جیسا کہ اندازہ لگایا جا رہا تھا، ترکیہ (ترکی)کے رن آف الیکشن میں طیب اردوان صدر منتخب ہوگئے۔ انہوں نے باون فیصد سے تھوڑے زیادہ ووٹ لئے۔ ترکیہ کے آئین کے مطابق صدر کے لئے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لینا لازمی ہیں۔ طیب اردوان نے باون فیصد ووٹ لے کر اگلے پانچ سال کے لئے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ ایوان اقتدار میں انہیں اکیس سال ہوچکے ہیں، بظاہر اب ان کا اقتدار چھبیس سال تک طویل ہوگا۔ ممکن ہے اگلی بار وہ پھر الیکشن لڑیں اور کیا خبر جیت بھی جائیں۔
طیب اردوان کے حریف کمال کلچدار جو اپوزیشن کی چھ جماعتی اتحاد کے نمائندے تھے، انہوں نے سنتالیس فیصد سے کچھ زیادہ ووٹ لئے۔ اس بار اردوان کو ہرانے کے لئے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے ساتھ مختلف دھڑے اکھٹے ہوئے۔ ان میں ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اسلامسٹ پارٹی تھی، جبکہ کرد قوم پرست جماعت بھی حصہ بنی۔ یہ سب ترکیہ کے مرد آہن طیب اردوان کو شکست دینے کے لئے متحد ہوئے، ان کی کارکردگی بری نہیں رہی، مقابلہ اچھا ہوا، مگر یہ کافی نہیں تھا۔ طیب اردوان کو ہرانے کے لئے پچاس فیصد ووٹ سے اوپر جانا ضروری تھا۔
چودہ مئی کو ہونے والے الیکشن میں کمال کلچدار نے پنتالیس فیصد ووٹ لئے، جبکہ ایک اورالٹرا قوم پرست امیدوار سنان اوعان نے پانچ فیصد ووٹ لئے۔ تب طیب اردوان کے انچا س فیصد سے کچھ اوپر ووٹ تھے۔ اٹھائیس مئی کے رن آف الیکشن میں اپوزیشن جماعتوں کو امید تھی کہ سنان اوعان انہیں سپورٹ کریں گے، اس کے بجائے انہوں نے طیب اردوان کا ساتھ دینابہتر سمجھا۔ اردوان کا ایک پہلو ترک نیشنل ازم بھی ہے۔ پچھلے چند برسوں سے انہوں نے ترک نیشنلسٹ جذبات اور احساسات کو عمدگی سے ٹچ کیا ہے اور کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف بہت سخت موقف اپنایا۔ اسی وجہ سے ترک نیشنلسٹ حلقوں میں ان کی سپورٹ بڑھی۔ سنان اوعان کی جانب سے طیب اردوان کا ساتھ دینے کے اعلان سے واضح ہوگیا تھا کہ اب ان کی جیت یقینی ہے۔ تاہم ان کے حامیوں کا خیال تھا کہ طیب اردوان کے ووٹ چون پچپن فیصد تک چلے جائیں گیْ ایسا نہیں ہوا اور سنان اوعان کے ووٹ کا نصف کے قریب اپوزیشن امیدوار کلچدار کو بھی ملا۔
طیب اردوان کی جیت پر ترکیہ میں ان کے حامی تو خوش ہوئے ہوں گے، تاہم پاکستان کے اسلامسٹ اور رائیٹ ونگ کے حلقوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پاکستان کے مذہبی طبقہ اور مذہبی سیاسی جماعتوں میں طیب اردوان کی پزیرائی خاصی ہے۔ جماعت اسلامی تو اعلانیہ انہیں اون کرتی ہے، جبکہ جے یوآئی اور دیگر دھڑوں میں بھی تحفظات موجود نہیں۔ دینی مدارس کا حلقہ طیب اردوان کی جیت پر خوش اور نازاں ہے۔
پاکستانی اسلامسٹوں اور رائٹسٹ حلقوں کی خوشی اور مسرت کی دو تین وجوہات ہیں۔ یہ سب لوگ طیب اردوان کی کامیابی کو ترک قوم پرست ماحول میں ایک نسبتاً اسلامسٹ شخصیت کی کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایسا لیڈر جس نے الٹرا سیکولرفوج، بیوروکریسی، میڈیا، عدلیہ وغیرہ کو پیچھے دھکیل کر اپنی جگہ بنائی اور اب دو عشروں سے زیادہ عرصے سے حکمران ہے۔ دراصل طیب اردوان کی فتح میں اسلام پسند حلقے اپنی کامیابی کی امید دیکھتے ہیں۔
دوسرا فیکٹر سیکولرازم ہے۔ طیب اردوان ایک خاص سطح پر معتدل سیکولرسٹوں کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہوں گے، مگر بہرحال ترکیہ کے سیکولر جمہوری حلقے ان کے شدید مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں اردوان نے ترکیہ میں بہت کچھ ایسا کیا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان میں سیکولرازم مخالف اسی وجہ سے طیب اردوان کی حمایت کرتے اور ان کی جیت پر خوش ہوتے ہیں کہ وہ اسے سیکولرازم اور سیکولرسٹوں کی شکست سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے ترکیہ میں اس نتیجے کو صرف اس زاویے سے نہ دیکھا جا رہا ہو، مگر پاکستان میں بہرحال سیکولراز م کی شکست والا اینگل بہت سے مذہب پسندوں اور رائٹسٹوں کے لئے خاصا دل خوش کن ہے۔
تیسری وجہ مغربی میڈیا ہے۔ سی این این، فوکس نیوز سے لے کر اکثر یورپی، امریکی چینل، اخبارات میں طیب اردوان کی کامیابی پر خاصی مایوسی کی فضا نظر آئی۔ مغربی میڈیا میں اردوان کے خلاف بہت کچھ چھپتا رہا، بلکہ ان اداروں کے الیکشن سروے وغیرہ بھی خاصے گمراہ کن اور غلط ثابت ہوئے۔ ان سب نے طیب اردوان کو الیکشن ہرا دیا تھا اور ان کے خیال میں بیالیس سے پنتالیس فیصد سے زیادہ ووٹ اردان کو نہیں ملیں گے، اس کے برعکس ہوا، اردوان نے انچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لئے اور اب رن آف الیکشن میں باون فیصد لے گئے۔
طیب اردوان کی کامیابی میں ان کی قدآورشخصیت، سیاسی ہوشیاری اور مہارت کے ساتھ سرکاری میڈیا اور دیگر عوامل کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا ہنر کارفرما ہے۔ مہنگائی، خراب معیشت کے باوجود طیب اردوان نے الیکشن سے پہلے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاصا فراخدلانہ اضافہ کیا۔ انہوں نے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں کو بھی کسی نہ کسی طرح سے اپنے ساتھ جوڑے رکھا۔ وہاں کے لئے میگا پراجیکٹس کا اعلان کیا، ان کے لئے امید پیدا کی اور اسی وجہ سے انہوں نے اردوان کے حق میں ووٹ ڈالے۔
مغربی میڈیا اور اردوان مخالف ترکیہ حلقوں کا خیال تھا کہ زلزلہ متاثرین علاقوں سے طیب اردوان ہار جائیں گے، وہاں نتیجہ مختلف نکلا۔ استنبول اور انقرہ جیسے بڑے شہروں میں اردوان کی سپورٹ کم ہوئی ہے حالانکہ استنبول طویل عرصے سے ان کا مضبوط سیاسی مستقر رہا ہے۔ دراصل ان بڑے شہروں میں تارکین وطن کی بہتات اور انویسٹمنٹ کی وجہ سے ترک شہریت اور دیگر سہولتیں دینے سے مقامی آبادی کے تحفظات پیدا ہوچکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں اردوان کی پارٹی کو شکست ہوئی تھی۔ استنبول اور انقرہ کے مئیر اپوزیشن سے بنے۔
کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کو زیادہ پرکشش اور ڈائنامک امیدوار نہیں مل سکا۔ کمال کلچدارچوہتر سالہ ریٹائر بیوروکریٹ ہیں، جو نرم لہجے میں بات کرنے کے عادی ہیں۔ طیب اردوان کی عمر اگرچہ ساٹھ برس سے تجاوز کر چکی ہے، مگر وہ پرجوش خطیب ہیں اور نوجوانوں میں بھی اپنا ایک حلقہ اثر رکھتے ہیں۔ ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی بیان کیا جا رہا ہے کہ اگر استنبول یا انقرہ کے میئر میں سے کوئی صدارتی امیدوار بنتا تو طیب اردوان کو زیادہ ٹف ٹائم دے سکتا تھا، خاص کر انقرہ کے مئیر جو سیکولر نہیں بلکہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی شخصیت تصور ہوتی ہیں۔ وہ اگر اردوان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بنتے تو اردوان کے روایتی مذہبی ووٹ بینک میں ڈینٹ ڈال سکتے تھے۔ اب یہ طیب اردوان کا ہنر سمجھیں یا ہوشیاری کہ انہوں نے کسی نہ کسی طرح ان مئیر حضرات کو براہ راست مقابلے میں آنے سے روکے رکا۔
ترکیہ میں بہرحال جس تبدیلی کا خواب سیکولر اور دیگر اردوان مخالف دیکھ رہے تھے، وہ نہیں آ سکی۔ اگلے پانچ برسوں کے لئے طیب اردوان ہی ملک کی طاقتور ترین شخصیت ہوں گے۔ ان کے لئے البتہ چیلنجز بہت سے ہیں۔ خراب معیشت، تیزی سے گرتی ترک کرنسی لیرا، بے پناہ مہنگائی اور زلزلہ متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی اور ری ہیبلیٹیشن ورک کرناوغیرہ۔ دیکھیں ترکیہ کے مرد آہن ا سکے لئے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟ اس نتیجے سے پاکستان اور ترکیہ کے باہمی تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ممکن ہے تجارتی تعلقات بہتر ہوں کیونکہ شریف خاندان کے اردوان کے ساتھ قریبی ذاتی تعلقات ہیں۔