لکھنا میں سیاست پر چاہ رہا ہوں، مگر آغاز ایک چھوٹی سی کہانی سے کرتے ہیں۔ ایسی کہانی جو موٹیویشنل سپیکرز استعمال کیا کرتے ہیں۔ ہم مگر جانتے ہیں کہ موٹیویشنل سپیکرز اگرچہ کبھی کبھار مبالغہ آمیز باتیں کہہ ڈالتے ہیں مگر ان کی لکھی یا کہی ہر بات غلط نہیں ہوتی۔ وہ بہت کچھ ایسا بھی کہتے ہیں جو درست اور صائب ہوتا ہے۔ جس سے انکار ممکن نہیں اور اس پر عمل کرنا نفع دیتا ہے۔ یہ موٹیویشنل (Motivational) کہانی مختلف زبانوں میں تھوڑے بہت فرق سے ملتی ہے، اگرچہ اس کا مرکزی خیال اور پیغام ایک ہی ہے۔
کہتے ہیں کسی گاوں میں دو کسان بھائی رہتے تھے۔ برسوں سے وہ اکھٹے کھیتی باڑی کرتے، مویشی پالتے اور ان کے دودھ، دہی، مکھن، پنیر وغیر ہ سے اپنے معاملات چلاتے تھے۔ ان کے پاس کئی ایکڑ زمین تھی۔ درمیان سے ایک نہر گزرتی تھی، نہر کے دونوں طرف ان کی آبائی زمین تھی۔ تقسیم کچھ اس انداز میں ہوئی کہ ایک بھائی نہر کی ایک سائیڈ پر جبکہ دوسرا پرلی طرف مقیم تھا۔ جیسا کہ ہوتاہے، اکھٹے رہنے والے بھی کسی معاملے میں جھگڑ پڑتے ہیں۔ ان کے درمیان بھی چھوٹی سی بات پرلڑائی ہوئی جو بڑھتی چلی گئی۔ آپس کی خلیج اتنی گہری اور وسیع ہوگئی کہ بول چال تک بند کر دی گئی۔
انہی دنوں میں ایک روز بڑے بھائی کے گھر پر دستک ہوئی۔ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک لکڑی کا کام کرنے والا (ترکھان)اپنے کندھے سے اوزار کا تھیلا لٹکائے کھڑا ہے۔ ترکھان یا بڑھئی نے اس بھائی سے درخواست دی کہ وہ لکڑی کا بہت اچھا کام کرلیتا ہے، چاہے دروازے کھڑکیاں بنوا لو یا کچھ اور۔ بھائی کو اچانک خیال آیا۔ اس نے کہامیرے پاس تمہارے لئے ایک کام ہے۔ وہ ترکھان کو نہر کی طرف لے کر گیا اور کہا کہ میری والی سائیڈ پر کئی فٹ اونچی باڑھ بنا دو۔ دوسری طرف میرا بھائی رہتا ہے، میں اب اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔ باڑھ (Fence)بنا دو، میں اسے جنگلی بیلوں سے ڈھانپ دوں گا تاکہ میری نظر اس طرف نہ جائے اور نہ وہ مجھے دیکھ پائے۔ بڑھئی نے کہا ٹھیک ہے۔ بڑے بھائی نے اپنے گھر میں رکھی لکڑی اس کے حوالے کر دی اور کہا کہ تم کام مکمل کرو، میں نے شہر جانا ہے، شام تک لوٹ آوں گا۔
کہانی کے مطابق شام کو جب بڑا بھائی واپس لوٹا تو وہ یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ ترکھان نے باڑھ بنانے کے بجائے اس کے گھر کے سامنے نہر پرلکڑی کا پل بنا دیا ہے، مضبوط پل جس پر چڑھ کر آسانی سے دوسری طرف جایا جا سکے۔ وہ برہمی کے عالم میں ترکھان کی طرف بڑھا جو آخری کیلیں ٹھونک رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر پڑی کہ دوسری طرف اس کا چھوٹا بھائی کھڑا ہے، فرط مسرت سے جس کا چہرہ لال ہے اور ہونٹوں پرمسکراہٹ ہے۔ اس نے باہیں کھول کر بڑے بھائی کو دیکھا اور چلا کر کہا، "بھیا، آپ عظیم ہیں، میری بدتمیزی کے باوجود آپ نے مجھے معاف کر دیا اور میری طرف آنے کے لئے یہ پل بنا دیا۔ میں اپنے رویے پر شرمندہ ہوں، آئیں گلے ملیں"۔
بڑے بھائی پل پر سے چل کر دوسری جانب گیا، چھوٹے بھائی سے گلے ملا، اس کی معذرت قبول کی۔ اس کے گھر سے آیا شربت پیا اور واپس ترکھان کی طرف آیا جو اپنا کام مکمل کرکے واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نے ترکھان کو مناسب معاوضہ دیا، اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے وہ کیا جو اسے بہتر لگا اور وہ نہیں کیا جو میں نے تمہیں کہا تھا۔ اس کے بعد بڑے بھائی نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میرے پاس رہ جائو، اس طرح کے کئی کام میرے پاس نکلتے رہتے ہیں۔ روایت کے مطابق تو ترکھان نے جو کوئی سستا سا سگریٹ پی رہا تھا، اس نے لمبا سا کش لیا اور مسکرایا، مگر اب چونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سگریٹ کتنے نقصان دہ ہوتے ہیں اور پاکستان میں تو سگریٹ کے پیکٹ پر بڑی کریہہ سی تصویر بھی چھپی ہوتی ہے۔ اس لئے ہم کہانی والے ترکھان سے سگریٹ چھین کر اسے بجھا دیتے ہیں۔ خیر ترکھان نے مسکرا کر بڑے بھائی صاحب کو دیکھا اور کہنے لگا، آپ کا شکریہ، مگر مجھے ابھی اور بہت سے پل بنانے ہیں۔
اس کہانی سے آپ جو نتیجہ نکالنا چاہیں نکال لیں۔ مجھے تو یہ بات سمجھ آئی ہے کہ آدمی کو اپنے اختلافات بڑھانے اور لڑائی میں اضافہ کرنے کے بجائے درمیان کے راستے نکالنے چاہیں۔ انسانی سماج کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے آپس میں باڑھ کے بجائے پل بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ خاصی معروف اور چلتی چلاتی کہانی میں تحریک انصاف کے احباب کی نذر کرتا ہوں۔ ممکن ہے انصافین اس سے اتفاق نہ کریں، مگر مجھے تو یہ لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے قائد جس جگہ پر پھنس چکے ہیں، انہیں وہاں سے نکلنے کے لئے کچھ نیا اور آوٹ آف باکس سوچنا ہوگا۔ سب سے اہم یہ کہ انہیں سیاسی سوچ اپناتے ہوئے باڑھ کے بجائے نئے پل بنانے ہوں گے۔ جی انہیں تو ایک سے زیادہ پل بنانے کی ضرورت ہے کہ مخالفین زیادہ ہیں۔ تحریک انصاف کے قائد کو اس حوالے سے خود ہی کچھ فیصلے لینے ہوں گے۔ وہ پیش رفت کریں اور ایسا کرتے ہوئے معاملات اپنے کنٹرول میں رکھیں۔
تحریک انصاف کا مسئلہ یہ بھی بن چکا ہے کہ کسی اساطیری مخلوق کی طرح اس کے کئی سر بن چکے۔ ایک سر کے پیچھے ایک دُم ہو یا زیادہ گزارہ ہوجائے گامگر ایک سے زیادہ سر بن جائیں تو فیصلہ سازی مشکل ہوجاتی ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنے صرف دو یا تین مرکزی رہنمائوں کو پالیسی بیانات دینے کی اجازت دیں، باقی سب پر پابندی لگائیں۔ چاہے وہ بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، اسد قیصر وغیرہ ہوں یا کوئی اوررہنما، مگر ان کی تعداد کم ہونی چاہیے۔ دیگر ایم این ایز اور پارٹی رہنمائوں پر پابندی لگائیں کہ وہ کسی بھی حوالے سے اپنی رائے نہیں دیں گے(پنجابی عوامی محاورے کے مطابق نو لُچ فرائی۔)
عمران خان کو اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر کچھ نیا، مختلف سوچنا ہوگا، زیادہ میچورٹی کے ساتھ۔ انہیں نئے سیاسی اتحادی بنانے ہوں گے، مخالفوں کو کچھ سپیس دینا ہوگی اور اپنے لئے اور اپنی پارٹی کے لئے کچھ گنجائشیں نکالنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کیسے اور کس انداز میں کیا جائے؟ یہ تحریک انصاف خود طے کرے۔