی جانیں چلی جائیں اور حکومت اسے ناکامی بھی نہیں سمجھ رہی؟ یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ عوام کی جان ومال کا تحفظ کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ چھبیس اگست کو حکومت ایسا تحفظ دینے میں ناکام رہی۔
ناکامی کی تاویل یا عذر دینے کے بجائے اسے تسلیم کریں اور پھر آگے بڑھیں، ایسے اقدامات کئے جائیں کہ آئندہ ایسا نہ ہونے پائے۔ یہ دراصل انٹیلی جنس ناکامی ہے۔ چھبیس اگست کا دن بلوچستان میں پچھلے سترہ اٹھارہ برسوں سے اہم چلا آرہا ہے۔ اس دن صوبے میں خاصی ٹینشن رہتی ہے۔ اگر دہشت گر د تنظیموں نے اتنے بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا تواس کا اطلاع حکومت کو مل جانی چاہیے تھی۔ اطلاع نہیں ملی تو اس کا مطلب ہے کہ ہیومن انٹیلی جنس نیٹ ورک کمزور ہے یا ان تنظیموں کے اندرونی سرکل تک رسائی حاصل نہیں۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حکومتی وزرا کا یہ موقف البتہ درست ہے کہ دہشت گردوں کو ناراض بلوچ کہہ کر رعایت نہیں دی جا سکتی۔ بالکل ٹھیک بات ہے۔ ناراضی کا اظہار سیاسی انداز سے ہوتا ہے۔ اگر ناراضی دہشت گردی میں تبدیل ہوگئی تو پھر وہ فرد یا گروہ بھی ناراض نہیں بلکہ دہشت گرد اور قاتل سمجھا جائے گا، جس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتنی چاہیے۔ ان دہشت گردوں کا صفایا ہونا چاہیے، نیٹ ورک کو توڑیں، ان کی فنڈنگ روکنے کی کوشش کریں اوران کی سٹرانگ پاکٹس پرکاری ضرب لگائیں۔ بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں آپس میں مدغم ہو کر یا اتحاد بنا کر زیادہ طاقتور ہوگئی ہیں، ان کے جواب میں بھی بڑے لیول پر موثر کارروائی کرنا پڑے گی۔
یہ بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ بھرپور جوابی کارروائیاں ہوں مگر ماورائے قانون کچھ نہ ہو۔ خیال رکھا جائے کہ کسی معصوم شخص کو نقصان نہ پہنچے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے، ان کا نیٹ ورک توڑا اور افرادی قوت کو کمزور بنایا جائے۔ اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو بہتر بناتے ہوئے ان کے منصوبے قبل از وقت ناکام بنائے جائیں۔ یاد رکھیں کہ جب کہیں کوئی بے گناہ ہدف بنے گا تو اس سے حکومتی اپریشن کی ساکھ اور کریڈیبلٹی کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس لئے احتیاط برتنی چاہیے۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کا یہ مطلب نہیں کہ اس علاقے میں مسائل موجود نہیں یا عوامی محرومیوں کو دور نہیں کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کا کہیں نہ کہیں کوئی تعلق عوامی محرومی، مشکلات اور غربت سے بھی ہوتا ہے۔ عوامی مشکلات دور ہوں، غربت میں کمی آئے تو دہشت گردوں کی ریکروٹنگ رک جاتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی خیال رکھا جائے کہ شورش اور دہشت گردی میں فرق ہے۔ کہیں کسی وجہ سے عوامی ناراضی، احتجاج، احتجاجی تحریک وغیرہ چل رہی ہے تو اسے الگ ڈیل کرنا چاہیے۔ عوامی مسائل اپنی جگہ حل ہوں اور دہشت گردوں کا قلع قمع اپنے انداز میں الگ سطح پر کیا جائے۔ یہی درست طریقہ ہے۔