صاحبو! سائنس کی افادیت پر تو خیر کوئی کلام نہیں، یہ بڑی دلچسپ بھی ہے۔ ایسی ایسی مزے کی تھیوریز اس میں ملتی ہےں جس کا آدمی پہلے تصور بھی نہیں کر رہا ہوتا۔ ہم نے گریجوایشن سائنس (ڈبل میتھ، فزکس)کے ساتھ کر رکھی ہے، اگرچہ اس کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر صحافت میں آ دھمکے۔ سائنس سے بہرحال محبت بھرا یک طرفہ تعلق ہمیشہ رہا۔ یعنی خود آگے سائنس نہیں پڑھی، لیکن اگر کوئی اس کے لئے بضد ہو تو ہم اسے روکتے نہیں۔ ابن انشا نے کہا تھا"سچ اچھا، پر سچ کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا۔ " ہم اس میں معمولی سی ترمیم کر دیا کرتے ہیں، سائنس اچھی، پر کوئی اور اسے پڑھے تو اور اچھی۔
اس ناقابل رشک پس منظر کے باوجود گزشتہ روز سے سائنس پر بڑا پیا ر آ رہا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ انٹرنیٹ پرگھومتے پھرتے کسی ویب سائٹ پرایک سائنسی ریسرچ پڑھی کہ سست لوگ زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور کاہل ہونا انتہائی ذہین ہونے کی نشانی ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے اپنی زندگی کے تین عشرے ہم نے اسی نکتے کے حق میں جدوجہد کرتے گزار دئیے۔ خدا کی قدرت کہ اس بار ہمارے حق میں گواہی سائنسدانوں کی جانب سے نمودار ہوئی ہے، جس پر کوئی ناہنجار اعتراض بھی نہیں کر سکتا۔
جس خبر کا ذکر کر رہا تھا، اس کے مطابق امریکی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے نوجوانوں کے دو مختلف گروپس پر تحقیق کی۔ ایک گروپ تیز طرار، جسمانی فعال لوگوں پر مشتمل تھا، جبکہ دوسرے میں تھنکرز ٹائپ نسبتا سست لوگ شامل تھے۔ مختلف ٹاسک انہیں دئیے گئے اور ہر ایک کی کلائی پر ایک گھڑی باندھ دی گئی جو ان کی جسمانی حرکت کی مکمل خبر دے۔ نتائج نے بتایا کہ جو لوگ زیادہ حرکت میں رہے، بھاگ دوڑ کرتے رہے، ان کی نسبت آرام، سکون سے زیادہ دیر بیٹھے رہنے والے زیادہ ذہین ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق ہائی آئی کیو والے لوگ اپنے خیالات میں گم ہوتے ہوئے زندگی کم فعال انداز میں گزارتے ہیں، دوسری طرف نسبتاً کم ذہین لوگ جلد بور ہو کر جسمانی سرگرمی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔
آپ سے کیا پردہ کہ ہم نے ہمیشہ آرام سے بیٹھ کرکتابیں، رسالے پڑھنے کو ترجیح دی۔ سکول، کالج کے زمانے میں جب ہم اپنے کمرے میں خاموشی سے لیٹ کر مطالعہ فرماتے اور مونگ پھلی یا شہر کی مشہور نمکو سے دل بہلایا کرتے تو اکثر اس رویے پر والدین کی ڈانٹ سننا پڑتی۔ والدہ صاحبہ کو ہم نے اکثر یہ قائل کرنے کی کوشش کی کہ ڈائجسٹ اور کہانیاں پڑھنے سے میٹرک کے امتحانات خاص کر سائنسی مضامین میں مدد ملتی ہے، مظہر کلیم کے عمران سیریز سے فزکس کے قوانین سمجھنا آسان ہوجاتے ہیں وغیرہ۔
یہ بھی بتایا کہ اگر ہم بظاہر سو رہے ہوں تو پھر بھی ذہن جاگ رہا ہوتا ہے اور عجب عجب اچھوتے آئیڈیا جنم لیتے ہیں، اگر خراٹوں سے کمرہ گونج رہا ہو تب بھی اسے نیند نہ قرار دیا جائے۔ ہمارا کہنا تھا کہ اس" بظاہر" سونے کو بھی پڑھائی کی طرح کا ایک اہم کام سمجھا جائے۔ ہماری امی کبھی ان دلائل سے متاثر نہیں ہوئیں اور سست ترین لوگوں کے لئے سرائیکی زبان میں موجود الفاظ "مَنھَر"، " مَٹکر" اور" مٹوس "سے نوازتی رہیں۔ سرائیکی جاننے والے ان لفظوں کی فصاحت وبلاغت سے لطف اٹھا سکتے ہیں، یوں سمجھئے کہ جتنی نرم ساؤنڈ ہے، اس سے سو گنا زیادہ منحوس اور بھیانک ان کے معنی ہیں۔
بدقسمتی سے تاریخ کے ہر دور میں یہی" علم دشمن "رویہ ہمارا پیچھا کرتا رہا۔ ہاسٹل میں ساتھی طالب علم، دوست بھی سست، کاہل ہونے کا طعنہ دیتے، ایک آدھ ایسا بدبخت بھی نکل آتا جو ہڈ حرام کہنے سے بھی نہ چوکتا۔ شادی کے بعد اگرچہ رب کریم نے ہمیں خاصی مہربان اور فراخ دل اہلیہ عطا فرمائی، اس کے باوجود انٹلکچوئل مس پرسیپشن (Intellectual Misperception) کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔
ایسا بہت بار ہوا جب ہم نیم درازلیٹے"بظاہر" ٹی وی پر کوئی فلم یا کرکٹ میچ دیکھ رہے ہیں، ساتھ گرما گرم پکوڑے، گھر کے تیار کردہ سینڈوچ یا فرنچ فرائز کی لبا لب پلیٹ پڑی ہے، سردیوں میں مونگ پھلی، کاجو، پستے یا گاجر کے حلوے کا اضافہ کرلیں، تپائی پر گرما گرم بھاپ اڑاتی چائے کا کپ دھرا ہے۔ ان تمام چیزوں سے شوق جاری ہے، لذت کام ودہن اور خمار خورونوش سے آدمی کی کبھی آنکھ جھپک ہی جاتی ہے۔ مسئلہ مگر تب پیدا ہوجاتا جب ہم اصرار کرتے ہیں کہ یہ سب ذہنی مشق ہو رہی ہے اور قطعی طور پر ہماری توجہ ان دنیاوی مکروہات کی جانب نہیں، دماغ میں کھچڑی پک رہی ہے کہ مشرق وسطی کے بحران کا کیا حل ہے؟ اور مہاجرین کے مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
افسوس کہ ہماری سدا کی مہربان، نرم دل اہلیہ بھی ایسے مواقع پر وساوس شیطانی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ہم روایتی سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفتر جانے سے دیر کر رہے ہیں۔ شائد ایسے باریک نکات بیویوں کی سمجھ میں نہیں آتے کہ ان کے ذہین خاوند اگر بظاہر سو بھی رہے ہوں تب بھی دماغ جاگ رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ یہ نہیں سمجھ پاتیں کہ ٹی وی پر دیکھا جانے والا کرکٹ میچ، یا ایچ بی او پر لگنے والی گاڈ فادر ٹائپ فلم یا کوئی ایکشن تھرلر دراصل ایک بہانہ ہے اور اصل مقصد دماغی مشق سخن ہے۔ تاہم سائنس دانوں کا اللہ بھلا کرے، انہوں نے یہ تمام مسائل ہمیشہ کے لئے نمٹا دئیے ہیں۔ ہمارے بڑے بھائی صاحب جو بچپن ہی سے ہمیں سستی کے طعنے دیتے آئے ہیں، یہ تحقیق اب ان کے اعتراضات کا بھی شافی جواب ثابت ہوگی۔
کالم لکھنے سے پہلے اس موضوع کو کھنگال رہا تھا تو ایک اور مہربان خاتون سائنس دان کی تحقیق پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اس عفیفہ نے کمال نکتہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ ایسی علامات بتائیں جو بظاہر کسی شخص کو سست ثابت کرتی ہیں، مگر درحقیقت وہ اس کی ذہانت بلکہ انتہائی ذہانت کا ثبوت ہیں۔ آرٹیکل پڑھ کر دل باغ باغ اور روح سرشار ہوگئی۔ اللہ کرے زور قلم وتحقیق اور زیادہ۔ ایملی ڈکنس نامی یہ خاتون لکھتی ہیں کہ لندن سکول آف اکنامکس اور سنگاپور مینجمنٹ یونیورسٹی کے ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق زیادہ ذہین لوگ اپنے قریبی حلقے میں بھی زیادہ سوشلائز نہیں کرتے۔
کام کاج کے بعد اگر آپ اپنے کولیگز کے ساتھ بیٹھ کر کہیں پر چائے نہیں پیتے، ہوٹلنگ سے گریز کرتے ہوئے گھر جا کر بستر پر پدھارتے ہیں تو شرمندہ ہونے کے بجائے سمجھ لیں کہ آپ ایک غیر معمولی ذہین شخص ہیں۔ اسی طرح اگر آپ اپنے کتے کو ٹہلانے کے لئے باہر لے جانے کے بجائے پالتو بلی کو گود میں لئے لیٹے رہتے ہیں تو یہ بھی ندامت کا موقعہ نہیں بلکہ آپ کی مخفی ذہانت کی ایک اور دلیل ہے۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق بلیوں کو پیار کرنے والے کتے پالنے والوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ (راقم جیسے لوگ جن کے پاس پالتو کتا ہے نہ بلی، وہ یقینا زہانت میں دو ہاتھ مزید آگے ہوں گے۔)
اس اخبارنویس سے کولیگز کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ میگزین کے لئے آرٹیکل یا ادارتی صفحے کے لئے کالم آخری لمحوں میں دیتا ہے۔ کالم کی ڈیڈ لائن جب ختم ہونے والی ہو، تب لکھنا شروع کرتا اور جب کاپی پریس جانے سے لیٹ ہو رہی ہو، تب دیتا ہے۔ جھوٹ کیوں بولیں، تھوڑی بہت ندامت ہمیں بھی ہوتی رہی ہے۔ آج مگر پورے اعتماد کے ساتھ، سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ہمارا قصور نہیں بلکہ "سائیکالوجی ٹوڈے" کی ریسرچ کے مطابق" پرفیکشنسٹ یعنی مثالیت کی حد تک اچھا کام کرنے کے خواہاں لوگ کام آخری لمحوں میں کرتے ہیں۔ یہ ان کی سستی نہیں بلکہ وہ بہتر سے بہتر کام کرنے کے لئے سوچتے رہتے ہیں۔ "مجھے امید ہے کہ سابق اور حالیہ ساتھی اب اس نئی سائنسی حقیقت کو جان کر خوش ہوں گے کہ ایک پرفیکشنسٹ کو انہوں نے بھی کام کرتے ہوئے دیکھابلکہ جی بھر کے دیکھا۔
دوران ملازمت جہاں کام کیا، وہاں ہماری میز ہمیشہ بے ترتیبی کا شکار رہی۔ جب کبھی تصویر فیس بک پر لگائی، بے ترتیب کتابو ں اور اخبارات کے ڈھیر کے حوالے سے تبصرے ہوئے۔ گھر میں اگر بس چلے تو ہمارے بستر پرکتابوں، رسالوں، بکھرے اخبارات، نوٹ بکس، لیپ ٹاپ وغیرہ کی بھرمار ہو اور بمشکل سونے کی جگہ بن پائے۔ اس پر ہمیشہ اہلیہ اور بچوں کے اعتراضات سننے پڑے۔ نئی سائنسی تحقیق نے یہ مسئلہ بھی نمٹا دیا ہے، جس کے مطابق بے ترتیبی سے تخلیقی قوت بڑھتی اور نئے آئیڈیاز جنم لیتے ہیں، جبکہ ترتیب اور ڈسپلنڈ ماحول روایتی اور لگے بندھے انداز میں کام پر اکساتا ہے۔
آخری نکتہ وہی جس کا اشارہ شروع میں آیا کہ اگر آپ کاہلی سے بیٹھے ہیں تو ضروری نہیں سست ہوں بلکہ خیالات کا انبار اور سوچنے کی مصروفیت اٹھنے نہیں دے رہی۔ کوئی اور مانے نہ مانے، ہم تو اس تحقیقی نکتے پر بھی ایمان لا چکے ہیں اور اپنے آس پاس کے تمام لوگوں کو یہی مشورہ دیں گے کہ سائنسی ریسرچ پر آنکھ بند کرکے ایمان لے آنا چاہیے۔ اب تک اگر جہالت میں زندگی گزاری تو کوئی بات نہیں، آج سے اپنی اصلاح کریں اور رویہ مکمل طور پر بدل ڈالیں۔ ویسے بھی ہم تو بدلنے والے نہیں۔